خواتین محققین پر مشتمل ایک ٹیم نے 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی اور زہریلے سانپوں سے بچتے ہوئے چیتا نما کھال والے مینڈکوں کی افزائش نسل کے نظام کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جس کے بارے میں سائنس کی دنیا میں بہت کم معلومات ہے۔
ان کی اس ریسرچ کا مقصد یہ جاننا ہے کہ اس نایاب ’چیتا پرنٹ‘ مینڈک کی نسل آگے کیسے بڑھتی ہے۔
ارجنٹائن کے تحفظ ماحولیات کے سائنس دان ’سانٹا فے‘ نامی اس ننھے مینڈک کی بقا اورحفاظت کے لیے کوشاں ہیں۔ اس نایاب مینڈک کا مسکن گرینڈ چاکو کے جنگلات ہیں جو دنیا کے خشک ترین جنگلوں میں شمار ہوتا ہے۔
اس ٹیم نے تحقیق کے دوران دریافت کیا کہ یہ نایاب مینڈک غاروں میں کیسے چھپتے ہیں اور اس دوران ان پر انکشاف ہوا کہ یہ ننھا مینڈک صرف اس وقت باہر نمودار ہوتا ہے جب اسے افزائش نسل کے لیے اپنی ساتھی کو پُکارنا ہو۔
اپنی تحقیق کے دوران پہلی بار انھیں اس مینڈک کے لاروا (ٹیڈپولز) ملے۔
بیونس آئرس میں واقع سانٹا فے نامی مینڈک کے پراجیکٹ کی قیادت کرنے والی محقق آئسس ایبنیز نے کہا کہ ’اب تک یہ کوئی آسان سفر نہیں رہا، لیکن ہم اس شاندار جل تھلیے (خشکی اور پانی دونوں میں رہنے والے ایمفیبیئن) کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔‘
سانٹا فے مینڈک کو دریافت ہوئے لگ بھگ ایک صدی ہو گئی تاہم اب تک سائنس اس کے بارے میں مکمل جاننے سے قاصر ہے۔
مینڈک کی یہ مخصوص نسل صرف ارجنٹائن، بولیویا اور پیراگوئے میں پائی جاتی ہے۔ چونکہ اس کے مسکن خشک جنگلات ہیں جو تیزی سے ختم ہونے کے قریب ہیں تو اس کے سبب دلکش پرنٹ کی کھال والا یہ مینڈک نایاب ہو گیا ہے۔
محققین نے ان مینڈکوں کو تلاش کرنے اور ان کے رویے کا مطالعہ کرنے کے لیے کیمروں کا جال بچھایا تاکہ ان کی حرکات کو سمجھا جا سکے۔
زیادہ تر نر مینڈک تالاب، ندی یا دلدل سے اونچی آواز میں پکار کر اپنی ساتھی کو متوجہ کرتے ہیں لیکن یہ نسل زیر زمین رہتی ہے۔
اس ٹیم نے سراغ لگایا کہ نر مینڈک رات کے وقت اپنی موجودگی کا اعلان کرنے کے لیے نمودار ہوتے ہیں، پھر مادہ کے ساتھزیر زمین اپنے مسکن کی جانب پھدکتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں۔
ماحولیات کے ماہرین کو توقع ہے کہ اس نایاب مینڈک کی بقا کی جانب دنیا کی توجہ مبذول ہونے سے گرینڈ چاکو اور معدومیت کے خطرے سے دوچار دیگر جانوروں کی حیاتیاتی تنوع کو بھی اجاگر کیا جا سکے گا۔
کئی راتوں کی مسلسل تلاش کے بعد بالآخر انھیں پہلی بار انڈے اور ٹیڈپولز کے ثبوت ملے۔
محققین کے مطابق مینڈک کی افزائش کے عمل کی تحقیقات اس کی بقا اور حفاظت کی جانب پہلا قدم ہے۔
’مینڈک کی اس نسل کی بقا کو خطرہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ہم ڈرائی چاکو جنگلات کے دفاعکی آواز کیوں اٹھاتے ہیں۔ ہمارے پاس اب زیادہ وقت نہیں بچا۔‘
سائنس دان مینڈک کے بارے میں مزید جاننے کے لیے مقامی کمیونٹی کے رہنماؤں، شکاریوں اور کسانوں سے بھی رابطہ کر رہے ہیں اور اس کی بہتر حفاظت کو سمجھنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔
Getty Imagesاس مینڈک کا مسکن گرینڈ چاکو ’زمین پر جہنم‘
ڈرائی یا گرینڈ چاکو بولیویا، ارجنٹائن اور پیراگوئے کے بعض حصوں میں پھیلا ہوا جنگل اور گرد آلود میدانوں کا ایک وسیع و عریض علاقہ ہے۔
زرعی زمینوں اور کھیتی باڑی کی راہ ہموار کرنے کے لیے گرینڈ چاکو جنگلات کا پچھلی چند دہائیوں میں بتدریج صفایا کیا گیا ہے۔
زمین پر جنگلات کی کٹائی کی شرح سب سے زیادہ یہاں ہے حالانکہ اس کے ساتھ واقع ایمازون کے جنگلات کے مقابلے میں اس کی جانب دنیا کی توجہ کم ہے۔
اس علاقے کو اس کی ناقابل رسائی اور بلند درجہ حرارت کی وجہ سے ’زمین پر جہنم‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں دن کے وقت درجہ حرارت باآسانی 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے جبکہ بارش انتہائی کم ہوتی ہے۔
ان تمام موسمی حالت کے باوجود یہاں بسنے والی جنگلی حیات سخت حالات میں پروان چڑھتی ہے۔ گرینڈ چاکو میں مختلف اقسام کے سینکڑوں پرندوں کے علاوہ بے شمار ممالیہ، رینگنے والے جانور اور امفیبیئن رہتے ہیں۔
گیبریلا اگوسٹینی کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک خشک جنگل ہے جس میں مختلف انوع کی جنگلی حیات کا بسیرا ہے۔‘
ماہرین کے مطابق ایمفیبیئنز معدومیت کے زیادہ خطرے میں ہیں۔ ایک پیتھوجینک فنگس (زہریلی پھپوندی کی ایک قسم) تقریباً 40 سالوں سے پوری دنیا کی آبادی کو تباہ کر رہی ہے اور اس کے سبب جانور اپنے مساکن کو پہنچنے والے نقصان اور شکار کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔
سانٹا فے مینڈک کے منصوبے کو کنزرویشن لیڈرشپ پروگرام (CLP) کی حمایت حاصل ہے اور اس تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے فونا اینڈ فلورا، برڈ لائف انٹرنیشنل اور وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی کا تعاون حاصل ہے۔