انکم ٹیکس میں ڈھائی فیصد اضافہ پاکستانی مڈل کلاس کو کیسے متاثر کرے گا؟

بی بی سی اردو  |  Jun 26, 2023

Getty Images

کراچی میں کارپوریٹ شعبے کی ایک کمپنی میں کام کرنے والے خرم سعید کی ماہانہ تنخواہ دولاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ خرم سعید کی کمپنی کی جانب سے انھیں ٹیکس کاٹ کر تنخواہ ادا کی جاتی ہے اور موجودہ مالی سال میں سالانہ بنیادوں پر خرم سوا دو لاکھ سے زائد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

لیکن اب ملک میں یکم جولائی 2023 سے شروع ہونے والے مالی سال میں انھیں اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا جو ان کے مطابق سالانہ بنیاد پر دو لاکھ 35 ہزار کے قریب ہو گا۔

خرم کے مطابق انھیں اگلے مالی سال میں سالانہ آٹھ ہزار سے زائد ٹیکس ادا کرنا ہو گا، جو وہ اس وقت سات اور ساڑھے سات ہزار کے درمیان ادا کر رہے ہیں۔

خرم نے بتایا کہ اگرچہ ہر مہینے ان کی جانب سے حکومت کو ادا کیے جانے والے ٹیکس میں سات سے آٹھ سو کا ہی اضافہ ہو گا اور بظاہر یہ کوئی اتنی بڑی رقم نہیں تاہم موجودہ مہنگائی کے دور میں یہ اضافہ سراسر ناجائز ہے۔

خرم نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تو اضافہ کر دیا گیا ہے تاہم نجی شعبے میں کام کرنے والے ملازمین اس وقت شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ مہنگائی کی وجہ سے ایک تو گھریلو اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے تو دوسری جانب معیشت کی خراب صورتحال کی وجہ سے نجی شعبے نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا اور اب حکومت نے تنخواہ دار طبقے کے ایسے افراد جو دو لاکھ سے زائد کماتے ہیں ان پر اضافی ٹیکس لگا دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں معاشی بحران کی وجہ سے تمام شعبوں میں تنزلی ہے جس کی وجہ سے ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے یا جو ابھی بھی کام کر رہے ہیں ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی ہے تو بہت معمولی سا ہوا ہے۔

واضح رہے پاکستان کی قومی اسمبلی نے نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے، جس میں تنخواہ دار طبقے کے ایسے افراد جو سالانہ چوبیس لاکھ کماتے ہیں ان پر ٹیکس کی شرحمیں ڈھائی فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔

ٹیکس شرح میں یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا ہے تاکہ پاکستان اضافی ریونیو جمع کر پائے جو قرضہ پروگرام کی بحالی کی شرائط میں سے ایک ہے۔

BBCٹیکس شرح میں یہ اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط تحت کیا گیا ہے تاکہ پاکستان اضافی ریونیو جمع کر پائے جو قرضہ پروگرام کی بحالی کی شرائط میں سے ایک ہےفنانس بل 24-2023 میں تخواہ دار طبقے کے کون سے سلیبز ہیں؟

موجودہ مالی سال کا بجٹ جب جون 2022 میں پیش کیا گیا تھا اور اس میں تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس سلیب کو 12 سے کم کر کے سات کر دیا گیا تھا تاہم نئے مالی سال کے لیے منظور کیے جانے والے فنانس بل میں اب ان کی تعداد چھ کر دی گئی ہے۔

پہلے سلیب میں ایسے افراد شامل ہیں جن کی تنخواہ چھ لاکھ روپے سالانہ ہے اور ان پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔

دوسرا سلیب ایسے افراد کا ہے، جن کی سالانہ آمدن چھ لاکھ سے زیادہ مگر 12 لاکھ تک ہے۔ ایسے افراد کو 2.5 فیصد کی شرح سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

تیسرے سلیب سالانہ 12 لاکھ سے 24 لاکھ کی آمدن پر 15000 فکسڈ ٹیکس کے علاوہ 12.5 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا جو 12 لاکھ سے زائد کی آمدن پر لگے گا۔

چوتھا سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ تنخواہ 24 لاکھ سے زیادہ اور 36 لاکھ تک ہے، انھیں سالانہ 165000 فکسڈ اور 24 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 22.5 فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

واضح رہے کہ موجودہ مالی سال میں یہ تںخواہ دار طبقہ 20 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے، جو اب 22.5 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے۔

پانچواں سلیب 36 لاکھ سے 60 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے، جنھیں چار لاکھ 35 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 36 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 27.5 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا ۔ پہلے ٹیکس کی یہ شرح 25 فیصد تھی جو اب 27.5 فیصد کر دی گئی ہے۔

چھٹا سلیب ساٹھ لاکھ سے زائد آمدنی والے تنخواہ دار طبقے پر دس لاکھ 95 ہزار فکسڈ انکم ٹیکس اور 35 فیصد کی شرح سے ساٹھ لاکھ سے زائد آمدن پر ٹیکس ہو گا۔

واضح رہے موجودہ مالی میں ساتویں سلیب میں ایسے افراد شاملہیں، جن کی سالانہ آمدن ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ ہے اور وہ 29 لاکھ 55 ہزار فکسڈ ٹیکس جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ آمدن پر35 فیصد ٹیکس ادا کر رہے ہیں تاہم اب نئے مالی سال کے لیے یہ سلیب موجود نہیں۔

ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ساتویں سلیب اب غیر متعلقہ ہو گئی ہے کیونکہ پہلے ساٹھ لاکھسے ایک کروڑ بیس لاکھ تک تنخواہ پانے والے افراد 32.5 فیصد کے حساب سے ٹیکس دے رہے تھے تاہم اب ساٹھ لاکھ تنخواہ پر ہی 35 فیصد سے ٹیکس کی شرح لاگو ہو گی اس لیے اب اس ٹیکس سلیب کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔

AFPاضافی ٹیکس شرح سے تنخواہ دار طبقہ کتنا اضافی ٹیکس ادا کرے گا؟

نئے مالی سال کے منظور شدہ فنانس بل کے مطابق چوبیس لاکھ سالانہ تنخواہ پانے والوں پر ٹیکس کی شرح میں 2.50 فیصد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔

اس اضافی ٹیکس شرح کو روپوں میں دیکھا جائے تو سوا دو لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے کو ہر مہینے سوا چھ سو روپے کا اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ ڈھائی لاکھ ماہانہ تنخواہ پر ہر مہینے 1250 روپے زیادہ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ تین لاکھ ماہانہ تنخواہ پر 2500 روپے زیادہ ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

سوا تین لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر 3125 روپے اضافی ٹیکس اد کرنا ہوگا۔ چار لاکھ آمدنی پر ہر مہنے اضافی پانچ ہزار ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ پانچ لاکھ آمدنی پر ہر مہینے ساڑھے سات ہزار اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

سوا پانچ لاکھ ماہانہ تنخواہ پر 8125 روپے زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑ ے گا۔ چھ لاکھ کی تنخواہ پانے والے افراد کو دس ہزار روپے اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

سات لاکھ ماہانہ آمدنی پر سارھے بارہ ہزار روپے اضافی ٹیکس دینا ہو گا۔ آٹھ لاکھ ماہانہ آمدنی پر پندرہ ہزار روپے اضافی ٹیکس دینا ہوگا جبکہ دس سے بارہ لاکھ تنخواہ پر ہر مہینے بیس ہزار روپے اضافی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

Getty Imagesحکومت نے تنخواہ دار طبقے کے ایسے افراد جو دو لاکھ سے زائد کماتے ہیں ان پر اضافی ٹیکس لگا دیا ہےٹیکس کی شرح میں اضافے سے کونسا طبقہ زیادہ متاثر ہو گا؟

نئے مالی سال کےلیے اسمبلی سے منظور کیے جانے والے فانس بل میں تنخواد طبقے پر ٹیکس کی جو نئی شرح لاگو کی گئی ہے اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا اس نئی ٹیکس شرح سے درمیانے طبقے کے افراد سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ جو افراد ہر مہینے دو لاکھ سے کم تنخواہ پاتے ہیں ان پر تو ٹیکس کی شرح وہی پرانی ہے تاہم جو دو لاکھ روپے سے زیادہ ہر مہینے کماتے ہیں انھیں اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ دور میں جب روپے کی قدر بہت زیادہ گر چکی ہے اور مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے تو اس دور میں دو لاکھ سے زائد کمانے والے افراد اب مڈل کلاس میں ہی شمار ہوتے ہیں اور یہ کوئی بہت زیادہ آمدن نہیں تاہم اب انھیں زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔

اسی طرح جو زیادہ تنخواہ لے رہا ہے اس کا ٹیکس ریٹ بھی پرانا ہے۔ مثلاً ہر مہینے دس لاکھ روپے یا اس سے زائد تنخواہ لینے والے افراد پہلے بھی 35 فیصد دے رہے تھے اور اب بھی انھیں 35 فیصد ادا کرنا پڑے گا تاہم ماہانہ دو لاکھ سے پانچ سے سات لاکھ کمانے والے افراد کو اب زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا جو مہنگائی کے اس دور میں ان پر اضافی بوجھ ڈالے گا۔

انھوں نے کہا کہ اگر حکومت ٹیکس کی یہ شرح نہ بڑھاتی اور انکم ٹیکس کی چھوٹ کی مد میں جو سالانہ ساڑھے سات سو ارب روپے ہیں ان کو آدھا ہی کر دیتی تو اس سے اضافی آمدنی بھی ہوتی اور مڈل کلاس طبقے پر اضافی ٹیکس کے بوجھ سے بھی بچا جا سکتا تھا۔

ذیشان مرچنٹ نے اس سلسلے میں کہا یقینی طور پر مڈل کلاس تنخواہ طبقہ ہی اس اضافی ٹیکس کا بوجھ سہے گا کیونکہ وہ سب سے آسان ہدف ہوتا ہے کہ اس پر اضافی ٹیکس کا بوجھ ڈال کر ریونیو زیادہ حاصل کر لیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بھی یہی کیا کہ جو طبقہ پہلے سے ٹیکس ادا کر رہا ہے اسی پر زیادہ ٹیکس لگا دیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ یہ حکومت کی ناکامی ہے کہ وہ ٹیکس نہ دینے والے طبقات اور شعبوں کو تو ٹیکس نیٹ میں لانے سے قاصر ہے اور جو ٹیکس دے رہے ہیں، انھیں زیادہ ٹیکس دینے پر مجبور کرے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More