خونی پہاڑ کے نام سے معروف نانگا پربت پر پھنسے پاکستانی کوہ پیما ڈاکٹر آصف بھٹی کو نیچے لانے کے لیے فضائی ریسکیو آپریشن موسم کی خرابی کی وجہ سے شروع نہیں ہو سکا ہے تاہم ڈاکٹر بھٹی نے ساتھی کوہ پیماؤں کی مدد سے نے کیمپ ٹو سے نیچے کا سفر شروع کر دیا ہے۔
ڈاکٹر آصف کے دوست اور امدادی کارروائی کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر سعید بادشاہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی کوہ پیما اور ان کے ساتھی انتہائی سست روی سے نیچے اتر رہے ہیں۔
آصف بھٹی نانگا پربت کے کیمپ فور میں سات ہزار میٹر سے زیادہ بلندی سنو بلائنڈنیس کا شکار ہو کر پھنس گئے تھے اور منگل کی صبح انھوں نے آذربائیجان کے کوہ پیما اسرافیل عشورلی کی مدد سے نیچے کا سفر شروع کیا تھا۔
ڈاکٹر سعید کے مطابق آصف بھٹی کیمپ فورپر سنو بلائنڈنیس اور پھر فراسٹ بائٹ کا بھی شکار ہوئے جس کے اثرات اب مرتب ہو رہے ہیں۔'ڈاکٹر آصف بھٹی کو نظر بھی کم آرہا ہے اور اپنے ہاتھ پاؤں استعمال کرنے میں بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
ڈاکٹر سعید نے جمعرات کو بی بی سی کو بتایا کہ عسکری ایوسی ایشن کا ہیلی کاپٹر صبح سے الرٹ ہے مگر ابھی تک موسم نے اجازت نہیں دی کہ وہ پرواز کر سکے۔ ان کے مطابق اس بات کا انتظار کیا جارہا ہے کہ موسم کچھ بہتر ہو تو فضائی آپریشن شروع کیا جا سکے۔
ڈاکٹر سعید بادشاہ کے مطابق حال ہی میں نانگا پربت سر کرنے والے دو پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی اور ساجد سد پارہ کے علاوہ بولیویا کے ایک غیر ملکی کوہ پیما بھی اس آپریشن میں حصہ لینے کا تیار ہیں۔
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ نانگا پربت پر خراب موسم کی وجہ سے آصف بھٹی اور ان کی مدد کرنے والے تین کوہ پیما وہاں رکنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے اسی لیے انھوں نے کیمپ ٹو سے نیچے کا سفر شروع کر دیا ہے جو انتہائی سست رفتار سے جاری ہے۔
آصف بھٹی نے بدھ کو آذربائیجان کے کوہ پیما اسرافیل عشورلی کی مدد سے کیمپ تھری سے نیچے اترنا شروع کیا تھا جبکہ ان کی مدد کے لیے بیس کیمپ سے دو پاکستانی کوہ پیما یونس اور فضل کیمپ ٹو کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ یہ چاروں افراد بدھ کو شام گئے کیمپ ٹو پہنچے تھے۔
سعید بادشاہ کے مطابق 'دونوں پاکستانی کوہ پیما بدھ کی شام پانچ بجے کیمپ ٹو میں پہنچ گئے تھے۔ جن میں سے ایک ڈاکٹر آصف بھٹی اور اسرافیل کو ملنے کے لیے کیمپ ٹو سے اوپر روانہ ہوئے جبکہ دوسرے وہاں پر کھانے پینے اور رہائش کا انتظام کرتے رہے۔'
لاہور سے تعلق رکھنے والے تقریباً 45 سالہ آصف بھٹیپیشے کے لحاظ سے استاد ہیں۔ وہ گذشتہ کئی برسوں سےاسلام آباد کی نجی یونیورسٹی سے منسلک ہیں اور مہم جوئی کے شوقین ہیں۔
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق آذربائیجان کے کوہ پیما اسرافیل آصف بھٹی کو نیچے اترنے کے سفر میں مدد کر رہے ہیں۔
کرار حیدری کے مطابق ’آصف بھٹی کو نیچے اترنے میں قدم قدم پر مدد اور سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ مدد اور سہارا اسرافیل فراہم کررہے ہیں، جس کی بدولت ڈاکٹر آصف بھٹی کسی حد تک خطرے سے باہر نکلے ہیں۔‘
ڈاکٹر آصف بھٹی کو مدد فراہم کرنے والے آذربائیجان کے 45 سالہ کوہ پیما اسرافیل نے آٹھ ہزار میٹر سے بلند چھ چوٹیاں سر کی ہوئی ہیں۔ وہ نانگا پربت سر کرنے کے بعد واپسی کے سفر پر تھے کہ کیمپ فور میں انھوں نے ڈاکٹر آصف بھٹی کی مدد کا فیصلہ کیا تھا۔
کرار حیدر کا کہنا تھا کہ پاکستانی کوہ پیما آصف بھٹی کی مدد کے لیے ہیلی کاپٹر تیار ہے اور صرف اس بات کا انتظار ہے کہ وہ کسی طرح کیمپ ٹو تک پہنچ جائیں تو ان کو مدد فراہم کی جائے۔
الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق ایک دوسرے واقعے میں پولش کوہ پیما پاولٹو ماسز الٹیٹیوٹ سیکنیس یا اونچائی کی بیماری کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں۔
الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق اس سے قبل ڈاکٹر آصف بھٹی نے براڈ پیک کیآٹھ ہزار میٹر سے زائد چوٹی بھی سر کرنے کی کوشش کی تھی مگر انھیں اس میں کامیابی نہیں ملی تھی جبکہ اس سے پہلے یہ سات ہزار سے بلندسپانٹک کی چوٹی کو سر کرنے کے علاوہ پانچ اور چھ ہزار میٹر کے کئی پہاڑ سر کر چکے ہیں۔
’آصف بھٹی جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہیں اور ان کا حوصلہ بھی بلند ہے‘
قراقرم ایکپیٹیشن سے تعلق رکھنے والے اور ممتاز کوہ پیما محبوب علی نے بتایا تھا کہ’اب تک مجھے ملنے والیاطلاعات کے مطابق آصف بھٹی اس وقت جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہیں اور ان کا حوصلہ بھی بلند ہے۔ ان کی مدد کے لیے بیس کیمپسے ایک ٹیم منگل کے روز کیمپ فور کی طرف روانہ ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میری اطلاعات کے مطابق آصف بھٹی کیمپ فور پر موجود دوسرے کوہ پیماؤں کی مدد سے منگل کے روز نیچے اترنے کی کوشش کریں گے۔ یہہی سب سے بہتر طریقہ ہے انھیں اس موقع پر ہمت کرنا ہو گی کیونکہ اس وقت وہ سات ہزار میٹر سے زیادہ کی اونچائی پر موجود ہیں۔‘
محبوب علی کے مطابق ’اگر وہ اس طرح کسی بھی طریقے سےساتھی کوہ پیماؤں کی مدد سے کیمپٹو تک پہنچ جائیں تو وہاں سے انھیں ہیلی کاپیٹر کی مدد مل سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کیمپ فور جو کہ سات ہزار میٹر سے زائد کی بلندی پر واقع ہے اور کیمپ تھری جو کہ چھ ہزار میٹر سے زائد بلندی پر ہے وہاں پر ہیلی کاپیٹر کی پرواز آساننہیں ہوتی اور اس میں خطرات بھی موجود ہوتے ہیں۔
محبوب علی کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ’آنے والے ایک دو دونوں میں نانگا پربت پر برفباریاور تیز ہواؤں کی پیش گوئی بھی موجود ہے۔‘
کرار حیدری کے مطابق ’اس وقت کوشش کی جا رہی ہے اور ایک منصوبہ بنایا جا رہا ہے کہ کسی طرح ڈاکٹر آصف بھٹی کواس مقام پر لے آیا جائے جہاں پر آسانی سے ان کو ہیلی کاپیٹر کے ذریعے سے لفٹ کیا جا سکے۔ اس کے لیے بیس کیمپ سے کچھ کوہ پیما بھی روانہ ہوں گے اور اس کے علاوہ نانگا پربت کو سر کرنے والے کوہ پیما جو کہ اس وقت کیمپ فور میں ہیں وہ بھی مدد فراہم کریں گے۔‘
AFPسنو بلائینڈنیس کیا ہے؟
محبوب علی کے مطابق نانگا پربت جیسےبلند پہاڑوں پر سنو بلائینڈنیس کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔اس خطرے سے بچاؤ کے لیے خصوصی قسم کے بہت اچھے چشمے استعمال کیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’برف پر جو روشنی اور دھوپ پڑتی ہے اس میں چمک بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے بہت تیز ری فلیشکن یا عکس پیدا ہوتا ہے جو آنکھوں کو خراب کرتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ تیز ہوا کا چلنا ہوتا ہے جو آنکھوں کے اوپری حصے کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے آنکھوں میں جلن پیدا ہوتی ہے اور آنکھیں کھولنا ممکن نہیں رہتا ہے۔‘
محبوب علی کے مطابق ’وقتی طور پر اس سے مسائل ہوتے ہیں بالخصوص اتنی بلندی پر تو بہت زیادہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب اتنی بلندی پر آنکھیں کھولنا ممکن ہی نہ ہو تو یہ خطرے کی بات ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹروں کے مطابق سنو بلائینڈنیس فوٹو کیریٹائٹسائر کی ایک شکل ہےجو برف اور برف سے منعکس یا ری فلیکشن سے ہونے والی الٹر اوائلٹشعاعوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ شمالی اور جنوبی قطب کے علاقوں میں یہ بیماری عام ہے۔ یہ مکمل طور پر قابل علاج ہے اور اکثر وقتیہوتی ہے۔
یاد رہے نانگا پربت دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے مگر اس کا شمار دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس چوٹی کو فتح کرنے کی خواہش میں اب تک 86 کوہ پیما زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس پر ہلاکتوں کی شرح 21 فیصد ہے۔