29 گولڈ میڈل مگر نوکری نہیں: ’ایم بی بی ایس کے ٹاپرز کے لیے بھی سفارش کلچر موجود ہے‘

بی بی سی اردو  |  Jun 25, 2023

ڈاکٹر حافظ ولید ملک نے گذشتہ سال کے اواخر میں جب ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی تو انھیں کئی مضامین میں ٹاپ کرنے پر 29 گولڈ میڈل دیے گئے تھے۔ شاید اسی لیے لوگ ان کی اس بات پر حیران ہوئے کہ انھیں اب تک کسی ہسپتال میں ڈاکٹر کی نوکری نہیں مل سکی ہے۔

دراصل انھوں نے گذشتہ دنوں انسٹاگرام پر ایک سوال کے جواب میں لکھا کہ ’میں نے 20 سے زیادہ ہسپتالوں میں اپلائی کیا مگر کہیں نوکری نہ مل سکی۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹر کی 99 فیصد نوکریاں سفارش جبکہ ایک فیصد میرٹ پر ملتی ہیں۔ ’میں غلط ہوسکتا ہوں لیکن میں نے یہی چیز دیکھی ہے۔‘

ان کی یہ بات گذشتہ کئی روز سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے اور ان کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک نوجوان ڈاکٹر ایم بی بی ایس میں ’29 گولڈ میڈل حاصل کرنے کے باوجود بے روزگار ہے۔‘

مگر وہ اس خطاب سے خوش نہیں ہیں اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اس کی وضاحت کی ہے۔

’سفارش کلچر ایک حقیقت ہے، عام طلبہ اور ٹاپرز دونوں کے لیے‘

ڈاکٹر ولید ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے گذشتہ سال کے اواخر میں صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کے امیر الدین میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد جنرل ہسپتال لاہور میں ہاؤس جاب کی جس کی مدت جون کے آغاز تک تھی۔

24 سال کے نوجوان کا کہنا ہے کہ جب ’میری ہاؤس جاب ختم ہوئی تو میں نے نجی ہسپتالوں میں اپلائی کرنا شروع کر دیا۔ ابھی سرکاری ہسپتالوں کی سیٹیں کھلی نہیں تھیں۔‘

پاکستان میں طب کے شعبے میں نوکریوں کی راہ میں حائل ’سفارش کلچر‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ’نجی ہسپتالوں میں سیٹیں دستیاب نہیں ہوتیں، جہاں ہوتی ہیں وہاں پروفیسر کچھ بچوں کی سفارش کر دیتے ہیں۔

’یہ سفارش کلچر ہی ہے اور بدقسمتی سے نوکریاں نہیں ہیں، اس لیے بچے ایسا کرتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ وہ سفارش کلچر کے خلاف ہیں اور ہمیشہ سے میرٹ پر ڈاکٹر بننا چاہتے تھے۔ ’میں سوچتا ہوں کہ اگر میں اپنی سی وی دیتا ہوں تو وہ میرا انٹرویو کریں۔ اگر میرٹ پر انتخاب کرسکتے ہیں تو کریں۔‘

انسٹاگرام پر اپنے پیغام کی وضاحت میں ڈاکٹر ولید نے بتایا کہ ’میں نے انسٹاگرام پر پوسٹ کیا تھا کہ میں نوکری ڈھونڈ رہا ہوں۔۔۔ میں نے اپنی پوسٹ پر بتایا کہ (سفارش) کلچر موجود ہے۔ بعد میں انسٹاگرام پر اس بارے میں پوچھے جانے پر میں نے یہ بتایا، جو اب ہر جگہ زیرِ گردش ہے۔‘

’میرا خیال ہے کہ سفارش کلچر موجود ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔ نوکریاں نہیں ہیں تو عوام اسی طرف جاتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ چیزیں غیر جانبدار ہوں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ملک میں سفارش کلچر ’ایک حقیقت ہے۔ کسی عام طالب علم کے لیے بھی اور کسی ٹاپر طالب علم کے لیے بھی۔ میرا مقصد سوشل میڈیا پر وائرل ہونا نہیں تھا۔۔۔ مجھے یہ چیز پسند نہیں آئی کہ لوگ یہ کہنے لگے کہ اس شخص کو 29 گولڈ میڈل ملے اور یہ بے روزگار ہے۔‘

انھیں آج بھی اس چیز پر فخر ہے کہ انھوں نے ایم بی بی ایس جیسی مشکل تعلیم میں 29 گولڈ میڈل حاصل کیے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے معلوم ہے کہ سفارش کلچر موجود نہیں ہونا چاہیے، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ سرکاری اور نجی اداروں میں چیزیں غیر جانبدار ہونی چاہییں۔ مگر آپ نجی اداروں کو بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ان کی ہی مرضی ہے۔

’ہم صرف سرکاری اداروں پر بات کر سکتے ہیں۔ (مگر) صحت کا نظام ہر جگہ ایسا ہی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More