AFP
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کے روز بھوپال میں بی جے پی کے کارکنوں کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے ’یونیفارم سول کوڈ‘ یعنی یکساں سول قانون لانے کی وکالت کی۔
’یونیفارم سول کوڈ‘ قوانین کا ایک مجموعہ ہے جو شادی، وراثت اور گود لینے جیسے معاملات سے نمٹنے والے مختلف مذاہب کے ذاتی قوانین کا متبادل ہوگا۔
مودی نے سوال کیا کہ ملک دو قوانین پر کیسے چل سکتا ہے۔ وہ مسلم پرسنل لا جیسے قوانین کا حوالہ دے رہے تھے۔ لیکن یہ واضح کر دیں کہ انڈین قوانین میں مسلمانوں کے علاوہ بھی دیگر مذاہب اور قبائل کے رسم و رواج کے تحفظ کے لیے بہت سی خصوصی دفعات موجود ہیں۔
اپنی موجودہ شکل میں انڈیا کا آئین مذہبی اقلیتوں کو ازدواجی، وراثت اور گود لینے کے قوانین سے متعلق ذاتی قوانین ماننے کی اجازت دیتا ہے جس کی شروعات انگریزوں کے دور میں ہوئی تھی۔
مودی کا بیان لا کمیشن آف انڈیا، جو کہ قانونی اصلاحات پر حکومت کو مشورہ دیتا ہے، کے اس حالیہ بیان کے بعد آیا ہے جس میں اس نے ’یونیفارم سول کوڈ‘ یا یو سی سی پر عوام سے تبصرہ طلب کیا تھا۔ حالانکہ 2018 میں اسی مشاورتی کمیشن نے کہا تھا کہ یہ قانون نہ تو فی الحال ضروری ہے اور نہ ہی مطلوبہ۔
مودی کے حالیہ اعلان کے بعد انڈیا میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس قانون کے حامیوں نے اس کا خیر مقدم کیا لیکن ناقدین اسے ایک سیاسی فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔
یو سی سی طویل عرصے سے حکمراں بی جے پی کے انتخابی مہم کے وعدوں میں شامل رہا ہے۔
AFPیونیفارم سول کوڈ یا یو سی سی کا کیا مطلب ہے؟
آزادی کے بعد یونیفارم سول کوڈ یا یو سی سی متعارف کرانے کی اکثر بات ہوتی رہی ہے، جس میں ہر مذہب، جنس اور جنسی رجحان سے قطع نظر تمام شہریوں کے لیے ایک واحد پرسنل لا ہو۔ لیکن حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی مسودہ پیش نہیں کیا ہے جس سے تعین ہو سکے کہ اس یو سی سی کی شکل کیا ہوگی۔
اگرچہ کریمنل معاملوں سے متعلق قوانین سارے مذاہب پر یکساں لاگو ہوتے ہیں تاہم عام فہم یہ ہے کہ یو سی سی مختلف مذاہب کے ذاتی قوانین کو ختم کر دے گا اور ہر ایک کے لیے یکساں ضابطہ اخلاق لائے گا۔
انڈیا کا آئین بھی کہتا ہے کہ ریاست کو اپنے شہریوں کو ایسے قوانین فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور سپریم کورٹ بھی متعدد فیصلوں میں اس کی وکالت کر چکی ہے۔
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔
انڈیا میں برادریوں اور روایات کی پیچیدگی اور تنوع کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے یونیفارم سول کوڈ کے بجائے ایک ’مشترکہ‘ یعنی ’کامن سول کوڈ‘ کا مطالبہ کیا ہے، جو ہر مذہب کے ذاتی قوانین کے بہترین ضابطوں کو شامل کر سکے۔
Getty Imagesیو سی سی کا مذہبی اقلیتوں پر کیا اثر ہوگا؟
یو سی سی پر حکومت کی جانب سے کسی بھی طرح کے مسودے کی غیر موجودگی میں یہ واضح نہیں ہے کہ قانون مختلف مذہبی طریقوں کو کیسے ایک ساتھ رکھے گا اور کس مذہب کی روایات کو ترجیح دے گا۔
اس کے علاوہ خود ہندو مذہب کے اندر کئی ایسے رواج اور روایتیں ہیں جو ہر خطے اور فرقے میں مختلف ہیں۔
ہندو قوانین میں 1950 کی دہائی میں ہندو دائیں بازو کی طرف سے کافی مخالفت کے بعد اصلاح کی گئی تھی لیکن ان اصلاحات میں بھی سخت مخالفت کی وجہ سے تمام دفعات کو شامل نہیں کیا جا سکا۔
مثال کے طور پر اس قانون میں ہندو مشترکہ خاندان کی جائیداد میں بیٹیوں کا حصہ نہیں تھا، جس میں 2005 میں ترمیم کی گئی۔
ان قوانین میں اب بھی ایسی دفعات ہیں جن پر اکثر سوالات اٹھتے ہیں، مثال کے طور پر ہندو غیر منقسم خاندان یا ’ہندو ان ڈیوائیڈڈ فیملی‘ کا ضابطہ غیر منقسم ہندو خاندانوں کے ارکان کو ٹیکس میں چھوٹ فراہم کرتا ہے۔
اگر اسلام کی بات کریں تو اس میں شیعہ اور سنی کے ذاتی قوانین میں بھی فرق ہے، مثال کے طور پر وراثت کے معاملے میں۔ اسی طرح انڈیا کا آئین شمال مشرقی ریاستوں جیسے ناگالینڈ، میگھالیہ اور میزورم میں لوگوں کے مقامی رسم و رواج کا بھی تحفظ کرتا ہے جو کہ ہندو، مسیحی یا قبائلی کمیونٹیز کے ہو سکتے ہیں۔
لیکن ہندو دائیں بازو کے مطابق یو سی سی مسلمانوں کے ’رجعت پسند‘ ذاتی قوانین کا متبادل ہوگا۔ وہ تین طلاق کی مثال دیتے ہیں جسے مودی کی حکومت نے 2019 میں مجرمانہ قرار دیا تھا۔ بی جے پی کے انتخابی وعدے کے مطابق ’اس وقت تک صنفی مساوات نہیں ہو سکتی جب تک انڈیا یکساں سول کوڈ کو نہیں اپناتا۔‘
لیکن اسے عمل میں لانا اتنا آسان نہیں ہے۔
اس مسئلے پر قانون کے ماہر پروفیسر فیضان حیدر نے حال ہی میں کہا ہے کہ ’ایک یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنا انڈیا جیسے ملک میں ایک مشکل کام ہے جہاں ہر علاقے کی ثقافت اور روایت الگ ہے۔‘
انھوں نے وضاحت کی کہ ’یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ ہندو کے لیے ایک یکساں قانون ہے۔ قریبی رشتہ داروں کے درمیان شادی شمالی انڈیا میں ممنوع ہے لیکن جنوبی انڈیا میں اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔‘
انھیں وجوہات کی بنا پر وہ ماضی میں بھی یکساں سول کوڈ متعارف کرانے کے بجائے پرسنل لاز میں اصلاحات کی وکالت کرتے رہے ہیں۔
انھوں نے حیدرآباد میں ایک لیکچر کے دوران کہا کہ ابھی تک تو یو سی سی محض ایک سیاسی بیان بازی ہے۔
Getty Imagesبی جے پی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں اسے کس طرح دیکھتی ہیں؟
بی جے پی کے علاوہ دیگر اہم پارٹیوں نے یو سی سی سے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے۔
دلی اور پنجاب میں حکمران جماعت عام آدمی پارٹی نے کہا ہے کہ وہ یو سی سی کو متعارف کرانے پر اصولی طور پر متفق ہیں لیکن اسے تمام مذاہب اور اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد لانا چاہیے۔
کانگریس پارٹی کے ارکان نے کہا ہے کہ اسے لوگوں پر زبردستی مسلط نہیں کیا جانا چاہیے، اور یہ کہ یہ دیگر اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کی بی جے پی کی کوشش ہے۔
کانگریس کے رکن اور سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم نے کہا کہ یو سی سی ایک خواہشمندانہ خیال ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسے ’ایجنڈے چلانے والی اکثریتی حکومت کے ذریعے لوگوں پر زور زبردستی سے مسلط نہیں کیا جا سکتا۔‘
تمل ناڈو میں ڈی ایم کے پارٹی نے کہا کہ سب سے پہلے ہندو مذہب میں یکساں سول کوڈ متعارف کرایا جانا چاہیے۔ ڈی ایم کے لیڈر ٹی کے ایس ایلانگوون نے کہا کہ پسماندہ اور قبائلی سمیت ہر فرد کو ’ملک کے کسی بھی مندر میں پوجا کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہم یو سی سی اس لیے نہیں چاہتے کیونکہ آئین نے ہر مذہب کو تحفظ دیا ہے۔‘
وہ دلتوں اور قبائلیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا حوالہ دے رہے تھے جنھیں بعض اوقات کئی مندروں میں جانے یا کچھ مذہبی رسومات میں حصہ لینے سے روک دیا جاتا ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ یو سی سی انڈیا کے تنوع کے لیے ایک چیلنج ہے۔ انھوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’کیا آپ یو سی سی کے نام پر ملک کی تکثیریت اور تنوع کو ختم کر دیں گے؟‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جب وہ یو سی سی کی بات کرتے ہیں، تو وہ ہندو سول کوڈ (لانے) کی بات کر رہے ہیں۔ میں انھیں چیلنج کرتا ہوں کہ کیا وہ ہندو غیر منقسم خاندان کو ٹیکس میں دی گئی مراعت ختم کر سکتے ہیں؟‘