لاپتہ ٹائٹن کی تلاش کا عمل تاحال جاری، ریسکیو میں شامل دو ڈرون آبدوزیں سمندر کی تہہ تک پہنچ گئیں

بی بی سی اردو  |  Jun 22, 2023

PA Media

بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں میں غرقاب ہونے والے تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر لے جانے والی لاپتہ آبدوز کی تلاش کا کام ابھی جاری ہے اور آخری اطلاعات آنے تک تلاش کے کام میں شامل دو ڈرون سمندر کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں اور مزید آلات لے کر برطانوی شاہی فوج کا ایک طیارہ بھی وہاں پہنچ رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آبدوز میں موجود افراد آکسیجن کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں تو یہ مدت بڑھ سکتی ہے۔

یاد رہے کہ ایک اندازے کے مطابق لاپتہ آبدوز ٹائٹن میں موجود افراد کے پاس آکسیجن ختم ہونے کا برطانوی وقت 12:18 ہے، جو گزر چکا ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ آبدوز کی تلاش میں شامل ریسکیو ٹیموں کو مزید آوازیں سنائی دی ہیں اور سرچ آپریشن کا دائر وسیع کر دیا گیا ہے۔

کیپٹن جیمی فریڈرک نے بدھ کو کہا تھا کہ تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ نئی آوازیں کس چیز کی ہیں تاہم ٹیموں کی سرچ ایریا پر تلاش جاری ہے۔

انھوں نے بتایا ہے کہ سرچ آپریشن کا دائرہ بڑھا دیا گیا ہے اور اب یہ ریاست کنیٹیکٹ سے دگنا اور چار کلو میٹر گہرا ہے۔ تلاش میں رائل کینیڈین ایئر فورس کے طیارے، بحری جہاز اور ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز (آر او ویز) حصہ لے رہے ہیں۔

کیپٹن فریڈرک نے کہا ہے کہ یہ اب بھی ایک سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن ہی ہے اور ’ہمیں مثبت اور پُرامید رہنا ہوگا۔‘

ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ آج تلاش کے عمل میں مزید دس جہاز اور متعدد ریموٹ آبدوزیں حصہ لے رہی ہیں جبکہ کیمروں سے لیس ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے آلات مسلسل سمندر کی تہہ کی چھان بین کر رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق زیر سمندر جس جگہ ٹائٹن آبدوز گئی ہے وہاں کا ماحول اور حالات زمین کی بیرونی خلا جیسے سخت اور مشکل ہیں۔

کیونکہ ٹائٹینک کا ملبہ سمندر کے جس حصے میں موجود ہے اسے ’مڈنائٹ زون‘ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ درجہ حرارت منجمد کر دینے والا اور وہاں گھپ اندھیرا ہوتا ہے۔

بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں میں لاپتہ ہونے والی آبدوز کی تلاش میں شامل ریسکیو ٹیمیں جہاں تیزی سے گزرتے وقت اور آبدوز میں سوار افراد کے پاس آکسیجن کی کمی کے خطرے سے نبرد آزما ہیں وہیں انھیں ابھی تک آبدوز کا کوئی نشان نہیں ملا۔

یہ آبدوز دراصل ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ قبل بحرِ اوقیانوس میں غرقاب ہونے والے تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر جا رہی تھی اور اس میں پاکستانی نژاد سیاحوں سمیت پانچ افراد موجود ہیں۔

تاہم ریسکیو کرنے والے افراد ایک ایسی آبدوز کو کیسے ڈھونڈ رہے ہیں جو دو روز سے بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں میں موجود ہے اور اس حوالے سے انھیں کس قسم کے چیلنجز درپیش ہیں؟

BBCآکسیجن ختم ہونے کا وقت طے شدہ نہیں

ٹائٹن آبدوز میں آکسیجن کے خاتمے کا وقت مختلف ہو سکتا ہے۔

بحر اوقیانوس کی گہرائیوں میں لاپتہ ہونے والے ٹائٹن آبدوز میں آکسیجن کے خاتمے کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ بائیسں فٹ چوڑی آبدوز میں موجود پانچ افراد آکسیجن کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔

امریکی کوسٹ گارڈ جو بحراوقیاس میں لاپتہ ٹائنٹن آبدوز کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، نے کہا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق آبدوز میں آکسیجن جمعرات کو برطانوی وقت کے مطابق 12:18 بجے ختم ہو سکتی ہے۔

البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائٹن آبدوز میں آکسیجن کے خاتمے کا وقت مختلف ہو سکتا ہے۔

نیو فاؤنڈ لینڈ کے سینٹ جانز کی میموریل یونیورسٹی میں ہائپربارک میڈیسن کے ماہرڈاکٹر کین لیڈیز نے بی بی سی کو بتایا کہ آبدوز میں سوار کچھ افراد توقع سے زیادہ عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آکسیجن کے خاتمے کا انحصار اس بات پر منحصر ہے کہ آبدوز میں موجود افراد کو کتنی ٹھنڈ لگتی ہے اور وہ آکسیجن کو کتنے مؤثر انداز میں محفوظ کرتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ کانپنے سے بہت زیادہ آکسیجن استعمال ہو گی، جبکہ آبدوز میں موجود تمام افراد ایک دوسرے کے قریب رہ کر گرمی کو محفوظ کر کے آکسیجن بچا سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ آکسیجن کے خاتمے کا عمل بتدریج ہو گا۔’یہ لائٹ سوئچ آف کرنے جیسا نہیں بلکہ پہاڑ پر چڑھنے جیسا عمل ہے۔ جیسے جیسے درجہ حرارت ٹھنڈا ہوتا جاتا ہے اور آپ کا میٹابولزم بند ہو جائے گا کہ آپ پہاڑ پر کس تیزی چڑھتے ہیں۔ ‘

ڈاکٹر لیڈیز نے کہا کہ ہم آبدوز کے اندر کی صورتحال سے واقف نہیں لیکن آبدوز میں موجود تمام لوگوں کے حالات ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ ایک پریشان کن گفتگو ہے لیکن کچھ (افراد) دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتے ہیں۔‘

بدھ کے روز امریکی کوسٹ کارڈ کے ریئر ایڈمرل جان موگر نے کہا تھا کہ تلاش اور بچاؤ کے مشن میں کچھ چیزوں کی بالکل معلومات نہیں۔

ریئر ایڈمرل موگر نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ہم نہیں جانتے کہ آبدوز میں موجود ہر شخص میں آکسیجن کی کھپت کی شرح کتنی ہے؟‘

ڈاکٹر لیڈیز کا کہنا ہے کہ آبدوز میں موجود افراد کے لیے آکسیجن کا خاتمہ ہی خطرہ نہیں۔’ ہو سکتا کہ آبدوز اپنی بجلی سے محروم ہو چکی ہے جس کا آبدوز کے اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کنٹرول میں رکھنے میں اہم کردار ہوتا ہے۔‘

جیسے جیسے آکسیجن کی سطح گرتی جائے گی، عملے کی طرف سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تناسب بڑھے گا، جس کے ممکنہ طور پر مہلک نتائج ہوں گے۔

’جیسے جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھتی ہے، پھر انسان پر بے ہوشی طاری ہونے لگتی ہے اور آپ سو جاتے ہیں۔ جب کسی شخص کے خون میں بہت زیادہ گیس داخل ہو جائے تو اسے ہائپو سرمیا کہتے ہیں جس کا اگر علاج نہ کیا جائے تو متاثر شخص مر سکتا ہے۔‘

رائل نیوی کی آبدوز کے سابق کپتان ریان ریمسی نے کہا کہ انھوں نے ٹائنٹن کے اندر کی آن لائن ویڈیوز دیکھی تھیں لیکن وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ختم کرنے کے نظام کو نہیں دیکھ سکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک ان سبکے لیے یہ ( کاربن ڈائی آکسائیڈ ) سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ آبدوز میں موجود افراد کو ہائپوتھرمیا سے بھی خطرہ ہے جس میں جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔

کیپٹن ریمسی کے مطابق اگر ٹائٹن آبدوز سمندر کی سطح پر ہے تو وہاںپانی کا درجہ حرارت تقریباً صفر سینٹی گریڈ ہوگا۔

البتہ ڈاکٹر لیڈیز کا کہنا ہے کہ ہائپوتھرمیا آبدوز کے مسافروں کے لیے مددگار بھی ہو سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس بات کا امکان موجود ہے کہ اگر وہ سردی کی وجہ سے بے ہوش ہو جائیں تو ان کےجسمکا خود کار نظام خودکو بچانے کے لیے متحرک ہو سکتا ہے اور اس طرح وہ زندہ رہ سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا ریسکیو آپریشن میں شریک لوگوں کو اس کا علم ہے۔

لیکن اس کی ایک اور بری شکل بھی ہو سکتی ہے۔ ہائپوتھرمیا، آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی کا مطلب ہے کہ آبدوز میں موجود افراد کی سرچ اور ریسکیو ٹیموں سے رابطے کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔

ڈاکٹر لیڈیز کا کہنا ہے کہ اگر آبدوز میں موجود افراد بے ہوش ہیں تو وہ اپنی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔

اگرچہ سرچ اینڈ ریسکیو میں شریک کوسٹ گارڈ نے آکسیجن کی مقدر کم ہونے کا انتباہ کیا ہے لیکن آبدوز میں موجود عملہ اپنی سپلائی کو تھوڑی دیر کے لیے محفوظ کر سکتا ہے۔

ریمسی کا کہنا ہے کہ آبدوز میں موجود افراد اپنی سانسوں کو سست کر کے آکسیجن کو بچا سکتے ہیں لیکنوہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ آبدوز میں موجود افراد جس تناؤ کا شکار ہوں گے اس کو دیکھتے ہوئے یہ مشکل ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر لیڈیز کا کہنا ہے کہ اگر آبدوز کے عملے کے پاس اب بھی بجلی ہے تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے والے گرینویل کو پھیلا کر اپنی توانائی کو بچا سکتے ہیں۔

آبدوز میں پانی اور خوراک کے حوالے سے کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ آبدوز میں عملے کے پاس کچھ محدود راشن تھا لیکن وہ نہیں بتا سکتے کہ راشن کتنا تھا۔

ان تمام مشکلات کے باوجود ڈاکٹر لیڈیز کا کہنا ہے کہ سرچ اور ریسکیو کو جلد منسوخ نہ کیا جائے کیونکہ آبدوز کے اندر آکسیجن کی سطح کم ہونے کے باوجود وہ زندہ رہ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر لیڈیز کا کہنا ہے کہ اگر اس آبدوز میں کوئی زندہ رہ سکتا ہے تو وہ یہ افراد ہی ہیں۔ ’اس کا انحصار اس پر ہے کہ ان کے پاس بجلی ہے اور وہ چیزوں کو کنٹرول کے قابل ہیں لیکن وہ یقینی طور پر اب بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔‘

تلاش کا محور کون سا مقام ہے؟

ٹائٹن آبدوز میں موجود افراد کا سطح آب پر موجود بحری جہاز پولر پرنس سے رابطہ اتوار کو زیرِ آب سفر شروع کرنے کے ایک گھنٹہ 45 کے بعد منقطع ہو گیا تھا۔

آبدوز میں موجود افراد کے پاس آکسیجن کی اضافی سپلائی جمعرات کو پاکستانی وقت کے مطابق چار بجے ختم ہونی ہے۔

ٹائٹینک کا ملبہ سینٹ جانز نیوفاؤنڈ لینڈ سے 435 میل جنوب میں واقع ہے اور اس وقت اس علاقے میں تقریباً ایک درجن بحری جہاز موجود ہیں یا ریسکو آپریشن میں حصہ لینے کے لیے اس علاقے کی جانب گامزن ہیں۔

امریکہ اور کینیڈا کی ایجنسییاں، بحریہ اورکمرشل کمپنیاں جو سمندر کی گہرائی میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس ریسکیو آپریشن کا حصہ ہیں۔ اس آپریشن کو بوسٹن میساچوسٹس سے چلایا جا رہا ہے اور اس میں فوجی طیاروں اور سونار بوئے کی مدد لی گئی ہے۔

بحری جہاز پولر پرنس کی مدد کے لیے پہلے ہی کیبلز کا جال بچھانے والا بحری جہاز ڈیپ انرجی اور تین دیگر بحری جہاز موقع پر پہنچ گئے ہیں جبکہ مزید بحری جہاز اور سائنسی آلات راستے میں ہیں۔

ان بحری جہازوں میں سے کچھ میں ’ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز‘(آر او ویز) موجود ہیں جنھیں سمندر کی تہہ میں اس آبدوز کو ڈھونڈنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یوں تو خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ فرانسیسی تحقیقاتی بحری جہاز ایل’ایٹالانٹ میں ہی ایسے آر او ویز موجود ہیں جو سمندر کی اس گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جہاں ٹائٹینک کا ملبہ موجود ہے۔ یہ بحری جہاز بدھ کی رات موقع پر پہنچے گا۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے کیپٹن جیمی فریڈرک کا کہنا ہے کہ امریکہ اور کینیڈا سے ریسکیو ٹیمیں اس ’پیچیدہ سرچ آپریشن‘ کے دوران ’دن رات کام میں مصروف ہیں۔‘

پروفیسر ایلیسٹیئر گریگ یونیورسٹی کالج لندن میں آبدوزوں کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مسائل میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ریسکیو کرنے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ انھیں اس آبدوز کو سطح سمندر پر ڈھونڈنا ہے یا سمندر کی تہہ میں کیونکہ اس بات کا ’امکان بہت کم ہے‘ کہ یہ کہیں درمیان میں موجود ہو۔

انھوں نے خبردار کیا کہ دونوں طرح کی تلاش کے دوران اپنی نوعیت کے چیلنج درپیش ہوں گے۔

BBCسطح سمندر پر تلاش کا عمل

امریکی کوسٹ گارڈ (یو ایس سی جی) کا کہنا ہے کہ وہ آبدوز کو 20 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبہ پر تلاش کر رہے ہیں۔

تلاش کے لیے استعمال ہونے والے بحری جہازوں کے ساتھ امریکہ اور کینیڈا کے سی 130 ہرکولیئن ایئر کرافٹ بھی تلاش کا حصہ ہیں اور وہ آبدوز کی فضا سے نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تاہم اگر یہ آبدوز خطرے کی صورت میں بھیجے جانے والے سگلنز نہیں دیتی، تو پروفیسر گریگ کے مطابق ’کیونکہ اس آبدوز کا حجم ایک ٹرانزٹ وین جتنا ہے اور یہ سفید رنگ کی ہے اس لیے فضا سے اس کی نشاندہی کرنا ایک چیلنج ہو گا۔‘

موسم میں تبدیلی اور حدِ نگاہ کم ہونا بھی وہ چیلنجز ہیں جن کا ریسکیو ٹیموں کو سامنا ہے۔

BBCسمندر کی تہہ میں تلاش کی کوشش

ریسکیو کرنے والوں کو تلاش کے لیے تقریباً چار کلومیٹر ( ڈھائی میل) تک کی تلاش کرنی ہو گی کیونکہ ریڈیو اور جی پی ایس سگنلز پانی میں سفر نہیں کر سکتے۔

کینڈین پی 3 آرورہ ایئر کرافٹ علاقے میں سونار سگنلز کی نشاندہی کے ذریعے تلاش کر رہا ہے اور سونار بوئے بھی اس علاقے میں تلاش کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔

سونار بوئے یا سونوبوئے کے ذریعے پانی میں موجود کسی بھی چیز کی نشاندہی کی جاتی ہے اور یہ اکثر دشمن آبدوزوں کو ڈھونڈنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

یہ عام طور پر مشینری اور انجن کے پنکھوں کی آوازوں کو سننے کا کام کرتے ہیں۔ یہ عملے کی جانب سے آبدوز کے اندرونی حصے سے کسی چیز کے ٹکرانے کی آواز بھی ہو سکتی ہے اور کسی جہاز کی باہری سطح سے کسی چیز کے ٹکرانے کی بھی اور پھر اس سے اٹھنے والی آواز سننے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے۔

منگل کی رات امریکی کوسٹ گارڈ کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ کینیڈین طیارے نے زیرِ آب ’آوازیں‘ سنی ہیں۔

امریکی میڈیا نے اس دوران ایک لیکڈ میمو کے حوالے سے رپورٹ کیا جو امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کو بھیجا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ آوازیں ’کسی چیز کے ٹکرانے‘ کی آواز جیسی ہیں اور یہ 30 منٹ کے دوران بار بار آتی رہیں۔

یونیورسٹی آف ساؤتھیمپٹن کے سائمن بوکسال کا کہنا ہے کہ ریسکیو ٹیموں کی ان زیرِ آب آوازوں کے سنائی دینے سے حوصلہ افزائی ہو گی۔

’کسی بھی سمندر میں مختلف قسم کی آوازوں کے مختلف ذرائع ہو سکتے ہیں لیکن اس سے امید ضرور ملتی ہے۔‘

آسٹریلیا میں آبدوز کے سرچ اینڈ ریسکیو کے ماہر فرینک اوون کا کہنا ہے کہ جب آواز کا سگنل پانی کی سطح کے قریب سے موصول ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس آواز کا ذریعہ سطح پر یا اس سے بہت قریب ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سطح سمندر سے 180 میٹر گہرائی کے بعد درجہ حرارت بہت تیزی سے گرتا ہے۔

’اس کی وجہ سے ایک ایسی تہہ بن جاتی ہے جس پر سونار ویوز لگ کر واپس آ جاتا ہے لیکن اگر آپ اس ہی گہرائی میں ہیں تو یہ بہت سیدھا رہتے ہیں۔‘

BBCاگر یہ سمندر کی تہہ میں موجود ہوئی تو ریسکیو کرنے والوں کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟

اگر آبدوز تاحال سطح سمندر پر آنے میں ناکام رہی ہے تو امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماگر کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کو امریکی نیوی اور نجی سیکٹر سے اضافی امداد کی ضرورت ہو گی۔

اوشن گیٹ کے مطابق دی ٹائٹن دنیا میں ان پانچ آبدوزوں میں سے ایک ہے جو ٹائٹینک تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ٹائٹینک کا ملبہ سطح سمندر سے 3800 میٹر گہرائی میں موجود ہے۔

اگر ٹائٹن سمندر کی تہہ میں موجود ہے اور وہ اپنی طاقت کے ذریعے اوپر نہیں آ سکتی تو پروفیسر گریگ کے مطابق ایسے میں ان کے پاس آپشن محدود ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ آبدوز شاید اب درست حالت میں ہو لیکن اگر یہ 200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں موجود ہے تو بہت کم مشینیں ایسی ہیں جو اتنی گہرائی میں جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور غوطہ خور تو بالکل بھی نہیں۔ جو مشینیں بحریہ کی جنگی آبدوزوں کو ریسکیو کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں وہ ٹائٹینک کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتیں۔‘

اگر سمندر کی تہہ پر تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے لیے روبوٹس یا (آر او و) کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ڈیپ انرجی کی جانب سے ایک آر او وی تو متعین کی گئی ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ سمندر کی تہہ تک جا سکتی ہے یا نہیں۔ دوسری مشینیں جن میں آر او وی صلاحیت موجود ہے وہ اس علاقے میں پہنچ رہی ہیں، جن میں فرانسیسی تحقیقاتی جہاز ایل’ایٹالانٹ بھی شامل ہے جس میں ایسی آر او ویز موجود ہیں جو ٹائٹینک تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

امریکی نیوی کے پاس بھی ایک آر او وی ہے جس میں اس گہرائی میں کام کرنے کی صلاحیت ہے اور اس کی مدد سے انھوں نے ایک بحیرہ جنوبی چین میں گذشتہ برس کریش کرنے والے فائٹر جیٹ کو3780میٹر کی گہرائی سے ڈھونڈا تھا۔

اس مرتبہ امریکی ملٹری نے آر او وی کے ذریعے ایئر کرافٹ کے ملبے تک ایک کرین کے ساتھ جوڑنے میں مدد کی تھی جو اسے سطح تک لے آئی تھی۔

سمندر سے چیزیں تلاش کرنے کے ماہر ڈیوڈ میئرنز کا کہنا ہے کہ اگر ایک آر او وی ٹائٹن کی نشاندہی کر لیتی ہے تو پھر اسے سطح تک لانا مسئلہ نہیں ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ ’ورلڈ کلا آر او وی جس کے ساتھ دو آلات جڑے ہوتے ہیں ٹائٹن کو اپنی گرفت میں لا کر یا لفٹ لائن سے منسلک کر کے اسے سطح تک لا سکتے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More