Getty Images1996 عالمی مقابلہ حسن کے انڈیا میں انعقاد کے خلاف احتجاج نے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا
حال ہی میں اعلان ہوا ہے کہ عالمی مقابلہ حسن کے اگلے ایڈیشن کا انعقاد انڈیا میں ہو گا۔ اس اعلان سے 1996 کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں کہ جب ایسے ہی ایک اعلان پر ملک میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے، خود سوزی کی دھمکیاں دی گئیں اور ثقافتی تباہی کی پیش گوئیاں شروع ہوگئیں۔ بی بی سی کی زویا متین نے اس ہنگامہ خیز دور کو یاد کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا انڈیا اب تبدیل ہو چکا ہے۔
یہ 27 برس پہلے یعنی 1996 کی بات ہے۔ انڈیا نے چند سال قبل ہی عشروں پرانی اپنی معاشی پالیسیوں کو ترک کر کے اپنے آپ کو دنیا کی منڈیوں کے لیے کھول دیا تھا۔ ریولن، لوریئل اور کے ایف سی جیسے بین الاقوامی برانڈز ملک میں آنا شروع ہو چکے تھے جنھیں بعض مقامی لوگ اور کارخانہ دار اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ اس سے ملک میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔
اس وقت تک انڈیا میں حسن کے مقابلے بہت مقبول ہو چکے تھے۔ دو سال پہلے ہی سشمیتا سین اور ایشوریہ رائے بالترتیب مس یونیورس اور مس ورلڈ بن چکی تھیں اور آگے چل کر بالی ووڈ سٹار بن گئیں۔ لاکھوں نوجوان خواتین ان کی پیروی کرتے ہوئے شاندار کیریئر شروع کرنے کی خواہش مند تھیں۔ حالانکہ کچھ لوگ ان مقابلوں میں جسمانی خوبصورتی پر توجہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔
لیکن اس تقریب کے انعقاد سے دو ہفتے قبل پُرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ مظاہرین میں دائیں بازو کے سیاست دانوں، خواتین کے حقوق کے حامیوں کے علاوہ کاشتکار بھی شامل تھے۔ منتظمین کو مقابلے کے شرکا کی حفاظت کی خاطر مقابلے سوئم سوٹ راؤنڈ مقابلوں کو انڈیا سے باہر سیشیلز منتقل کرنا پڑا تھا۔
لاس اینجلس ٹائمز نے اس موقع پر لکھاتھا کہ 'اس مقابلے کے حمایتیوں کے لیے جنھیں زیادہ تر ہندوستانیوں کی حمایت حاصل ہے، یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اتنے معمولی واقعے نے اس طرح کا ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔‘
فلم ساز پرومیتا ووہرا کا کہنا ہے کہ یہ رد عمل دراصل قدامت پسند عقائد اور جدید اور چمکدار دنیا کی کشش کے درمیان کشمکش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’مس ورلڈ اسی وقت انڈیا میں آیا جب گلوبل مارکیٹ انڈیا آئی تھی۔ جس پر ردعمل سامنے آیا۔‘
Getty Imagesسشمیتا سین 1994 میں مس یونیورس قرار پائی تھیں
لیکن 1996 کے بعد انڈیا میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ انڈیا نے مقابلہ حسن کے قریبا آدھے درجن مقابلے جیت رکھے ہیں اور یہاں لاکھوں ڈالر مالیت کی مقامی فیشن انڈسٹری ہے جو اپنے تخلیقی کام اور دستکاری کی وجہ عالمی سطح پر مانی جاتی ہے۔
فلموں اور ویب شوز میں باقاعدگی سے ایسے موضوعات پر بات ہوتی ہے جن پر پہلے بات نہیں ہو سکتی تھی۔ خواتین کے لباس اور خوبصورتی کے معیارات کے بارے میں بہت باریک بینی سے باتیں ہوتی ہیں۔
1996 میں مقابلہ حسن کا انعقاد بالی ووڈ سپر سٹار امیتابھ بچن کی کمپنی نے کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق کمپنی نے دو ہزار تکنیکی ماہرین اور 500 ڈانسر اور سولہ ہاتھیوں کی خدمات حاصل کی تھیں۔
لیکن شو کے انعقاد سے چند ہفتے پہلے، بنگلورو (سابقہ بنگلور) شہر میں پُرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے۔
خواتین کی ایک تنظیم کے ارکان نے بڑے پیمانے پر خودکشی کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ مس ورلڈ جیسے مقابلوں سے ’فحاشی اور جسم فروشی میں اضافہ ہوگا۔‘
گروپ کے ایک رہنما نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا تھا کہ منی سکرٹ پہننا ’ہماری ثقافت کا حصہ نہیں ہے۔‘ سی این این کی رپورٹ کے مطابق ایک شخص نے 'احتجاجاً' خودکشی کر لی تھی۔
انڈیا کی موجودہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی اس مقابلے کی مخالفت کی تھی۔ کسانوں کے گروپ نے اس کرکٹ سٹیڈیم کو ندر آتش کرنے کی دھمکی دی تھی جہاں مقابلے کا انعقاد کیا جانا تھا۔
Getty Imagesمختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے انڈیا کے شہروں میں مظاہرے کیے
خواتین کے حقوق کے علمبرداروں نے احتجاج کیا۔ ایک گروپ نے ایک فرضی مقابلے کا انعقاد کیا تھا جس میں مقابلہ کرنے والوں کو مس پاورٹی (غربت) اور مس ہوملیس (بے گھر) جیسے القابات دیے گئے۔
شہر بھر میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے جن میں سے کئی حفاطتی لباس میں ملبوس تھے۔ کچھ ابتدائی تقریبات بنگلورو کے مضافات میں منعقد کی گئیں جس میں ایک فضائیہ کا اڈہ بھی شامل تھا۔ مقابلے کا سب سے متنازع سوئم سوٹ راؤنڈ ملک سے باہر منتقل کر دیا گیا تھا۔
سابق ماڈل رانی جیاراج، جنھوں نے 1996 کے مقابلے میں انڈیا کی نمائندگی کی تھی، کہتی ہیں کہ جب مقابلے کے سوئم سوٹ راؤنڈ کو سیشیلز منتقل کیا تو اس سے نہیں بہت سکون ملا۔ ’تب تک، میں بہت سے چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے تھک چکی تھی۔ مقابلے کے ایک حصے کو چھوٹے سے جزیرے پر لے جانا بہت اچھا لگا جہاں مجھے ہر وقت ہراساں نہیں کیا جائے گا۔‘
جیاراج بتاتی ہیں کہ مقابلے میں حصہ لینے والوں کو جہاں تک ممکن ہو سکا اس تنازع سے محفوظ رکھا گیا تھا اور انھیں کئی ہفتوں تک ایک پرتعیش فائیو سٹار ہوٹل کے اندر رکھا گیا تھا اور ان کا باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔
’لیکن الگرہنا اور دوستوں و کنبہ سے ملنے کے قابل نہ ہونا عجیب لگتا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں: ’فائنل مقابلے سے چند گھنٹے پہلے ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب میں اس ماحول سے تنگ آ کر مقابلہ چھوڑنا چاہتی تھی۔‘
Getty Imagesمظاہرین نے کئی روز تک بنگلورو کی سڑکوں کو بند کیے رکھا
لیکن یہ پہلا موقع نہیں تھا جب مقابلہ حسن کے انعقاد کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔ پہلی بار 1968 میں امریکہ میں مس امریکہ کے مقابلے کے موقع پر خواتین کے حقوق کے علمبرداروں نے مقابلے کے مقام کے باہر ایک کوڑے دان کو بیوٹی پراڈکٹس سے بھر دیا تھا۔
دو سال بعد مظاہرین نے برطانیہ کے رائل البرٹ ہال میں داخل ہو کر مس ورلڈ کے سٹیج پر آٹا اور گلی سڑی سبزیاں پھینک دی تھیں۔
سنہ 2013 میں مس ورلڈ کا فائنل انڈونیشیا میں ہوا تھا جہاں قدامت پسند اسلامی گروہوں نے اس کے خلاف کئی ہفتوں تک احتجاج کیا جس کی وجہ مقابلے کو دارالحکومت جکارتہ سے سیاحتی مقام بالی منتقل کیا گیا تھا اور وہاں بھی بکنی راؤنڈ منسوخ کر دیا گیا تھا۔
سنہ 1996 میں سوئم سوٹ انڈیا کے لیے بالکل اجنبی نہیں تھے۔ وہرا بتاتی ہیں کہ بالی ووڈ کی کچھ اداکارائیں پہلے ہی لباس کے پرانے تصورات کو چیلنج کر رہی تھیں اور وہ سوئم سوٹ کو پہن چکی تھیں۔
لیکن اسے پہننا عام بات نہیں تھی۔ ایشوریا رائے اور سشمیتا سین سمیت کئی انڈین امیدواروں نے بیرون ملک حسن کے مقابلوں میں سوئم سوٹ راؤنڈ میں بھی حصہ لیا تھا۔
لیکن ووہرا کہتی ہیں کہ شاید 1996 کے مقابلے کے بارے میں تشویش کی وجہ ایک یہ خوف بھی تھا کہ ’متوسط طبقے، اونچی ذات کی خواتین جو عام طور پر ان مقابلوں میں حصہ لیتی ہیں وہ عوامی مقامات پر سوئم سوٹ پہنے نظر آئیں گی۔‘
لیکن انڈیا میں ہونے والے مظاہروں کے تقریباً تین عشروں بعد بھی، کیا حسن کے مقابلے اب بھی اتنے ہی اہم ہیں؟
ایک وقت تھا جب یہ مقابلے خواتین کو ایک خوش کن اور معاشی طور پر آسودہ دنیا میں داخل ہونے کا ایک ذریعہ تصور ہوتے تھے۔ اگر آپ ماڈل بن گئیں تو آپ دنیا کا سفر کرسکتی یں، ایک آئیکون بن سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ فائر برانڈ امریکی فیمنسٹ گلوریا سٹائنم نے بھی ایک نوجوان کے طور پر اس میں حصہ لیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ ’ایک انتہائی غریب پڑوس میں سے باہر نکلنے کا ایک راستہ لگتا تھا۔‘
انڈیا میں بھی حسن کے مقابلے بالی ووڈ میں داخل ہونے کا ایک ذریعہ رہے ہیں البتہ بالی ووڈ میں کامیابی کی شرح ملی جلی رہی ہے۔
لیکن اب بہت سی نوجوان انڈین خواتین بالی ووڈ میں داخلے کے لیے مقابلہ حسن میں شرکت واحد طریقہ نہیں سمجھتی ہیں۔
ووہرا کہتی ہیں کہ خوبصورتی کے مقابلوں کا مقصد کبھی بھی مستند خوبصورتی یا مثالی معیار کا حامل نہیں ہونا تھا۔ اس کے بجائے، وہ اسے ایک معاشی رجحان قرار دیتی ہیں جس کی جڑیں ’مارکیٹ میں ہیں‘۔
جب مس ورلڈ انڈیا میں مقبول ہوئی تو اس نے خوبصورتی کا ایک مختلف تصور بھی پیش کیا، پتلی کمر، خوبصورت گاؤن اور بھاری ساخت والا چہرہ۔
وہرا کہتی ہیں کہ 'مثال کے طور پر 30 سال پہلے بالی ووڈ فلموں میں کام کرنے والی خواتین خوبصورتی کے گلوبلائزڈ سپر ماڈل معیار سے کہیں زیادہ بہتر تھیں۔‘
لیکن حسن کے بین الاقوامی مقابلوں نے زندگی میں ترقی کی خواہشمند خواتین کے لیے خوبصورتی کا ایک نیا خیال تخلیق کرنے میں مدد کی۔
ووہرا کہتی ہیں کہ اور ایسی خواتین ہی پبلک لائف میں داخل ہو سکتی تھیں جو خوبصورتی کے اس خیال پر پورا اترتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں آجکی انڈین خواتین کی کامیابی کا انحصار حسن کے مقابلوں پر نہیں۔
’یہی وجہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ انڈیا میں اگلی مس ورلڈ دیگر ایونٹس کی طرح ایک ایونٹ ہوگا۔‘
Getty Imagesسنی شیٹی 2023 کے مقابلہ حسن میں انڈیا کی نمائندگی کریں گیں
تاہم، مقابلے کے شوقین افراد کے لحے، یہ اب بھی ایک ایسی دنیا ہے جس سے وہ گہری محبت کرتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں، نہ کہ ماضی کی کچھ باتوں پر۔
1996 کے مقابلہ حسن کے ججوں میں سے ایک فیشن ڈیزائنر پرساد بیڈاپا کہتے ہیں یہ مقابلے صرف خوبصورتی دکھانے کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ عالمی پلیٹ فارم پر ان کی ذہانت اور کامیابیوں کو بھی ظاہر کرنے کے بارے میں ہیں۔ یہ دنیا کے لیے ان کا پاسپورٹ ہے،۔
ان کے مطابق مقابلہ حسن کی کشش کو ختمکرنا ناممکن ہے کیونکہ آخر میں ہر کوئی بہتر نظر آنا چاہتا ہے اور بڑا خواب دیکھنا چاہتا ہے۔
’کچھ لوگ سائنس میں باصلاحیت ہیں، وہ سائنسدان بن جاتے ہیں. کچھ لوگ خوبصورت ہوتے ہیں، وہ سپر سٹار بن جاتے ہیں۔‘