صابرینہ صدیقی کون ہیں جنھیں پی ایم مودی سے امریکہ میں سوال کرنے پر انڈیا میں ہراساں کیا جا رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 27, 2023

Getty Imagesسبرینہ صدیقی اور پی ایم مودی وائٹ ہاؤس میں

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹر صابرینہ صدیقی کو گذشتہ دنوں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی سے سوالات پوچھنے پر آن لائن ہراسگی کا سامنا رہا ہے۔

سنیچر کو وائٹ ہاؤس نے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ صابرینہ نےنریندر وزیراعظم مودی سے ان کی حکومت میں اقلیتوں کے ساتھ مبینہ امتیازی سلوک اور انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ پر سوالات پوچھے تھے۔

وائٹ ہاؤس واشنگٹن میں امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ اور دفتر ہے۔ اسے امریکہ کی طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی سوموار کی پریس کانفرنس میں این بی سی کی رپورٹر کیلی او ڈونل نے صابرینہ صدیقی کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے متعلق ایک سوال پوچھا۔

کیلی او ڈونل نے وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جان کربی سے پوچھا: 'میں مختصراً ایک مختلف سوال پوچھنا چاہتی ہوں۔ وال سٹریٹ جرنل کی ہماری ساتھی صحافی نے صدر بائیڈن اور انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ سوال و جواب کے سیشن میں وزیر اعظم مودی سے ایک سوال پوچھا تھا۔ اس وقت سے انڈیا کے کچھ لوگ انھیں آن لائن ہراساں کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ رہنما بھی ہیں جو مودی حکومت کے حامی ہیں۔ صابرینہ کو اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہیں اور انھوں نے اس سے متعلق سوال کیا۔ ایک ڈیموکریٹک رہنما سے سوالات پوچھنے پر اس طرح کی ہراسانی کا سامنا کرنے پر وائٹ ہاؤس کا کیا ردعمل ہے؟

اس سوال کے جواب میں کربی نے کہا: ’ہمیں ہراساں کیے جانے کا علم ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ ہم صحافیوں کو ہراساں کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ صحافی کہیں سے بھی ہوں یا کسی بھی حالت میں ہوں۔ یہ بالکل ناقابل قبول ہے۔ یہ جمہوریت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔'

Getty Imagesصابرینہ صدیقی سوال پوچھتے ہوئےصابرینہ صدیقی نے کیا پوچھ لیا تھا؟

پچھلے ہفتے جب انڈین پی ایم مودی سرکاری دورے پر جب وائٹ ہاؤس پہنچے تو مشترکہ پریس کانفرنس میں صابرینہ صدیقی نے پی ایم مودی سے انسانی حقوق اور اقلیتوں سے متعلق ایک سوال پوچھ لیا۔

انھوں نے پوچھا: 'انڈیا طویل عرصے سے اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے اور وہ اس پر فخر کرتا ہے، لیکن انسانی حقوق کے بہت سے گروپ ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ کی حکومت نے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے اور اپنے ناقدین کو خاموش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب جبکہ آپ یہاں وائٹ ہاؤس کے مشرقی کمرے میں کھڑے ہیں جہاں بہت سے عالمی رہنماؤں نے جمہوریت کے تحفظ کے لیے وعدے کیے ہیں تو آپ بتائیں کہ آپ اور آپ کی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور برقرار رکھنے اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے کیا اقدامات کرنے کو تیار ہیں؟'

پی ایم مودی نے جواب دیا: 'میں اس سوال سے حیران ہوں۔ جمہوریت ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ انڈیا میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں ہے۔'

ماضی میں بھی مودی حکومت پر ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ ان میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات، مسلمان صحافیوں اور طلبہ کی گرفتاریاں وغیرہ شامل ہیں۔

ایسے میں جب نریندر مودی بطور وزیر اعظم پہلی بار پریس کانفرنس میں سوالوں کے جواب دینے آئے توصابرینہ نے ان سے اس کے متعلق سوال کیا۔

پی ایم مودی نے اپنے جواب میں کہا: ’جمہوریت ہماری رگوں میں ہے۔ ہم جمہوریت جیتے ہیں۔ اور ہمارے آباؤ اجداد نے اسے ایک آئین کی شکل میں الفاظ میں ڈھالا ہے۔ ہماری حکومت جمہوریت کی بنیادی اقدار کی بنیاد پر بنے آئین کی بنیاد پر چلتی ہے۔ انڈیا میں حکومت سے ملنے والے فوائد سب کو ملتے ہیں، جو بھی ان کا حقدار ہے، وہ سب کو ملتا ہے۔ اسی لیے انڈیا کی جمہوری اقدار میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ نہ مذہب کی بنیاد پر، نہ ذات پات کی بنیاد پر، نہ عمر کی بنیاد پر، نہ علاقے کی بنیاد پر۔

سوال پوچھنے کے بعد ٹرولنگ

جب سبرینہ صدیقی نے پی ایم مودی سے سوال کیا تو کچھ دیر بعد سوشل میڈیا پر ان کی ٹرولنگ شروع ہوگئی۔

بی جے پی کے حامی سوشل میڈیا ہینڈلز نے صابرینہ صدیقی کو اینٹی انڈیا اور پاکستانی قرار دیا۔

صابرینہ صدیقی کی مسلم شناخت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

ٹرولرز نے صابرینہ کی جانب سے پوسٹ کی گئی پاکستان کے جھنڈے کی تصاویر کے سکرین شاٹس بھی شیئر کیے اور صابرینہ کو زیر کرنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیے

’اور اب میرا اگلا لطیفہ‘ ۔۔۔۔'وزیر اعظم نریندر مودی ڈکٹیٹر نہیں ہیں'

انڈیا میں انسانی حقوق کی کارکن شہلا رشید کے ٹویٹس پر ہنگامہ

انڈیا میں سوشل میڈیا پر مسلم خواتین کے خلاف نفرت پھیلانے کا نیٹ ورک کیسے کام کرتا ہے؟

جب ٹرولنگ بڑھی تو صابرینہ صدیقی نے ٹوئٹر پر اپنے والد کے ساتھ سنہ 2011 کی ایک تصویر پوسٹ کی۔ اس تصویر میں صابرینہ صدیقی اپنے والد کے ساتھ انڈیا کے میچ کے دوران انڈیا کی جرسی میں نظر آ رہی ہیں۔

صابرینہ نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ 'اب جبکہ کچھ لوگ میرے ذاتی پس منظر سے کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ پوری تصویر فراہم کی جانی چاہیے۔ بعض اوقات شناخت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے جو بظاہر نظر آتی ہے۔'

https://twitter.com/SabrinaSiddiqui/status/1672433703480377346

بہر حال سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی موجود ہیں، جس میں صابرینہ انڈین ٹیم کی جرسی پہنے انڈین کرکٹ ٹیم کو سپورٹ کرتی نظر آرہی ہیں۔

صابرینہ کے اس ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے کانگریس کے کئی رہنماؤں نے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

صابرینہ کی آن لائن ٹرولنگ کو انڈین امریکن مسلم کونسل نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

انڈین امریکن مسلم کونسل نے لکھا: 'ذمہ دار رہنماؤں سے سوال پوچھنے کے معاملے میں صحافی اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ایسے صحافیوں کو ان کے کام کے سلسلے میں کبھی ٹرول نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم صابرینہ اور اس طرح کی دھمکیوں کا سامنا کرنے والے ہر صحافی کے ساتھ کھڑے ہیں۔'

صابرینہ صدیقی کون ہیں؟

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سبرینہ کا تعلق انڈیا کے سرکردہ مصلح سرسید احمد خان کے خاندان سے ہے۔

صابرینہ طویل عرصے سے وائٹ ہاؤس کی رپورٹر ہیں اور وہ بائیڈن انتظامیہ کی خبروں کا کوریج کرتی ہیں۔

صابرینہ ان صحافیوں میں شامل ہیں جو رواں سال یوکرین کے تاریخی دورے پر صدر بائیڈن کے ساتھ گئے تھے۔

2019 میں وال سٹریٹ جنرل میں شامل ہونے سے پہلے انھوں نے دی گارڈین اخبار کے لیے صدارتی انتخابات اور وائٹ ہاؤس کو کور کر چکی ہیں۔

صابرینہ صدیقی نے نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے اور اپنے شوہر اور بچی کے ساتھ واشنگٹن میں قیام پزیر ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More