’پھلوں کا بادشاہ‘ آم انڈیا کا بہتر ہے یا پھر پاکستان کا؟

بی بی سی اردو  |  Jul 01, 2023

Getty Images

آم پاکستان کے شہر ملتان کا اچھا ہے یا انڈیا کے ملیح آباد کا؟ یہ سوال اکثر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے وراٹ کوہلی بہتر ہیں یا بابر اعظم جیسی بحث میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

جنوبی ایشیا کے یہ دونوں ہی ملک آم کے حوالے سے مشہور ہیں اور جہاں انڈیا دنیا بھر کی پیداوار کا 40 فیصد آم پیدا کر رہا ہے وہیں پاکستان اور انڈیا کی آم کی برآمد تقریباً برابر ہے۔

ایسے میں ’پھلوں کا بادشاہ‘ کہلائے جانے والے اس پھل کی کاشت کے حوالے سے انڈیا اور پاکستان دونوں میں سے کون سبقت لے جاتا ہے اس بحث میں پڑنے سے پہلے ہم نے دونوں ممالک کا کاشتکاروں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کے آم کی خصوصیات کیا ہیں۔

آموں کی چاہت کے لیے مشہور شاعر مرزا غالب نے ایک بار کہا تھا کہ ’آموں میں بس دو خوبیاں ہونی چاہیے، ایک تو وہ میٹھے ہوں اور بہت زیادہ ہوں۔‘

تاہم انڈیا کے ’مینگو مین‘ کلیم اللہ خان اس میں اس جملے کا اضافہ کریں گے کہ ’اس کی بہت ساری اقسام ہونی چاہیے‘ کیونکہ وہ انڈیا کے شہر ملیح آباد میں اسی وجہ سے مشہور ہیں۔

ان کے ’کالج‘ میں چونسہ، دسہری اور لنگڑا جیسے مشہور آموں کے آگے بھی دنیا ہے۔

آپ کے سوال ختم ہونے سے پہلے وہ ان کے نام گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ ’خاص الخاص، گلاب خاص، شمس الاسمار، بدرالاسمار، محمودالاسمار، امین کلاں، امین خورد، سورخہ خالص پور، سورخہ مرشد آباد، سورخہ شاہ آباد، کچا میٹھا، گول بھدیّاں، رام کیلا، فجری۔۔۔‘

دوسری جانب پاکستان کے شہر ملتان کے کاشت کار سہیل خان بابر مذاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لوگ ملتان والوں سے دوستیاں ہی اس لیے کرتے ہیں کیونکہ یہاں کے آم مشہور ہیں۔

آئیے پہلے ملیح آباد چلتے ہیں اور انڈیا کے آموں کے بارے میں ان کے ’مینگو مین‘ سے جانتے ہیں۔

BBCکلیم اللہ خان بتاتے ہیں کہ پاکستان کے سندھڑی آم کی تعریف سننے کے بعد انھوں نے یہ قسم بھی منگوا کر لگائی ہےآم کی تین سو سے زیادہ اقسام والا درخت

ہفتوں تک بے ترتیب موسم کے بعد ریاست اتر پردیش کے علاقے میلح آباد میں آخرکار بارش’مینگو مین‘ کے طور پر مشہور کلیم اللہ خان کے چہرے پر خوشی لے کر آئی ہے۔

آم کے لیے روایتی طور پر مشہور اس خطے میں اس سال سردی میں غیر معمولی طور پر گرمی، گرمی میں غیر معمولی طور پر سردی اور اس درمیان بے وقت بارش نے پھلوں کے بادشاہ کی پیداوار کو منفی طور پر متاثر کیا تھا۔

کلیم خان کہتے ہیں کہ ’1919 میں ملیح آباد میں آم کی 1300 اقسام تھیں لیکن اب پورے اتر پردیش ریاست میں شاید 600 قسمیں بھی نہیں بچی ہیں اور یہ نمبر ہر روز کم ہو رہا ہے۔‘

ان تبدیلیوں سے عمر رسیدہ کلیم خان کو شدید تشویش لاحق ہے لیکن وہ آم کے اپنے ایک تجرباتی درخت سے اس کمی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس پر انھوں نے آم کی 300 سے زائد اقسام پیدا کیا ہے۔

یہ درخت 120 سال سے زیادہ پرانا ہے اور کلیم خان کے ’گرافٹنگ‘ کے تجربات کی وجہ سے اس کی تقریباً تمام شاخوں پر آم کی مختلف اقسام پھلتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’موسم کی وجہ سے آم کی پیداوار متاثر ہونے کے باوجود اس درخت پر اس سال 30 سے زائد اقسام موجود ہیں۔‘

اور یہ سارے آم ایک ہی درخت پر مختلف سائز، رنگ اور اشکال کے ہیں جس کہ وجہ یہ ایک سجاوٹی، مصنوعی درخت جیسا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں یہ درخت لوگوں کے ذائقہ کو بہتر بنانے میں ایک شخص کے جنون کی مثال ہے۔

اس درخت کے اصل آم کا نام ’اسرار المکرر‘ ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کلیم خان کہتے ہیں کہ ’یہ ایک پیڑ بھی ہے، باغ بھی اور یہ دنیا کے آموں کا کالج بھی ہے۔‘

انھیں امید ہے کہ ان کے تجربات اگلی نسل کے کام آئیں گے۔

لیکن اس ’کالج‘ کے ’پرنسپل‘ اب 83 سال کے ہو چکے ہیں اور تقریباً ریٹائرمنٹ کے دہانے پر ہیں لیکن دور دراز سے ہر لمحہ ان کی نرسری میں کوئی نہ کوئی آم کا مداح آتا ہے اور ان کے ’آم‘ سفر کے بارے میں سوال کرتا ہے۔

کلیم خان آم سے متعلق پہلی بار اپنے تجربے کو یاد کرتے ہوے بتاتے ہیں کہ وہ تجربہ ناکام ہو گیا تھا اور جہاں پر انھوں نے اپنا پہلا درخت لگایا تھا وہ جگہ اب بھی خالی ہے، گویا یوں کہ وہ جگہ داغدار ہو گئی ہو۔

BBC’پاکستان کا آم میٹھا، انڈیا کا رس والا اور خوشبودار‘

ان کی نرسری میں سرحد پار پائے جانے والے آم کی اقسام بھی موجود ہیں جن میں انور رٹول، چونسہ اور لنگڑا معروف ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کے سندھڑی آم کی تعریف سننے کے بعد انھوں نے یہ قسم بھی وہاں سے منگوا کر لگائی ہے۔

لیکن دونوں ممالک کے تعلقات عوام کے درمیان فی الحال ہر طرح کے تبادلے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے یہ تصدیق کرنا مشکل تھا کہ کیا وہ آم یقینی طور پر سندھڑی ہی ہے۔

اس کے لیے انھوں نے لوگوں سے فون پر معلومات حاصل کیں، انٹرنیٹ پر مطالعہ کیا اور یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھیں کہ یہ آم کیسا دکھتا ہے اور اس کا ذائقہ کیسا ہے۔

کلیم خان کے بیٹے ناظم کہتے ہیں ’یہ ہماری ساکھ کا معاملہ ہے۔ ہم اس میں غلطی نہیں کر سکتے۔‘

لیکن جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلیاں، نقصان دہ کیمیکل، مہنگائی، نسل در نسل باغوں کے رقبے میں کمی اور دوسرے ممالک سے مسابقت میں اضافہ ہو رہا ہے، کسانوں کی نئی نسل معاش کے دیگر طریقے اپنانے پر مجبور ہیں۔

ناظم کہتے ہیں کہ ’آم کے لیے ہر وقت لگن کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کمائی غیر متوقع ہوتی ہے۔ یہ نوجوان نسل کو نہیں بھاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا آم مٹھاس کے اعتبار سے تو بہتر ہے لیکن خوشبو اور رس کے لحاظ سے انڈیا کا آم ہی بہتر ہے۔

Getty Imagesپاکستانی آم کی کیا خصوصیات ہیں؟

بات کریں پاکستان کی تو یہاں آم کے بارے میں جاننے کے لیے سیدھا ملتان جانا ہی بہتر ہے۔

ملتان مینگو ریسریچ سنٹر کے پرنسپل سائنسدان عبدالغفار گریوال کے مطابق پاکستانی آم دنیا بھر کے آموں سے ذائقے اور ساخت میں مختلف ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ویسے تو پاکستان اور انڈیا میں ایک جیسی ہی اقسام پائی جاتی ہیں لیکن پاکستان نے پچھلے کچھ عرصے میں کئی نئی اقسام پیدا کر لی ہیں جیسا کہ سینسیشن یا چناب گولڈ جبکہ انڈیا اپنی پرانی اقسام پر ہی مزید کام کر رہا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’پاکستان میں تقریباً 200 کے قریب مختلف آم کی اقسام پائی جاتی ہیں جبکہ کمرشل استعمال کے لیے دس اقسام ہی زیادہ مارکیٹ میں پائی جاری ہیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کے دو صوبوں میں ہی آم کی پیداوار ہوتی ہے جس میں صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ ہے جبکہ پاکستان کا ستر فیصد آم پنجاب سے جبکہ تیس فیصد سندھ سے آتا ہے۔

’صوبہ پنجاب کی جس بیلٹ پر آم کی پیداوار ہوتی ہے وہ تقریباً 470 کلومیٹر پر محیط ہے جس میں رحیم یار خان، ملتان، بہاولپور سمیت اردگرد کے دیگر علاقے شامل ہیں۔‘

BBCپاکستانی مینگو فارمرز آم کی پیداوار میں کیا نیا کر رہے ہیں؟

سہیل خان بابر ملتان کے رہائشی ہیں اور پندرہ برس کی عمر سے اپنے آم کے باغات کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ان کو یہ کام کرتے ہوئے تقریباً پچاس سال ہو گئے ہیں۔

’آم کے باغ کو سنبھالنا ایسے ہی ہے جیسے آپ اپنے بیٹے کو پالتے ہیں۔ مثال کے طور پر آم کو درخت سے اتارنا بھی ایک آرٹ ہے۔ اگر زرا زور سے اتار کر نیچے رکھو گے تو اس پر چوٹ آ جاتی ہے اور یہ کالا ہو جاتا ہے۔‘

سہیل خان اپنے باغات میں دس سے پندرہ اقسام کے آم اگاتے ہیں۔ جن میں چونسہ، انور رٹول، سندھڑی سمیت دیگر اقسام شامل ہیں۔

ان کے باغات میں کئی ایسے درخت بھی ہیں جو چالیس، پچاس سال پرانے ہیں جبکہ انھوں نے کئی ایسے پرانے آم کے درخت کاٹے ہیں جو حجم میں خاصے بڑے تھے۔ ایسے میں یہ سوال بنتا تھا کہ انھوں نے یہ انتہائی قدم کیوں اٹھایا۔

اس سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ وہ یو ایچ ڈی ٹیکنالوجی کی طرف چلے گئے ہیں۔

’جیسا کہ پہلے آم کا درخت اگانے اور پھر اس پر پھل لگنے کا عمل پانچ سے چھ سال پر محیط تھا لیکن اب وہی آم کا درخت تین سال میں آپ کو اس مقدار میں پھل دیتا ہے جتنا بڑا درخت دیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان درختوں کا سائز بھی چھوٹا ہوتا ہے۔‘

سہیل خان واحد کسان نہیں، جو نئے اور جدید طرز کے طریقوں سے آم کی پیداور بڑھا رہے ہیں۔

غلام قادر جلال پور پیر والا سےتعلق رکھتے ہیں اور وہ بھی ایسے آم اگانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی پیداوار میں کم سے کم کھاد اور دیگر کیمیکل استعمال ہوں۔

وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پچھلے تین سال میں انھوں جو آم اپنے باغ میں اگائے ہیں وہ نامیاتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’وہ نہ تو کھاد کا استعمال کر رہے ہیں اور نہ ہی پانی کا زیادہ استعمال کرنے کے ضرورت پیش آ رہی ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ ہم درخت کو پانی دیتے تھے جو اس کے اردگرد کھڑا ہو جاتا تھا جس سے درخت ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرتا تھا۔ اس سے پھل پر بھی فرق پڑتا تھا اور پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے کائی بھی لگ جاتی تھی۔

’اب ہم بے درخت سے گرد مٹی سے تھیلے بنا دیے ہیں جس سے پانی وہاں کھڑا نہیں ہوتا۔ اس سے پھل بھی ضائع نہیں ہوتا۔‘

https://www.youtube.com/watch?v=2YctcLQTwH0

پاکستان کی ’مینگو ڈپلومیسی‘

وزیر اعظم شہباز شریف کے آج کل زیادہ تر بیرونی دوروں کی جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں ان میں وہ دوسرے ممالک کے سربراہان کو اکثر یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ ’میں آپ کے لیے پاکستان کے بہترین آم لایا ہوں‘۔ ان کے اس عمل کو زیادہ تر لوگ ’مینگو ڈپلومیسی‘ کا نام دے رہے ہیں۔

کیا وزیر اعظم شہباز شریف پہلے وزیر اعظم ہیں جو پاکستان کے دوسرے ممالک سے اچھے تعلقات بنانے کے آم کا تحفہ دے رہے ہیں؟

دراصل 1968 میں اس وقت کے پاکستانی وزیرِ خارجہ نے اپنے دورہ چین کے دوران چیئرمین ماؤ کو پاکستانی آم پیش کیے تھے۔ چینی رہنما نے اس تحفے کو تاریخ میں غیر معمولی بنا دیا تھا۔

ہوا یہ کہ ان دنوں چین میں ثقافتی انقلاب کی تحریک چل رہی تھی اور ماؤ نے یہ پھل خود کھانے کی بجائے اپنے کارکنوں کو بھجوا دیے جنھوں نے اسے آسمانی پھل سمجھ کر محفوظ کر لیا تھا۔

یوں پاکستانی آم اس تحریک کی علامت اور پاکستانی سفارت کاری کا حصہ بن گئے اور یہ ’مینگو ڈپلومیسی‘ کہلائی جانے لگی۔

سہیل خان بابر کہتے ہیں کہ یہ صرف یہاں تک محدود نہیں۔ پاکستان میں بھی جیسے ہی آم کا سیزن شروع ہوتا ہے تو سب کہتے ہیں کہ ’ملتان والوں سے تعلقات بہتر کر لو آم کا تحفہ آئے گا۔‘

آم کے باغ کے مالک غلام قادر زیادہ تر آم برآمد کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں پایا جانے والا سب سے بہترین آم زیادہ تر پاکستان سے باہر بھیجا جاتا ہے جبکہ اس کی قیمت بھی پاکستان میں ملنے والے آموں سے زیادہ ہوتی ہے جبکہ پاکستان انڈیا سے زیادہ مقدار میں آم برآمد کرتا ہے۔

’جن ممالک میں ہمارے آم سب سے زیادہ فروخت ہوتے ہیں ان میں ایران، متحدہ عرب امارات، افغانستان، چین اور یورپ سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More