’سٹینڈ بائی‘ معاہدہ کیا ہے اور اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال نہ ہوا تو اس کا پاکستان کے لیے کیا مطلب ہوگا؟

بی بی سی اردو  |  Jun 29, 2023

Getty Images

پاکستان میں 30 جون ملک کے مالی سال کے اختتام کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاکستان کے لیے قرض پروگرام کی بھی آخری تاریخ ہے۔

پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے کچھ چند دنوں میں چند اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

بجٹ میں اضافی ٹیکس جمع کرنے کے فیصلوں کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام سے رابطے بھی کیے گئے۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف اور مینیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف کرسٹلینا جورجیوا کے درمیان ٹیلی فون رابطے میں آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے امور پر گفتگو ہوئی۔ آئی ایم ایف نے اس دوران حکومت کی جانب سے آخری وقت میں کی گئی کوششوں کا اعتراف کیا۔

وزیراعظم کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کے نکات پر ہم آہنگی آئندہ ایک، دو دن میں آئی ایم ایف کے فیصلے کی شکل اختیار کرے گی۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن چیف نیتھن پورٹر نے کہا ہے کہ ’پاکستان نے حالیہ دنوں میں فیصلہ کن اقدامات کیے ہیں اور مالی تعاون کے لیے معاہدے تک جلد پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جبکہ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈارکا کہنا ہے کہ ’ملکی معیشت کو ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے۔ آئندہ ایک دو، دن بہت اہم ہیں۔ قوم کو خوشخبری ملے گی۔‘

Reuters

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر رابطوں کے درمیان موجودہ پروگرام کی بحالی کے حوالے سے اب ایسی اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ موجودہ پروگرام کی بحالی کی بجائے اب کسی قلیل مدتی پروگرام یا ’سٹینڈ بائی معاہدے‘ کے سلسلے میں بھی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے ڈھائی ارب ڈالر سے زائد کی فنڈنگ حاصل کی جا سکے۔ مگر تاحال آئی ایم ایف نے ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی ہے۔

ماہرین معیشت کے مطابق پروگرام کی بحالی کی صورت میں پاکستان کے لیے وقتی طور پر ریلیف حاصل ہو گا تاہم اگر اس میں ناکامی ہوتی ہے تو ملک کے لیے بے پناہ مالی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

دونوں صورتوں میں عام فرد کے لیے مالی مشکلات پیدا ہوں گی جو مہنگائی کی صورت میں ان پر مزید بوجھ ڈالیں گی۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو اگلے چھ مہینوں میں دس ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جو بظاہر اسی صورت ہی ممکن ہو گی۔

Getty Imagesپاکستان کے لیے آئی ایم ایف کتنا ضروری ہے؟

پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے موجودہ پروگرام کے تحت دو ارب ساٹھ کروڑ ملنا باقی ہیں جس میں سے ایک ارب ڈالر کی قسط آٹھویں اور نویں نظر ثانی جائزے کے بعد جاری ہونی تھی تاہم گذشتہ سال نومبر کے مہینے میں پروگرام کے معطل ہونے سے اس قسط کا اجرا رُک گیا تھا۔

پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام کے بارے میں معاشی امور کے سینیئر صحافی شہباز رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ موجودہ پروگرام کی بحالی کے امکانات تو کافی کم ہو گئے ہیں۔

شہباز رانا، جو پاکستان اور آئی ایم ایف پروگرام کے امور کی رپورٹنگ کر رہے ہیں، ان کے مطابق اب ایک، دو دن رہ گئے ہیں اور اب مشکل ہے کہ سٹاف لیول معاہدہ ہو جائے۔

اس لیے اب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک قلیل مدتی پروگرام یا سٹینڈ بائی معاہدے کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا اس کے تحت 2.6 ارب ڈالر حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ قلیل مدتی پروگرام کے لیے چھ ماہ ہوں گے کیونکہ ستمبر، اکتوبر میں نگران حکومت ہو گی۔ اس لیے اس حکومت کو یہ پروگرام کرنا ہے جس کی مدت قلیل عرصے کے لیے ہو گی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان کو اگلے مالی سال میں 25 ارب بیرونی قرضوں کی صورت میں واپس کرنا ہے اور صرف اگلے چھ ماہ میں ان قرضوں کی واپسی کا حجم 10.6 ارب ڈالر ہے۔‘

شہباز رانا نے کہا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے ملک کو قلیل مدت کے لیے تو فائدہ ہو گا تاہم اس سے معیشت کے واپس ترقی کی شاہراہ پر چلنا ابھی بہت دور کی بات ہے۔‘

’لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پروگرام کی بحالی کے پاکستان کے لیے نقصانات پروگرام کی بحالی نہ ہونے کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔‘

Getty Imagesآئی ایم ایف پروگرام بحال نہ ہونے کی صورت میں کیا نقصان ہو سکتا ہے؟

پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی نہ ہونے کی صورت میں مالی نقصان کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں کام کرنے والی ماہر معیشت عافیہ ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ بحالی میں ناکامی کی صورت میں ملکی معیشت بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہو جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’زرمبادلہ ذخائر بہت کم سطح پر موجود ہیں اور پروگرام بحالی کی صورت میں آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ڈالر نہیں آئیں گے بلکہ دوسرے مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کے لیے فنڈنگ شروع ہو جائے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس پروگرام کی بحالی میں ناکامی سے روپے پر بہت زیادہ دباؤ آ جاتا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بحالی میں ناکامی کی صورت میں مارکیٹ میں بہت منفی پیغام جائے گا جو ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بھی حوصلہ شکنی کرے گا۔‘

عافیہ نے کہاکہ ’حکومت کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام نہ ہونے کی صورت میں متبادل انتظام کیا جائے گا۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ ’یہ انتظام قابل عمل نظر نہیں آتا جس میں ملک کے اثاثوں کو بیرون ملک سرمایہ کاروں کو دے کر پیسے حاصل کرنا ہے۔‘

تاہم ان کے مطابق ’یہ ایک شارٹ ٹرم اقدام تو ہو سکتا ہے جو طویل عرصے کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہو سکتا۔‘

شہباز رانا نے اس سلسلے میں کہا کہ ’پروگرام کی بحالی کی ناکامی کا نقصان بہت زیادہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بحالی کی ناکامی میں ڈالر کا ریٹ بہت زیادہ اوپر چلا جائے گا جب کہ مہنگائی کی شرح میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’نقصانات کا بوجھ عوام پر پڑے گا جو اس وقت مہنگائی کی بلند شرح برداشت کر رہے ہیں۔‘

Getty Imagesعوام کو کیا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا؟

پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی یا اس میں ناکامی دونوں صورتوں میں عوام پر بوجھ پڑے گا جس میں مہنگائی کی بلند شرح خاص کر یوٹیلیٹی کی قیمت میں اضافہ ہے۔

شہباز رانا نے کہاکہ ’عوام پرپروگرام کی بحالی کے بعد بھی بوجھ پڑے گا تاہم ناکامی کی صورت میں اس کا بوجھ بہت زیادہ ہو گا۔‘

رانا نے کہا کہ ’پاکستان اور آئی ایم ایف اور اس وقت جو مذاکرات کر رہے ہیں اس میں بجلی کی قیمت میں اضافہ شامل ہے تو اسی طرح پٹرولیم مصنوعات پر لیوی زیادہ وصول کرنا ہے۔

’اس کے ساتھ شرح سود میں مزید اضافہ بھی ہوگا اور ان کا مجموعی اثر عوام پر مزید مہنگائی کی بوجھ میں پڑے گا جو اس وقت مہنگائی کی بلند شرح میں پس رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ پاکستان میں مئی کے مہینے کے اختتام پر 38 فیصد کی بلند شرح مہنگائی تھی جو پاکستان کی تاریخ میں کسی ایک مہینے میں مہنگائی کی بلند شرح ہے۔

رانا نے کہا کہ ’اگر پروگرام بحال نہیں ہوتا تو اس کا جو اثر عوام پر جو بوجھ پڑے گا وہ ناقابل برداشت ہو گا کیونکہ ڈالر کی قیمت بے قابو ہو گی جو مزید مشکلات پیدا کرے گی۔‘

عافیہ ملک نے اس سلسلے میں کہا کہ ’جب پروگرام بحالی نہ ہو گی تو لازمی طور پر یہ ملک میں ڈالر کی قیمت کو بڑھائے گا اور پاکستان درآمدات پر انحصار کرنے والا ملک ہے جو درامدی اشیا کو مہنگا کرے گا لیکن اس کے ساتھ جب ڈالر ہی کم ہوں گے تو درآمدات میں رکاوٹ ہو گی جو ملک میں سپلائی چین کو متاثر کرے گی جو صنعت سے لے کر ایک عام فرد سب کو متاثر کرے گی۔‘

واضح رہے کہ پروگرام کی شرائط کے تحت پاکستان پہلے ہی بجلی و گیس نرخ بڑھا چکا ہے جب کہ اضافی ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس اور پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی مد میں زیادہ ٹیکس وصول کر رہا ہے۔

Getty Imagesآئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی معاہدے سے کیا مراد ہے؟

پاکستان کے معاشی حالات کے تناظر میں آئی ایم ایف کے دو پروگرام بہت اہم ہیں: ’سٹینڈ بائی ارینجمنٹ‘ (ایس بی اے) اور ’ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی' (ای ایف ایف) ہیں۔

آئی ایم ایف کی ویب سائٹ کے مطابق ’سٹینڈ بائی ارینجمنٹ‘ سے مراد ہے کہ قلیل مدتی فنانسنگ کے ذریعے کسی ملک کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات پوری کی جائیں۔ ایسے میں کم آمدنی والے ممالک کی اسی صورت میں مدد کی جاتی ہے اگر وہ ان مشکلات کو دور کریں جن کی بدولت انھیں فنڈنگ کی ضرورت پیش آئی تھی۔

اس قسم کی فنانسنگ کی مدت 12 سے 24 ماہ تک ہوسکتی ہے مگر 36 ماہ سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ جبکہ فنانسنگ کی رقم ساڑھے تین سے پانچ سال میں لوٹائی جاتی ہے۔

ایس بی اے، آئی ایم ایف کا ترقی پذیر معیشتوں کے لیے مرکزی منصوبہ ہوتا ہے۔ عموماً یہ ان ملکوں کو دیا جاتا ہے جنھیں کم وقت میں ادائیگیوں میں توازن لانے کے لیے قرضے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کی شرح سود عالمی مارکیٹ کے مطابق ہوتی ہے لیکن آئی ایم ایف کے مطابق یہ ہمیشہ دوسرے نجی قرضوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔

وہ ممالک جنھوں نے آئی ایم ایف سے اصلاحاتی قرضہ لیا لیکن اس کی شرائط میں طے کیے گئے ہدف پورے نہ کر سکے تو انھیں سہارے کے لیے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت مزید قرض دیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس ای ایف ایف وسط مدتی پروگرام ہے جس کا مقصد صرف ادائیگیوں میں توازن نہیں بلکہ اس کی خاص توجہ ملک کی معاشی ڈھانچے میں اصلاحات پر بھی ہوتا ہے۔

یہ منصوبہ تین سال کا ہوتا ہے لیکن اسے ایک برس تک کی توسیع مل سکتی ہے جبکہ رقم کی واپسی چار سے دس سال کے عرصے میں کی جاتی ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق ملک کی معیشت کی خراب صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ٹھیک راہ پر لانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں جس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اسی وجہ سے ای ایف ایف کا دورانیہ زیادہ ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے جوائٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’ایس بی اے کی مدت بھی کم ہوتی ہے، اس میں شرائط بھی کم ہوتی ہیں اور یہ اس وقت دیا جاتا ہے جب آپ پہلے سے اصلاحاتی پروگرام پر چل رہے ہوتے ہیں لیکن اس کو مکمل کرنے کے لیے آپ کو کچھ مزید مدد چاہیے ہوتی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More