BBC
مالیاتی ٹائم بم ٹک ٹک کر رہا ہے۔
جب خزانے میں پڑے ڈالر کئی مہینوں سے ساڑھے تین سے چار ارب ڈالر کے درمیان جھول رہے ہوں اور آئی ایم ایف بھی شرائط کی گرم ریت پر دوڑا دوڑا کے ہنپا رہا ہو اور دسمبر تک بیرونی قرض خواہوں کو ساڑھے چارارب ڈالر سود بمع قسط بھی دینے ہوں تو پھر غصہ آنا، اپنے خون کے گھونٹ خود ہی پینا اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کی تازہ ترین صورتِ حال کے بارے میں جاننے پر بضد رپورٹر کو خالی خزانے کے وزیر کی طرف سے جھڑک دینا یا دھکا دینا یا چماٹ جڑنا تو بنتا ہے۔
ایک منسوب قولِ علی ہے کہ ’بے وقت کا مذاق دشمنی کا سبب بن سکتا ہے۔‘ اور وہ بھی ایک ایسے نازک مرحلے پر جب آئی ایم ایف کے موجودہ مالیاتی پروگرام کی زندگی کے محض پانچ دن باقی رہ گئے ہوں۔ ہم سب کا اجتماعی فرض ہے کہ ڈار صاحب سے چبھتے سوالات پوچھنے یا بحث میں الجھنے یا پنجے جھاڑ کے پیچھے پڑنے کے بجائے ان کا دل بڑھانے کی کوشش کریں۔
اگلے پانچ دن ایسے جملے بولنے میں کسی کا کیا جاتا ہے کہ ’ویل ڈن ڈار صاحب ، تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے، قدم بڑھاؤ اسحاق ڈار ہم تمھارے ساتھ ہیں، دیکھو دیکھو کون آیا ڈار آیا ڈار آیا، ڈار تیرے جانثار بے شمار بے شمار وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
یہ وقت گڑے مردے اکھاڑنے کا ہرگز نہیں۔ بعض دل جلے سوشل میڈیا پر بک رہے ہیں کہ اتفاق گروپ کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور شریف خاندان کے سمدھی ہونے کے علاوہ ڈار صاحب نے معیشت بطور مضمون کہاں کہاں سے پڑھا ؟
جیسا کہ ان کے پیشرو مفتاح اسماعیل کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ پرنسٹن یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ اس وقت ایسا سوال ہی اپنی ذات میں چھچھورا ہے اور کسی بھی قومی درد مند کو زیب نہیں دیتا۔
اس طرح کی دل شکنی کی حوصلہ شکنی وقت کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر لوگ باگ خلیجی ممالک سے اگلے چند ماہ میں بیس سے پچیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کھینچنے کے لیے تشکیل دی جانے والی سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کے سربراہ شہباز شریف اور ان کے شریکِ کار جنرل عاصم منیر کے بارے میں پوچھنے لگیں گے کہ اکنامکس کا مضمون ایف اے سے پڑھنا شروع کیا یا بی اے میں رکھا تھا۔
Getty Images
روایت ہے کہ نوے کے عشرے میں ایک کابینہ اجلاس شروع ہونے سے پہلے شرکا کے درمیان ہلکی پھلکی گپ شپ ہونے لگی۔
وزیرِ تجارت ڈاکٹر حفیظ پاشا کے بازو میں بیٹھے ایک اور وفاقی وزیر نے پوچھا ڈاکٹر صاحب آپ تو ماشااللہ اکنامکس میں سٹینفورڈ کے پی ایچ ڈی ہیں نا؟ ڈاکٹر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔ وزیرِ موصوف نے بات آگے بڑھائی۔ ڈاکٹر صاحب مجھ میں اور آپ میں ایک چیز کامن ہے۔ ایف اے میں میرے پاس بھی اکنامکس تھی۔خوشی ہوئی آپ کا سن کے ۔۔۔( دروغ بر گردنِ راوی)۔
ایک اور پوسٹ سوشل میڈیا پر تیر رہی ہے جو غالباً جانے مانے بین الاقوامی ماہرِ معیشت اور سعودی ویژن دو ہزار تیس منصوبے کے ایک صلاح کار عاطف میاں کے کسی پرستار کی ہے۔
اس نے یہ بے وقت سوال اٹھایا ہے کہ عاطف میاں نے گذشتہ ماہ پاکستانی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ایک ٹوئٹر تھریڈ میں جو بن مانگے مشورے دیے تھے اس کا مہذب انداز میں شکریہ ادا کرنے کے بجائے وزارتِ ڈار نے یہ فقرہ کسنا کیوں مناسب سمجھا کہ تھیوری پڑھانے والے ماہرین کیا جانیں کہ عملی معیشت کیسے چلائی جاتی ہے۔
اس فقرے کا پنجابی ترجمہ کچھ یوں ہو گا کہ ’او جا اوئے تینوں کی پتہ ککڑی دیا۔۔‘
اگر ہم نے اپنے بظاہر حکمرانوں، اصل حکمرانوں اور وزراِ باتدبیر کی معاشی اہلیت کو اکیڈمک ترازو میں تولنے کی مشقِ لاحاصل جاری رکھی تو کل کلاں کوئی ایسے سوالات اٹھانے والوں سے پلٹ کے یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ یہ جو ہماری یونیورسٹیوں میں ایک سے ایک چیتا پی ایچ ڈی بیٹھا ہے آج تک سامنے آ کے اسحاق ڈار یا دیگر کی طرح سینے پر ہاتھ مار کے کیوں نہیں کہہ پایا کہ ہٹو تم ایک طرف۔ مجھے دو وزارتِ خزانہ کی کمان میں بتاتا ہوں کہ لالٹین کیسے پکڑی جاتی ہے۔
Getty Images
بینکر شوکت عزیز یا بینکر شوکت ترین کو تو کسی نے نہیں کہا کہ باؤ جی یہ کسی میوچل فنڈ کی مینیجمنٹ نہیں بلکہ قومی معیشت کا جہاز ہے۔ آپ بس تھوک لگا کے نوٹ گنیں یا پھر لیجر بک بیلنس کرنے کا کام کریں۔ ان دونوں شوکتوں نے پاکستان کو کون سا جرمنی بنا دیا۔ وہ بھی آئے گذر گئے۔ یہ بھی گذر جائیں گے۔
اکبر بادشاہ اور ملکہ الزبتھ بنا سکول گئے آدھی آدھی صدی سے زائد حکمرانی کر گئے تو وزیرِ اعظم یا وزیرِ خزانہ پر کیوں بے فضول تنقید کی جا رہی ہے۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے بھی ایک شخص ایسا گذرا جو سب کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا تھا اور پھر تم نے دیکھا کہ کیا ہوا۔
مشکل یہ ہے کہ اس ملک میں فی مربع میل دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ذہین پائے جاتے ہیں۔ ہمیں بس کسی ایک ایسے کی ضرورت ہے جو کامن سنس کا ماہر ہو اور اس ریاست کو بزعمِ خود کی دلدل سے نکال لے۔