نو مئی کے واقعات: خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی قائدین اور کارکن سیاسی وفاداریاں کیوں نہیں بدل رہے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 28, 2023

Getty Images

پاکستان تحریک انصاف بظاہر اس وقت اپنے مشکل ترین وقت سے گزر رہی ہے اور نو مئی کے پر تشدد واقعات کے بعد قائدین کی ایک بڑی تعداد پارٹی سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔

لیکن ایسا بھی نہیں کہ سب یہی کر رہے ہیں۔ ابھی بھی پی ٹی آئی کے قائدین اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے، جو سخت حالات کا مقابلہ کر رہی ہے۔

صوبہ پنجاب اور سندھ سے اہم نامپارٹی چھوڑ چکے ہیں لیکن صوبہ خیبر پختونخوا کو ایک مختلف تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

خیبر پختونخوا سے ابھی تک سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اپنے عہدے سے استعفی دیا ہے جبکہ مالاکنڈ ڈویژن سے سابق ایم این اے حیدر علی نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔

باقی کوئی ایسا بڑا نام نہیں، جس نے پارٹی کو الوداع کہا ہو تاہم سابق ایم این اے علی محمد خان کی طرح، اس وقتقید و بند کا سامنا کرنے والے دیگر رہنما ضرور موجود ہیں۔

نو مئی کے بعد خیبر پختونخوا میں کارروائیاں

پاکستان تحریک انصاف کے سابق ایم این اے علی محمد خان کو منگل کے روز ساتویں مرتبہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ان کے وکیل ندیم شاہ ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ کو بتایا گیا ہے کہ علی محمد خان کے خلاف کوئی کیس نہیں لیکن منگل کے روز جب عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست منظور کی تو اینٹی کرپشن کی ٹیم نے انھیں مردان جیل کے باہر سے گرفتار کر لیا۔

خیبرپختونخوا سے سابق ایم این اے شہریار آفریدی گرفتار ہیں اور ان کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ انھیں جیل میں انتہائی مشکل حالات میں رکھا گیا ہے۔

سابق وفاقی وزیر مراد سعید کے بھائی کو چند روز پہلے گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح صوابی سے تعلق رکھنے والے محمد علی ترکئی کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی۔

عاطف خان کی اسلام آباد میں فیکٹری بند کر دی گئی تھی لیکن بعد میں کھول دی گئی۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر امجد اور دیگر متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

Getty Images

خیبرپختونخوا سے پاکستان تحریک انصاف کے وہ قائدین جو اس وقت منظر عام سے غائب ہیں، ان سے رابطہ ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف ہر قسم کا دباؤ بڑھایا جا رہا ہے لیکن اگر وہ پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں تو ان پر عوامی دباؤ بڑھ سکتا ہے اور پھر شاید وہ سیاسی طور پر انتخابات میں مقابلے کے قابل بھی نہ رہیں۔

اس بارے میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں عاطف خان، شوکت یوسفزئی اور دیگر سے بات چیت ہوئی اور ان کا مؤقف تھا کہ وہ پی ٹی آئیاور جماعت کے چیئرمین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

عاطف خان نے بتایا کہ ان کی اطلاع ہے کہ پرویز خٹک نے کچھ اراکین سے رابطے کیے ہیں اور بظاہر انھوں نے سیاسی صورتحال پر بات چیت کی ہے لیکن انھیں یہ معلوم نہیں کہ آیا پرویز خٹک نے ان اراکین کو پی ٹی آئی چھوڑنے کا کہا ہے۔

شوکت یوسفزئی کا بھی یہی کہنا تھا کہ پرویز خٹک کا رابطہ ہوا ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہوئی کہ انھیں پارٹی چھوڑنے کا کہا گیا ہو۔

پی ٹی آئی کے ضلعی رہنما عرفان سلیم کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے گذشتہ دس سال میں جو پروگرام دیا اور اس پر اگر 100 فیصد نہیں تو 50 فیصد کام کیا اور لوگوں نے وہ دیکھا ہے جس وجہ سے لوگ آج بھی سخت حالات کے باوجود جماعت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دس پندرہسال میں جو نظریاتی تعلق قائم ہے، صوبے میں لوگ اس سے جڑے ہوئے ہیں اور اس سے پیچھے ہٹنا ان سب کے لیے بہت مشکل ہے۔

’لوگ انتظار میں ہیں کہ پی ٹی آئی کے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے‘BBCخیبر پختونخوا سے ابھی تک سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اپنے عہدے سے استعفی دیا ہے

پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں سنہ 2013 میں ایک مقبول جماعت بن کر ابھری۔ اس بارے میں پی ٹی آئی رہنما اور سابق وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کہتے ہیں کہ جماعت نے گذشتہ نو دس سال میں لوگوں کے ساتھ ایک رشتہ قائم کیا، جو اب تک قائم ہے۔

تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں جماعت کے چیئرمین کے ساتھ جو لوگوں نے رشتہ قائم کیا، وہ جماعت کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید اب تک جماعت ختم ہو چکی ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں لوگوں کا جو مزاج ہے وہ واپس روایتی سیاست کی طرف نہیں جائیں گے، ان کے جو نظریات ہیں زیادہ آزاد سوچ رکھتے ہیں اور خاص طور پر یہاں نوجوان براہ راست عمران خان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صوبے میں زیادہ ووٹ بینک اس وقت پی ٹی آئی کا ہے اور پی ٹی آئی نے اس صوبے کے لیے ایک روڈ میپ دیا تھا اوراس منشور پر عمل درآمد کے لیے کوششیں کی تھیں، جن میں سے کچھ پر عملدرآمد ہوتا نظر آیا۔

صحافی محمد فہیم کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام سیاسی حوالے سے خالی نعروں پر نہیں آتے بلکہ دانشمندانہ فیصلے کرتے ہیں۔

ان کے مطابق جب عمران خان نے بحیثیت وزیر اعظم صوبے کی طرف توجہ نہیں دی تو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی کو شکستکا سامنا کرنا پڑا۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف صرف پشاور، صوابی اور نوشہرہ میں کہیں ایک یا دونشستیں جیت سکی تھی۔

صحافی محمد فہیمکے مطابق یہاں لوگ اگر کسی کی حمایت کرتے ہیں تو دل و جان سے کرتے ہیں اور اگر مسترد کرنا ہو تو پھر سود سمیت واپس بھی کرتے ہیں۔

دوسری جانب صحافی علی اکبر کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں بیشتر لوگ پاکستان پیپلز پارٹی سے آئے تھے یہاں لوگ اب اس انتظار میں ہیں کہ پی ٹی آئی کے بارے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے اور اگر پی ٹی آئی پر پابندی عائد ہوتی ہے تو یا تو پی ٹی آئی کے اندر سے محمود خان گروپ تمام لوگوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرے گا اور دوسری جانب خیبر پختونخوا میں لوگ پی پی پی کی حمایت کر سکتے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں کون کون سی سیاسی جماعتیں مقبول ہیں؟

صوبہ خیبر پختونخوا کو اگر دیکھا جائے تو جغرافیائی اعتبار سے یہ پانچ اہم علاقوں میں تقسیم ہے اور ہر علاقے میں الگ جماعت کا تسلط قائم رہا ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف کو ان تمام علاقوں میں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔

اگر ہم صوبے کے مرکزی شہر پشاور اور اس کے قریبی شہر نوشہرہ کو دیکھیں تو یہاں ایک دور میں پیپلز پارٹی اور عوامی نینشل پارٹی کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا تھا اور پھر یہاں سے ایم ایم اے نے بھی بہتر کارکردگی دکھائی۔

چارسدہ مردان اور صوابی کے علاقوں میں عوامی نینشل پارٹی اور جمعیت علما اسلام کے درمیان مقابلہ رہا۔ یہاں سے آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی جماعت بھی میدان میں رہی لیکن چند نشستیں ہی حاصل کر پائی۔ یہاں بھی پھر پی ٹی آئی کا غلبہ آ گیا۔

اسی طرح مالاکنڈ ڈویژن میں جماعت اسلامی، پاکستان پیپلز پارٹی اور کسی حد تک مسلم لیگ نواز کے اہم حلقے رہے ہیں اور یہاں سے ان جماعتوں نے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ دیر کے علاقے میں جماعت اسلامی اب بھی مضبوط جماعت سمجھی جاتی ہے لیکن یہاں زیادہ مؤثر جماعت پی ٹی آئی ہی سامنے آئی ہے۔

ہزارہ ڈویژن میں مسلم لیگ نون بڑی جماعت کے طور پر رہی ہے اور یہاں اس جماعت نے متعدد مرتبہ کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن اب یہاں بھی پھی ٹی آئی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔

صوبے کے جنوبی اضلاع میں ڈیرہ اسماعیل خان لکی مروت اور بنوں میں جمعیت علما اسلام مقبول جماعت رہی ہے اور یہاں سے مولانا فضل الرحمان ان کے بھائی اور بیٹے کامیابی سمیٹتے رہے ہیں۔

جمعیت کے قائدین نے بنوں جور کرک سے بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن یہاں بھی پی ٹی آئی نے جمعیت کے رہنماؤں کو شکست دی اور اپنی مقبولیت قائم کی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More