گھریلو خواتین کا شوہر کی جائیداد میں ’برابر حصے‘ سے متعلق عدالتی فیصلہ جسے انڈیا میں پذیرائی ملی

بی بی سی اردو  |  Jun 29, 2023

Getty Images

انڈیا کی ایک عدالت نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں گھریلو خواتین کے اپنے شوہر کی جائیداد پر حق میں نمایاںاضافہ کیا ہے۔ اسے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں سراہتی نظر آ رہی ہیں۔

انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کی مدراس ہائی کورٹ نے 21 جون کوگھریلو تنازعے سے متعلق ایک کیس کے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ہاؤس وائف (گھریلو خواتین) اپنے شوہر کی جائیداد میں برابرکی حصہ دار ہوں گی۔

عدالت کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب کسی انڈین عدالت نے شوہر کی آمدنی میں گھریلو خاتون کے حصہ کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔

تاہم ماہرین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہو سکتا جب تک کہ ملک کی سپریم کورٹ مستقبل میں اسی طرح کے خطوط پر فیصلہ نہ کرے۔

مقدمہ کیا تھا

اس کیس میں تمل ناڈو کا ایک ایسا جوڑا شامل تھا جن کی شادی 1965 میں ہوئی تھی۔

تاہم خاتون کے شوہر نے 1982 کے بعد سعودی عرب جا کر ملازمت کر لی جبکہ اس شخص کی بیوی، جو انڈیا میں ہی رہ گئی تھیں اور ان کا اپنا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تھا۔

شوہر نے دوران ملازمت اپنی بیوی کو اس دوران اخراجات کےلیے جو رقم بھیجی انپیسوں سےاس خاتون جائیداد اور زیورات کی خریداریکر کے اثاثے بنائے۔

خاتون کا شوہر جب تقریباً 12 سال بعد انڈیا واپس لوٹا تو اس نے اپنی بیوی پر تمام جائیدادوں پر مکمل ملکیت کا دعویٰ کرنے کی کوشش کا الزام لگایا۔

اس شخصنے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس کی بیوی اپنے سونے کے زیورات کو اس سے چھپا رہی تھی اور پاور آف اٹارنی دے کر ایک ایسے شخص کے ہاتھ اپنا ایک اثاثہ بیچنا چاہتی تھی جس کے ساتھ اس کا مبینہ طور پر تعلق تھا۔

گھریلو جھگڑے کے اس تنازعے میں پانچ اثاثوں کا احاطہ کیا گیا تھا جس میں سے چار جائیدادیں خاتون کے نامسے خریدی گئی تھیں جن میں ایک مکان اور زمین بھی شامل تھی۔ جبکہ پانچویں تنازعے میں میں گولڈ بارز، زیورات اور وہ قیمتی ساڑھیاں شامل تھیں جو اس شخص نے اپنی بیوی کو مختلف مواقعوں پر تحفے میں دی تھیں۔

سنہ 1995 میں اس شخص نےقیمتی تحائف سمیت پانچوں اثاثوں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرنے کے لیے اپنی بیوی کے خلافٹرائل کورٹ میںمقدمہ دائر کیا۔

اس شخص نے اپنی بیوی ک خلاف مقدمہ میںدعویٰ کیا کہیہ تمام اثاثے اس کے پیسوں سے خریدے گئے تھے اور اپنی بیوی کو اس نے صرف اپنی طرف سے بطور ٹرسٹی رکھا تھا۔

2007 مقدمہ ابھی عدالت میں تھا کہ 2007 میں اس شخص کی موت واقع ہو گئیجس کے بعد اس کے بچوں نے یہدعویٰ قائم رکھا۔

Getty Imagesعدالت نے کیا کہا؟

اس مقدمے کی سماعت مکمل ہونے پر عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بیوی نے گھریلو کام کاج کرکے خاندانی اثاثے بنانے میں برابر کا حصہ ڈالا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’شوہر کی طرف سے کمانے اوربیوی کی طرف سے خاندان اور بچوں کی خدمت اور دیکھ بھال کے ذریعے کی جانے والی شراکت کا مطلب یہ ہو گا کہ دونوں اپنی مشترکہ کوششوں سے جو کچھ کماتے ہیں اس میں دونوں برابر کے حقدار ہیں۔‘

عدالت کے مطابق ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جائیداد کس کے نام پر خریدی گئی ہے۔ مرد کی شریک حیات جو خاندان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ادا کرتی ہے وہ ان میں برابر کے حصے کی حقدار ہوگی۔‘

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’عورت نے گھریلو زمہ داریوں کی ادائیگی کر کے بالواسطہ طور پر رقم کمانے میں حصہ ڈالا جس سے جائداد اور اثاثوں کی خریداری ممکن ہوئی اور اس کی اس مدد اور تعاون نے شوہر کو بہتر کام کرنے اور کمانے میں مدد فراہم کی۔‘

عدالت نے کہا کہ ایک گھریلو بیوی بیک وقت ایک شیف، ایک ہوم ڈاکٹر اور ہوم اکنامسٹجیسے مختلف کرداروں میں مسلسل 24 گھنٹے کام کرتی ہے۔ ہوم میکر کی عدم موجودگی میں، شوہر کو بیوی کے نبھائے جانے والے ان کرداروں کی فراہم کردہ خدمات کا معاوضہ ادا کرنا ہو گا۔

عدالت کے مطابق ’ان تمام زمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے سے ایک بیوی گھر کو مکمل آرام دہ ماحول فراہم کرتی ہے اور خاندان کی ذمہ داریوں میں اپنا حصہ ڈالتی ہے اور یقیناً یہ کوئی بیکار کام نہیں بلکہ یہ 24 گھنٹے مسلسل بنا چھٹیوں کے کرنے کا کام ہے اور اس کا موازنہ اس سے کم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے مقابلے میں ایک کمانے والاشوہر صرف آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے۔‘

عدالت نے مزید کہا کہ ’جب ایک عورت شادی کے بعد اپنی ملازمت چھوڑ دیتی ہے، تو اکثر اسے ناقابل تلافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں وہ اپنا کوئی اثاثہ نہیں بنا سکتی۔‘

اگرچہ انڈیا میں اب تک ایسا کوئی قانون نہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر گھریلو خاتون کی شراکت کو مکملتسلیم کرے تاہم عدالت نے کہا کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو ججوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنے سے روکتا ہو۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں اس استدلال کا استعمال کیا کہ پانچ میں سے تین اثاثے شوہر اور بیوی کے برابر ہیں۔

چوتھے اثاثے کے بارے میں، عدالت نے کہا کہ بیوی اس اثاثے کی واحد مالک ہے کیونکہ اس نے اسے اپنی شادی کے وقت حاصل کردہ زیورات گروی رکھ کر خریدا تھا، جو ہندو قانون کے تحت اس کی واحد ملکیت تھی۔

ملکیت کے اس مقدمے میں پانچواں دعویٰ تحائف کا تھا۔ اس دعوے میں عورت کے شوہر نے کہا تھا کہ اس نے یہ تحائف اپنی مرضی سے نہیں خریدے بلکہ صرف اپنی بیوی کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے قیمتی تحائف دینا پڑے۔

عدالت نے شوہر کی اس دلیل کو یکسر مسترد کر دیا۔

Getty Imagesاس مقدمے کے فیصلے کو پزیرائی کیوں مل رہی ہے؟

خواتین کے حقوق کی وکیل فلیویا ایگنس نے اسے خواتین کے لیے بہت ہی مثبت فیصلہ قرار دیا۔ ان کے مطابقیہ فیصلہ گھریلو خواتین کی گھریلو مشقت کو تسلیم کرتا ہے۔‘

خاندان اور جائیدادکے مقدمات کی ماہر وکیل مالویکا راجکوٹیا نے اس کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’ یہ فیصلہ ان تمام خواتین کے لیےایک بہت اہم سنگ میل ہے، جس میں خواتین اپنے مختلف مقدمات میں انصاف کے حصول کی کوشش کر رہی ہیں۔‘

مالویکا راجکوٹیا نے کہا کہ’انڈین ججوں نے اس سے قبل موٹر ایکسیڈنٹ کیس کے دعووں میں معاوضہکی ادائیگی کے لیے گھریلو خاتون کی آمدنی کی ایک تصوراتی قدر رکھی تھی۔ کچھ معاملات میں گھریلو خواتین کے لیے5,000 روپے جبکہ کچھ میں9,000 روپےماہانہکے درمیان کی رقم مقرر کی گئی تھی۔تاہم ان ان فیصلوں کی تشریح اس طرح کی ہی نہیں گئی کہ وہ معنی خیز بن سکیں، جبکہ اس کے مقابلے میں حالیہ فیصلہپہلی بار گھریلو حواتین کے حق کی ایک بامعنی پہچان ہے۔ اس لیے امید ہے کہ اس فیصلے کا مستقبل میں مثبت اثر ہو سکتا ہے۔‘

مالویکا راجکوٹیا کہتی ہیں انڈیا میں ہمارے ہاں طلاق کے معاملات میں 'طرز زندگی کا اصول' ہے۔ ’جب تک نان و نفقہ کی رقم ایک عورت کے طرز زندگی کا خیال رکھتی ہے، تب تک باقی تمام دعوے رد ہو جاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق حکومتی قوانین شوہر کی جائیداد میں بیوی کی ملکیت کو اس کی گھریلو مزدوری کو تسلیم کرتے ہوئے واضح بیان نہیں کرتےجو اسے اثاثہ خریدنے کے لیے پیسہ کمانے کی اجازت دیتا ہو۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے مطابق یہ فیصلہ روزمرہ زندگی کے اصول کے بالاتر ہو کر جائیداد میں حصہ دیتا ہے۔

تاہم اگنس متنبہ کرتی ہیں کہ ملک کی ہائی کورٹ متضاد مؤقف اختیار کر سکتی ہیں۔

راجکوٹیا کہتی ہیں کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ حق آئندہ کیسز میں کیسے دیا جاتا ہے۔ ’ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ عدالتیں اس حق پر عملدرآمد کے کیا طریقے اپناتی ہیں۔‘

’تاہم یہ اہم ہے کہ عدالت نے گھریلو خواتین کی محنت مزدوری کی قدر واضح کی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More