بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کے بھٹو خاندان کے پاس ممبئی کے علاقے ورلی میں ساحل سمندر کے قریب ایک پُرتعیش کوٹھی ہوا کرتی تھی۔ سنہ 1954 سے 1958 کے درمیان پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اکثر اس کوٹھی میں رہنے آتے تھے جبکہ اُن کا پورا خاندان پاکستان میں مقیم تھا۔
یہ وہی دور ہے جب ممبئی میں فلم ’مغل اعظم‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ نوشاد یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’اس فلم کا گانا ’موہے پنگھٹ پہ نند لال چھوڑ گیا رے‘ شوٹ ہو رہا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کو یہ گانا اور مدھوبالا اس قدر پسند تھیں کہ وہ اس گانے کی شوٹنگ دیکھنے روزانہ سیٹ پر آتے تھے۔ وہ مدھوبالا سے شادی کے لیے بہت سنجیدہ تھے اور ایک بار انھوں نے دوپہر کے کھانے کے دوران مدھوبالا کے سامنے اپنا یہ ارادہ ظاہربھی کیا۔ مگر جواب میں انھیں مدھوبالا کا انکار ملا۔
اس وقت کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے صدر اور بعد ازاں وزیر اعظم بن جائیں گے۔ جب اس گانے کی شوٹنگ ہو رہی تھی تو مغل اعظم کے کوریوگرافر لچھو مہاراج کو ایک ایسی رقاصہ کی ضرورت تھی جو چہرے کے تاثرات اور ہاتھوں کی حرکت کے ذریعے سے گانے کے الفاظ کا اظہار کر سکے۔
مدھوبالا کلاسیکل ڈانسر نہیں تھیں لیکن انھوں نے اس گانے کے لیے بہت محنت کی۔ لچھو مہاراج نے انھیں مہینوں تک کتھک رقص سکھایا۔
یاد رہے کہ چینی وزیراعظم چو این لائی، پاکستان کے مشہور شاعر فیض احمد فیض اور مشہور اطالوی فلمساز روبرٹو روسولینی اور لارنس آف عریبیہ کے ڈائریکٹر ڈیوڈ لین بھی ’مغل اعظم‘ کی شوٹنگ دیکھنے والوں میں شامل تھے۔
Getty Imagesمدھوبالا کا شمار انڈیا کی خوبصورت ترین خواتین میں ہوتا تھا
مدھوبالا ایک خوبصورت اداکارہ تھیں۔ خوبصورت لوگوں کی دنیا میں بھی وہ مختلف نظر آتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اُن کی شائع شدہ کسی بھی تصویر نے اُن کی حقیقی اور اصل خوبصورتی کے ساتھ انصاف نہیں کیا (یعنی وہ حقیقت میں جتنی خوبصورت تھیں تصویر میں شاید اتنی خوبصورت نہیں نظر آتی تھیں۔)
ان کا موازنہ اکثر ہالی وڈ کی خوبصورت ترین اداکارہ مارلن منرو سے کیا جاتا تھا۔ دونوں کی خوبصورتی کا ہر طرف چرچا تھا اور ان دونوں میں یہ قدر بھی مشترک رہی کہ وہ صرف زندگی کی 36 بہاریں دیکھ سکیں یعنی دونوں کی وفات صرف 36 سال کی عمر میں ہوئی۔
اس سب سے قطع نظر مدھوبالا نے کبھی بھی خود کو جنسی علامت کے طور پر پیش نہیں کیا اور پریس اور عام لوگوں کو ہمیشہ اپنی نجی زندگی سے دور رکھا، جبکہ مارلن کی زندگی کا اصل بیانیہ لوگوں سے رابطہ رکھنا تھا۔
مدھوبالا کو ہمیشہ سیٹ پر وقت پر آنے کی عادت تھی۔ کئی بار وہ فلم کے ہدایتکار سے پہلے ہی سیٹ پر پہنچ جاتی تھیں جبکہ مارلن سیٹ پر انتہائی لیٹ آنے والی اداکارہ کے طور پر ہمیشہ ’بدنام‘ رہیں۔
مدھو بالا کے دنکا آغاز صبح پانچ بجے ہوتا تھا اور وہ دن کی شروعات ممبئی کے کارٹر روڈ ساحل کے قریب چہل قدمی سے کرتی تھیں۔ مشہور اداکار پریم ناتھ انھیں اپنا ’صبح کا الارم‘ کہتے تھے۔
مدھو بالا انھیں روزانہ صبح چھ بجے فون کرتی تھیں تاکہ وہ ٹینس کھیلنے کے لیے جاگ جائیں۔
سنہ 1952میں ’فلم فیئر‘ میگزین نے یہ جاننے کے لیے ایک سروے کیا کہ انڈیا کی سب سے خوبصورت اداکارہ کون ہیں۔
نلنی جیونت اس سروے میں پہلے نمبر پر آئیں جبکہ نرگس اور بینا رائے نے دوسرا اور تیسرا مقام حاصل کیا۔ حیرت انگیز طور پر مدھوبالا اس مقابلے میں چوتھی پوزیشن حاصل کر سکیں۔ لیکن جب 1993 میں ایک اور سروے کیا گیا تو اس میں مدھوبالا کو پہلا مقام ملا جبکہ نرگس اور مینا کماری دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہیں۔
مدھوبالا کے والد نے انھیں ہالی وڈ جانے سے روکا
مدھوبالا کی شہرت آہستہ آہستہ مغربی دنیا میں بھی پھیلنے لگی تھی۔ ان کی کئی تصاویر غیر ملکی میگزین کے سرورق پر شائع ہوئیں۔ مشہور فلم ڈائریکٹر فرینک کیپرا جب ہندوستان آئے تو انھوں نے کہا کہ وہ مدھوبالا کے لیے بالی وڈ میں کام کرنے کا راستہ کھول سکتے ہیں۔
مشہور فلمی صحافی بی کے کرنجیا اپنی سوانح عمری ’کاؤنٹنگ مائی بلیسنگز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جب میں نے مدھوبالا کے والد عطا اللہ خان کو اس پیشکش کے بارے میں بتایا تو انھوں نے مدھوبالا کو ہالی وڈ بھیجنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ انھیں کانٹے اور چھری سے کھانا کھانا نہیں آتا۔‘
ایک مرتبہ مینو ممتاز نے مدھوبالا کی خوبصورتی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ان کی رنگت اتنی گوری تھی کہ اگر وہ پان کھاتیں تو اس کا سرخ رنگ ان کے گلے سے نیچے اُترتا ہوا صاف دیکھا جا سکتا تھا۔‘
اسی طرح شمی کپور نے بھی یہ کہا تھا کہ ’اگر وہ پانی بھی پیتی ہیں تو ہم اسے ان کے گلے سے نیچے جاتے ہوئے صاف دیکھ سکتے ہیں۔‘
دیویکا رانی نے ممتاز جہاں بیگم کو ’مدھو بالا‘ کا نام دیا
مدھوبالا 14 فروری 1933 کو یعنی ویلنٹائن ڈے پر دہلی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا بچپن کا نام ممتاز جہاں بیگم تھا۔
ممتاز اپنے 11 بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھیں۔ انھوں نے صرف نو سال کی عمر میں فلموں کی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کی پہلی فلم ’بسنت‘ تھی۔ یہ فلم کرنے کے بعد وہ دہلی واپس آ گئیں، پھر انھیں بمبئی سے امیہ چکرورتی کا فون آیا جو انھیں اپنی فلم ’جوار بھاٹا‘ میں ایک کردار دینا چاہتی تھیں۔
وہ بمبئی واپس چلی گئیں لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر انھیں جوار بھاٹا کا کردار نہیں مل سکا، لیکن ان کے والد نے بمبئی میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
معروف اداکارہ دیویکا رانی ان کی محنت دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں۔ انھوں نے انھیں ایک نیا نام مدھوبالا دیا۔ سال 1948 میں انھیں فلم ’سنگھار‘ میں ثریا کے ساتھ سہنائیکا کا کردار ملا۔ رفتہ رفتہ ان کی شہرت میں اضافہ ہونے لگا اور انھیں بطور ہیروئن کئی کردار ملنے لگے۔
مشہور ہدایتکار کیدار شرما نے انھیں راج کپور کے مقابل فلم ’نیل کمل‘ میں سائن کیا۔
فلم ’محل‘ سے کیرئیر آگے بڑھا
جس فلم نے مدھوبالا کو ملکی سطح پر پہچان دلائی وہ تھی ’محل‘۔ یہ ایک ادھوری محبت کی کہانی ہے جو ایک جنم سے دوسرے جنم تک جاری رہتی ہے۔ اس وقت تک لتا کو انڈین فلمی دنیا میں داخل ہوئے کئی سال گزر چکے تھے لیکن اس فلم میں گایا گیا ان کا گانا ’آئے گا آنے والا‘ انھیں پلے بیک گلوکاری کے عروج پر لے گیا۔
اس فلم کے لیے ضروری تھا کہ اس کی ہیروئن غیر معمولی خوبصورت ہو۔ کمال امروہی نے اس فلم کے لیے مدھوبالا کا انتخاب کیا جو اس وقت تک فلمی دنیا میں کوئی خاص بڑا نام نہیں تھا۔ فلم کمپنی بامبے ٹاکیز نے اس کردار کے لیے ثریا کو کاسٹ کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا، لیکن کمال امروہی اپنے فیصلے پر اٹل رہے۔
اس وقت مدھوبالا کی عمر صرف 16 سال تھی جب کہ ان کے ہیرو اشوک کمار ان کی عمر سے دگنا یعنی 32 سال کے تھے۔ مدھوبالا نے پوری فلم کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور اس فلم نے باکس آفس پر کامیابی کے تمام پرانے ریکارڈ توڑ ڈالے۔
مدھوبالا نے دل کے عارضے کے باوجود ’مغل اعظم‘ میں اپنے پاؤں میں زنجیریں پہنیں
سال 1950 میں مدھوبالا کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔ معائنے اور تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ ان کے دل میں سوراخ ہے۔ اس وقت انڈیا میں دل کا آپریشن ایک مشکل آپریشن سمجھا جاتا تھا۔ مدھوبالا نے اپنی بیماری کو سب سے چھپایا اور فلموں میں کام کرتی رہیں۔
سنہ 1954 میں جب وہ چنئی میں فلم ’بہت دن ہوئے‘ کی شوٹنگ کر رہی تھیں تو انھیں خون کی قے ہوئی اور ان کی بیماری کی خبر ہر طرف پھیل گئی۔ فلم ’مغل اعظم‘ کے لیے کاسٹ کرتے وقت کے آصف نے بیک وقت کئی پریشانیوں کو دعوت دی تھی۔
راج کمار کیسوانی اپنی کتاب ’داستانِ مغل اعظم‘ میں لکھتے ہیں کہ ’پرتھوی راج کپور اس وقت کئی بیماریوں سے لڑ رہے تھے۔ دل کی بیماری کی وجہ سے مدھوبالا بھی کئی پابندیوں میں جکڑے ہوئی تھیں۔ فلم کے ایک خاص طور پر طویل حصے میں مدھوبالا کو بھاری اصلی لوہے کی زنجیریں پہننا پڑیں۔ جب جیل میں مدھوبالا پر ’بے کس پہ کرم کیجیے سرکار مدینہ‘ کا سین شوٹ ہونا تھا تو ڈاکٹروں کی سخت ہدایات تھیں کہ کسی بھی حالت میں وزن اٹھانے سے گریز کیا جائے۔ لیکن مدھوبالا نے اس کو شوٹ کرنے کی اجازت دی۔ مدھوبالا کا جسم بے بس ضرور تھا لیکن ان کے ارادے پختہ تھے۔
نرگس اور نوتن کے انکار کے بعد مدھوبالا کو مغل اعظم ملی
مغل اعظم مدھوبالا کے کیریئر کی آخری فلم تھی۔ اس سے قبل یہ فلم کی پیشکش نرگس کو کی گئی تھی لیکن انھوں نے یہ فلم سائن نہیں کی کیونکہ وہ اس وقت راج کپور کیمپ میں تھیں اور دلیپ کمار سے ان کی ناراضی چل رہی تھی۔ پھر نوتن کو یہ فلم آفر ہوئی لیکن انھوں نے بھی اس فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔
جب مدھوبالا نے یہ فلم سائن کی تو ان کی عمر صرف 20 سال تھی۔ اس فلم کو بنانے میں آٹھ سال لگے۔ بعد میں نادرا نے کہا کہ ’یہ مدھوبالا کی ہی ہمت تھی کہ وہ شدید بیمار ہونے کے باوجود آٹھ سال تک یہ کردار ادا کرتی رہیں۔‘
وہ فلم کے پہلے منظر سے آخری منظر تک بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ یہ اس وقت کی سب سے مہنگی فلم تھی۔ یہ فلم تین زبانوں ہندی، انگریزی اور تامل میں بنائی گئی تھی۔ ہر مکالمے کو تین زبانوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ اس فلم کی شوٹنگ کے بعد اس کی اتنی فلم ریل ضائع ہوئی تھی جس سے کم از کم تین فلمیں بن سکتی تھیں۔
دلیپ کمار اور مدھوبالا کے درمیان بات چیت ختم ہو گئی
مغل اعظم کا سب سے مشہور سین وہ تھا جب دلیپ کمار نے مدھوبالا کے ہونٹوں کو پنکھ سے چھوا۔ سبھاش گھئی کا کہنا ہے کہ ’کے آصف نے اس سین کو بہت حساس طریقے سے شوٹ کیا تھا۔ اس سین کا اثر براہ راست بوسہ لینے والے سین کی فلم بندی سے زیادہ تھا۔‘ مہیش بھٹ کی نظر میں ’یہ شاید ہندوستانی سنیما کا سب سے شہوت انگیز منظر تھا۔‘
بعد ازاں کے آصف کی اہلیہ ستارہ دیوی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’مغل اعظم کے سیٹ پر کشیدگی رہتی تھی کیونکہ دلیپ کمار اور مدھوبالا کے درمیان بات چیت نہیں تھی۔ دبے ہوئے جذبات اس وقت کُھل کر سامنے آئے جب ایک سین میں دلیپ کمار نے مدھوبالا کے گال پر اتنا زور سے تھپڑ مارا کہ سب دنگ رہ گئے۔
اجیت کہتے ہیں کہ ’سب سوچنے لگے کہ آگے کیا ہو گا؟ کیا مدھوبالا سیٹ سے واک آؤٹ کریں گی؟ کیا شوٹنگ منسوخ ہو جائے گی؟ اس سے پہلے کہ مدھوبالا کچھ کہتی، آصف انھیں ایک کونے میں لے گئے اور کہا کہ ’میں آج بہت خوش ہوں کیونکہ یہ صاف ہے کہ وہ اب بھی تم سے پیار کرتا ہے۔ یہ کام کرنے کی ہمت کوئی عاشق ہی کر سکتا ہے۔‘
مغل اعظم میں اتنی اچھی اداکاری کرنے کے باوجود بہترین اداکارہ کا ایوارڈ مدھوبالا کو نہیں بلکہ ببینا رائے کو فلم ’گھونگٹ‘ کے لیے ملا تھا۔
مدھوبالا اور دلیپ کمار کی محبت
اپنی سوانح عمری ’دی سبسٹینس اینڈ دی شیڈو‘ میں دلیپ کمار لکھتے ہیں کہ ’میں بطور فنکار اور عورت دونوں طرح سے مدھوبالا کی طرف متوجہ تھا۔ وہ بہت زندہ دل اور چست خاتون تھیں۔ اسے مجھ جیسے شرمیلے اور اپنے آپ میں رہنے والے شخص سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔‘
لیکن یہ محبت کی کہانی مدھوبالا کے والد عطا اللہ خان کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ان کے والد کا خیال تھا کہ دلیپ کمار عمر میں مدھوبالا سے بڑے ہیں۔ خدیجہ اکبر مدھوبالا کی سوانح عمری ’آئی وانٹ ٹو دی سٹوری آف مدھوبالا‘ میں لکھتی ہیں کہ ’دلیپ کمار اور عطا اللہ خان کے درمیان اختلافات فلم ’نیا دور‘ کی شوٹنگ کے دوران سامنے آئے۔ اس فلم میں بی آر چوپڑا نے سب سے پہلے مدھوبالا کو بطور ہیروئن لیا۔ جب چوپڑا نے فلم کی شوٹنگ آؤٹ ڈور کرنے کا ارادہ کیا تو عطا اللہ خان نے اس پر سخت اعتراض کیا۔ بی آر چوپڑا نے نہ صرف مدھوبالا کی جگہ وجنتی مالا کو لے لیا بلکہ ان کے خلاف معاہدہ کی شرائط توڑنے کا مقدمہ بھی درج کرایا۔‘
بعد ازاں دونوں کے درمیان صلح ہو گئی اور مقدمہ واپس لے لیا گیا۔ مدھوبالا کی چھوٹی بہن مدھور بھوشن بتاتی ہیں کہ ’دلیپ صاحب نے کہا چلو شادی کر لیں۔ اس پر مدھوبالا نے کہا کہ میں شادی ضرور کروں گی لیکن پہلے آپ میرے والد سے معافی مانگیں۔ لیکن دلیپ کمار نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ میری بہن نے انھیں گھر آ کر انھیں گلے لگانے کو کہا۔ لیکن دلیپ کمار اس پر بھی راضی نہیں ہوئے۔ وہاں سے ان دونوں کے درمیان بریک اپ ہو گیا۔‘
کشور کمار کے ساتھ بے جوڑ شادی
جب مدھوبالا کو معلوم ہوا کہ دلیپ کمار ان سے شادی نہیں کریں گے تو انھوں نے یہ ثابت کرنے کے لیے کشور کمار سے شادی کر لی کہ وہ کسی بھی مرد سے شادی کر سکتی ہے، حالانکہ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے بھی نہیں تھے۔
کشور کو شادی سے پہلے ہی مدھوبالا کی بیماری کا علم تھا۔
کشور کمار کی سوانح عمری ’کشور کمار دی الٹیمیٹ بائیوگرافی‘ میں انیرودھ بھٹاچارجی اور پارتھیو دھر نے مدھوبالا کی چھوٹی بہن مدھور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جیسے ہی ڈاکٹر نے کشور کو بتایا کہ مدھوبالا کی زندگی کے بہت کم دن باقی ہیں، اس نے انھیں ایک ڈرائیور کے ساتھ کارٹر روڈ کے ایک فلیٹ میں بھیج دیا۔
’وہ چار مہینوں میں ایک بار اس سے ملنے جاتے تھے اور اس کا فون بھی نہیں سنتے تھے۔ آخری دنوں میں مدھوبالا نے گاؤن پہننا شروع کیا۔‘
لیکن کشور کمار کے بیٹے امیت کمار نے اس کے برعکس تصویر پیش کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’میں نے پہلی بار مدھوبالا کو دس سال کی عمر میں دیکھا تھا۔ میرے والد نے برانڈا میں فلیٹ لے کر ان کے ساتھ رہنا شروع کر دیا تھا۔
’میں چھٹیوں میں ان کے ساتھ رہتا تھا۔ جب میں نے انھیں ’جھمرو‘ کے سیٹ پر دیکھا تو وہ بہت خوبصورت لگتی تھیں لیکن بعد میں وہ کمزور پڑ گئی تھیں۔‘
’بعد میں مدھوبالا باندرہ میں اکیلی رہنے لگی۔ میرے والد ہر روز ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ وہ اصرار کرتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھائیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میرے والد کو دو بار رات کا کھانا کھانا پڑتا ایک بار مدھوبالا کے ساتھ اور دوسری بار میری ماں کے ساتھ۔‘
مدھوبالا کا اچھا سلوک
انیل بسواس کا خیال تھا کہ فلم انڈسٹری میں مدھوبالا سے زیادہ نرم بولنے والی اور لوگوں کو عزت دینے والی کوئی اور خاتون نہیں تھی۔
مشہور صحافی بی کے کرنجیا لکھتے ہیں کہ ’مجھے آج بھی یاد ہے کہ کس طرح مدھوبالا اپنی بیٹی رتن کے ساتھ کوئٹہ ٹیرس پر ہمارے فلیٹ میں چھپن چھپائی کھیلتی تھیں۔ ایک بار میری بیٹی نے میڈو سٹریٹ پر کمبا کے کریم بن کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ اگلے دن مدھوبالا نے ڈرائیور کے ہاتھ ہمارے گھر پر کریم بنوں کا ایک بہت بڑا تحفہ بھجوا دیا۔ ‘
جب دلیپ کمار سائرہ بانو سے شادی کر رہے تھے تو مدھوبالا نے انھیں پیغام بھیجا کہ وہ ان سے ملنا چاہتی ہیں۔ دلیپ کمار ان سے ملنے گئے تو مدھوبالا بہت کمزور ہو چکی تھی۔
انھوں نے بہت دھیمی آواز میں ان سے کہا کہ ’ہمارے شہزادے کو اس کی شہزادی مل گئی ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔‘
صرف 36 برس کی عمر میں موت
جب مدھوبالا بریچ کینڈی ہسپتال میں اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی، بی کے کرنجیا شاید ان سے ملنے والے آخری شخص تھے۔
کرنجیا لکھتے ہیں کہ ’مدھوبالا کو جب ہسپتال میں سانس لینے میں دشواری تھی اور ناک میں آکسیجن ٹیوب لگی ہوئی تھی وہ اس وقت بھی بےحد حسین لگ رہی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرا دیں۔ میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ ہم خاموشی سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے لگے۔ نرس نے مجھے ان کے قریب بیٹھنے کے لیے صرف پانچ منٹ کا وقت دیا تھا لیکن مدھوبالا نے میرا ہاتھ نہیں چھوڑا۔ ان کی آنکھیں بھر آنے لگیں۔
’میں نے اپنا ہاتھ آہستہ سے چھڑایا اور دونوں ہاتھوں سے ان کا ہاتھ تھام لیا۔ پھر میں نے جھک کر اس کی ٹھنڈی اور نم پیشانی کو بوسہ دیا۔ میری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے اور میں ایک فوراًسے کمرے سے باہر آ گیا۔ نرس نے آہستہ سے مدھوبالا کے کمرے کا دروازہ بند کر دیا اور آہستہ سے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا۔ اس نے سرگوشی کی اور کہا دعا کرو۔‘
اگلے دن 23 فروری 1969، یعنی اپنی 36 ویں سالگرہ کے نویں دن مدھوبالا نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا۔
اس دن دلیپ کمار مدراس میں شوٹنگ کر رہے تھے۔ جب وہ بمبئی پہنچے مدھوبالا دفن ہو چکی تھی۔ وہ ایئرپورٹ سے سیدھا قبرستان گئے اور ان کی قبر پر پھول چڑھا کر ان کی آخری رسومات ادا کیں۔