BBC
حزبِ اختلاف میں ہو تو گالی دو، برسرِ اقتدار ہو تو گھٹنوں کے بل بیٹھ کے کشکول آگے کر دو، خیرات مل جائے تو پھر پلٹ کے منہ بھرگالی دو ’اے خیرات دتی اے بے غیرتا ؟ آیندہ جو تیرے ول آواں تے اپنے پئیو دا نئیں‘
کم ازکم میں نے تو اپنے ہوش میں آئی ایم ایف اور امریکہ کے بارے میں ہر پاکستانی حکومت کو یہی کرتے دیکھا ہے۔
پاکستان آئی ایم ایف کے پاس آٹھ دسمبر 1958 سے آج تک 23 بار گیا ہے۔ ایوب خان کے نام نہاد صنعتیاور سبز انقلاب کے فوائد، براہ راست امریکی اقتصادی امداد اور عالمی بینک کی مالی و ٹکنیکل مدد بھی پاکستان کو دورِ ایوبی میں آئی ایم ایف سے تین بار رجوع کرنے سے نہ روک سکی۔
بھٹو دور میں خود کفالت کی خاطر سوشلسٹ معیشت اپنانےکی پالیسی بھی چار بار آئی ایم ایف کے در پر جانے میں رکاوٹ نہ بن سکی۔
ضیا الحق کے لئے افغان خانہ جنگی کے طفیل اربوں ڈالروں کی بہار اور اسلامی نظامِ معیشت اختیار کرنے کی کچی پکی کوششوں کی فیوض و برکات بھی آئی ایم ایف کی زنجیر دو بار ہلانے سے باز نہ رکھ سکیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کودونوں ادوار میں پانچ بار آئی ایم ایف کا دامن تھامنا پڑا۔ نواز شریف کے تینوں ادوار میں آئی ایم ایف چار بار مدد کو آیا۔
مشرف دور میں دھشت گردی کے خلاف جنگ کی ڈالرانہ آمدنی اور معاشی ترقی میں چھ فیصد سالانہ اضافے کا غبارہ اڑانے کے بعد بھی آئی ایم ایف کے در پر دو بار اور زرداری دور میں ایک بار حاضری دینا پڑی۔
عمران خاناقتدار میں آنے سے پہلے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر پھانسی پر لٹکنا سمجھ رہے تھے۔ انھوں نے حلف اٹھانے کے ایک ماہ بعد ہی اسد عمر کو واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ہیڈکوارٹر سے رابطہ کرنے کی یہ کہتے ہوئے ہدایت کی کہ ’مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اندر کا حال اتنا برا ہے۔‘
Reuters
اور اب شہباز حکومت نے آئی ایم ایف کی نویں قسط حاصل کرنے کے لئے پچھلے آٹھ ماہ میں اپنے تمام عقبی گھوڑے کھول لئے ، تین دوست ممالک کے ہاتھ پاؤں جوڑ کر قرضوں کا رول اوور کروا کے تحریری سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔ اپنی مرضی کا بجٹ پیش کرکے آئی ایم ایف کی مرضی کی ترامیم کیں۔جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی زمہ دار فوجی قیادت کو ملک کی معاشی سرحدوں کے تحفظ کے لیے بھی بیچ میں ڈالا ۔
پیرس میں آئی ایم ایف کی ایم ڈی کے سامنے وزیرِ اعظم تین بار کرسی پر ایسے بیٹھے جیسے کوئی عادی بچہ ہیڈ مسٹریس کے روبرو بیٹھتا ہے اور آخر میں ہیڈ مسٹریس صاحبہ ترس کھا کے کہتی ہوں ’آئندہ ایسا کیا تو اسکول سے نکال دوں گی۔‘
تب کہیں جا کےاسحاق ڈار کی تمام تر کوششوں کے باوجود تین ارب ڈالر کی اسٹینڈ بائی فیسلیٹی کا معاہدہ ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ مریضِ معیشت کو چند ماہ کے لئے مزید آکسیجن مل گئی۔
یہ بھی نوٹ کیا جانا چاہئے کہجیسے ہی آئی ایم ایف کا انجکشن لگتا ہے مریض میں اتنی توانائی بھر جاتی ہے کہ پہلا جملہ ہی اس کے منہ سے نکلتا ہے ’یہ آخری تھا۔اب ہم نے آئی ایم ایف کا کشکول توڑ دیا ہے۔‘
پہلی بار یہ جملہ 1998 میں نواز شریف کے منہ سے اور آخری بار کل پرسوں ہی شہباز شریف کے منہ سے سنا۔عملاً یہ کشکول پچھلے 68 برس میں 30 بار توڑا اور اتنی ہیبار جوڑا گیا۔
ہر بار بھرواں سگریٹ پینے کے بعد جسمکے اوسان تھوڑے دیر کے لئے بحال ہوتے ہیں اور اگلے دن پھر وہی راگ ’بسآخری سگریٹ جوگے پیسے دے دئیو ۔قرآن مجید دی قسم ایہدے بعد جے منگن آیا تے تہاڈی جتی میرا سر۔‘
آئی ایم ایف ، عالمی بینک ، پیرس کنسورشئیم ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک ، انٹرنیشنل اسلامک بینک ،سی پیک اور انویسمنٹ بانڈز وغیرہکے کل ملا کے اب تک126 ارب ڈالر کے قرضے ، امریکہ سے 70 ارب ڈالر کی مجموعی امداداور جاپان و یورپی یونین سے قدرتی آفات کے لئے مدد سمیت کیا کچھ نہیں آیا ۔
پھر بھیمعیار زندگی کے عالمی جدول میں پاکستان کا ایک سو بتیسواں درجہ ہو ، دنیا میں اسکول نہ جانے والوں بچوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہو مگر فوجی قوت کے اعتبار سے ٹاپ ٹین میں شامل ہو، صرف ایک برس میں ( دو ہزار بائیس ) آٹھ لاکھ ہنرمند نوجوان روزگار کی تلاش میں قانونی طریقے سے ملک چھوڑ جائیں، آبادی میں اضافے کی شرح دنیا میں آج بھی سب سے زیادہ ہو۔
ریاستی ڈھانچہ جمہوریت و آمریت کا ملغوبہ ہو،انگلیوں پر گنی جانے والی نجی و سرکاری مافیائیں معیشت پر کنڈلی مارے بیٹھی ہوں اور ان کی مراعات کا تخمینہ 17 ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہو، تب بھی آئی ایم ایف سے سوا ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے پوری ریاست جھول جائے تو 75 برس میں سڑک چھاپ عوام نے آخر پایا کیا؟
وہ عوام جو آج بھیتن کے کپڑے اور دو وقت کی روٹی پر سمجھوتے کو تیار ہیں مگر آبادی میں کمی لانے پر تیار نہیں۔
اگر کسی سادہ لوح کو اب بھی یقین ہے کہ جن کی سہولت کے لئے یہ معاشی ڈھانچہ بنایا گیا، وہ یہ ملک بچانے کے لئے اپنی کچھ سہولتوں سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں تو اس سادہ لوح کو چاہیئے کہسینیٹ کے چئیرمین صادق سنجرانی سے ملنے کے بعد کسی بھی فوجی میس ، گولف کورس ، بحریہ ٹاؤن ، رائے ونڈ پیلس اور کسی بھی زرداری ہاؤس کے سامنے سے گذر کے اپنا نتیجہ آپ اخذ کر لے ۔
( یہ وہ کالم ہے جو انشااللہ اگلے برس اور اس سے بھی اگلے برس پڑھنے میں تازہ لگے گا )۔