بی جے پی براک ’حسین‘ اوباما کےانڈین اقلیتوں کےبارے میں بیان سے اتنی ناراض کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Jun 26, 2023

Getty Images

انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان نے انڈیا میں مسلمانوں سے مبینہ ظالمانہ سلوک کے بارے میں سابق امریکی صدر براک اوباما کے بیان پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

براک اوباما نے گزشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا گیا تو انڈیا شکست و ریخت کا شکار ہو سکتا ہے۔

وہ اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ صدر جو بائیڈن کو 'غیر لبرل ڈیموکریٹس' کے ساتھ کس طرح بات چیت کرنی چاہیے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت امریکہ کے سرکاری دورے پر تھے۔

تین روزہ دورے کے موقع پر وائٹ ہاؤس میں رسمی استقبال، ایک شاندار سرکاری عشائیہ اور کئی اہم معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ نریندر مودی نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کیا۔

صدر اوباما کا یہ بیان کانگریس کے خطاب سے قبل سی این این کے کرسٹیان امان پور سے ایک انٹرویو میں دیا گیا تھا، جسے انڈیا میں وسیع پیمانے پر رپورٹ کیا گیا تھا۔

نریندر مودی کا حوالہ دینے سے پہلے امان پور نے نام نہاد "غیر لبرل ڈیموکریٹس" سے "جمہوریت کو لاحق خطرے" کا حوالہ دیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ ایک صدر کو اس طرح کے رہنماؤں کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا چاہئے، یا تو ان سے مخاطب ہوتے وقت میں یا ان کے ساتھ معاملات میں؟

صدر اوباما نے اپنے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ 'پیچیدہ' ہے اور ان اتحادیوں کے ساتھ جو 'مثالی طور پر جمہوری حکومتیں' نہیں چلا تے لیکن جن کے ساتھ کئی وجوہات کی بنا پر تعلقات برقرار رکھنے پڑتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ جب ممکن ہو تو عوامی یا نجی سطح پر پریشان کن رجحانات پر آواز اٹھائیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر صدر بائیڈن مودی سے ملاقات کرتے ہیں تو ہندو اکثریتی بھارت میں مسلم اقلیت کے تحفظ کا ذکرضرور کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں وزیر اعظم مودی سے بات کرتا ہوں، جو میں اچھی طرح جانتا ہوں، تو میری دلیل کا ایک حصہ یہ ہوگا کہ اگر آپ انڈیا میں نسلی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتے ہیں، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ انڈیا کسی وقت الگ ہونا شروع ہوجائے گا۔

براک اوباما کے عہدے پر رہتے ہوئے نریندر مودی کے ساتھ گرم جوشی کے تعلقات تھے

Getty Images

انڈیا کی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اتوار کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ سابق صدر اوباما کے بیان سے حیران ہیں۔

جب نریندر مودی امریکہ میں انتخابی مہم چلا رہے تھے اور انتخابی مہم سے میرا مطلب انڈیا کے بارے میں بات کرنا تھا تو ایک سابق امریکی صدر انڈین مسلمانوں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے لیکن وہاں بھی ہمیں انڈیا میں مذہبی رواداری کے بارے میں تبصرےسننے کو ملتے ہیں۔

محترمہ سیتارمن نے مزید کہا کہ جب براک اوباما اقتدار میں تھے تو امریکہ نے شام اور یمن سمیت مسلم اکثریتی ممالک پر بمباری کی تھی۔

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی پیر کے روز اس بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا نے کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو انڈیا کے سیکولر کردار کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا کے اقلیتوں کے حقوق پر تبصرہ کرنے والوں کو "یہ بھی سوچنا چاہئے کہ انہوں نے کتنے مسلم ممالک پر حملے کیے ہیں"۔

براک اوباما اور امریکہ نے ان بیانات پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

امریکہ میں مودی کا کاروباری رہنماؤں اور بڑے اور بااثر انڈین تارکین وطن کے نمائندوں نے گرمجوشی سے استقبال کیا جن میں سلیکون ویلی کے کئی سی ای او بھی شامل ہیں۔ تاہم ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی قیادت والی ان کی حکومت کے خلاف بھی مظاہرے ہوئے جس پر اقلیتوں کو تشدد اور امتیازی سلوک سے بچانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

اس دورے کے دوران 75 ڈیموکریٹس نے مسٹر بائیڈن کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ نریندر مودی کے سامنے انسانی حقوق کے مسائل اٹھائیں۔ ان میں سے کچھ، بشمول نمائندہ الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے کانگریس میں ان کے خطاب کا بائیکاٹ کیا۔

جو بائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے انڈیا میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت میں کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اتوار کے روز نریندر مودی نے جو بائیڈن کے اس بیان سے اتفاق کیا جس میں انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کو "دنیا میں سب سے اہم" قرار دیا تھا۔

وفاقی وزراء کا یہ تبصرہ بی جے پی کے ایک وزیر اعلی ٰ کے ٹوئٹ کے بعد سامنے آیا ہے۔

آسام کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا شرما نے ٹویٹ کیا کہ ’انڈیا میں بہت سے حسین اوباما ہیں جن کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔‘ وہ ایک صحافی کے طنزیہ ٹوئٹ کا جواب دے رہے تھے جس میں انہوں نے پوچھا تھا کہ کیا براک اوباما کے خلاف انڈیا کے بارے میں اپنے کلمات سے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

سابق صدر اوباما کا پورا نام براک حسین اوباما دوم ہے۔

حزب اختلاف کے کچھ سیاست دانوں نے شرما پر الزام عائد کیا کہ وہ انڈیا کی مسلم آبادی کو "در پردہ دھمکی" دے رہے ہیں۔

سیاسیات کے ماہر آشوتوش ورشنے نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ براک اوباما کے درمیانی نام کا ذکر کرتے ہوئے شرما کی ٹویٹ ان کے تبصرے کو "ایک مسلمان کے ذریعہ" میں تبدیل کرنے کا ایک طریقہ ہے، حالانکہ سابق صدر اسلام پر عمل نہیں کرتے ہیں۔

اس تنازعہ کے بعد شرما نے انڈین ایکسپریس اخبار کو بتایا کہ وہ اپنے ٹوئٹ پر قائم ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More