پاکستان کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو ہولی منانے سے روکنے کے متنازع اعلامیے کو یہ کہہ کر واپس لے لیا ہے کہ ’افسوس کے ساتھ‘ اس پیغام کی ’غلط تشریح کی گئی۔‘
ایچ ای سی نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں طلبہ کی جانب سے ہندو برداری کے تہوار ہولی منانے کو ’ملک کی ساکھ‘ اور اسلامی شناخت کے لیے نقصان دہ قرار دیا تھا۔
اس اعلامیے کے بارے میں وزیرِ ماحولیات شیری رحمان نے تبصرہ کیا تھا کہ ایچ ای سی کی جانب سے یہ اعلامیہ سِرے سے جاری ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔
مگر اب نئے اعلامیے میں ای ایچ سی کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ سہیل نے کہا کہ ’ہمارا ادارہ تمام مذاہب کی عزت کرتا ہے اور اسی ضمن میں پہلے جاری ہونے والے اعلامیہ سے یہ اخذ کرنا کہ ہولی کے تہوار پر پابندی عائد ہو چکی ہے، غلط ہے۔‘
ایچ ای سی کا یوٹرن: ہولی سے دور رہنے کی تجویز جو وضاحت کا باعث بنی
بات تب شروع ہوئی جب حال ہی میں اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی میں ہولی کا تہوار منایا گیا۔ اس تہوار میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبہ بھی موجود تھے۔ اس کی ویڈیوز صارفین نے ٹوئٹر اور مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شئیر بھی کیں۔
لیکن پھر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ایک اعلامیہ (ایڈوائزری) جاری ہوا۔ اس میں ادارے کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر شائستہ سہیل کی جانب سے پاکستان بھر کی جامعات کو اس قسم کے تہواروں میں شامل نہ ہونے کی تلقین کی گئی۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ یہ تہوار ’پاکستان کی شناخت اور ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘ یوں اعلیٰ تعلیمی اداروں کو تلقین کی وہ ’ایسی سرگرمیوں سے دور رہیں جو ملکی شناخت اور سماجی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتیں‘ اور یہ بھی کہا گیا کہ طلبہ ایسے عناصر سے باخبر رہیں جو انھیں اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
https://twitter.com/sherryrehman/status/1671627102695596039
اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ایک یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے بڑے پیمانے پر رپورٹ ہونے والے اس واقعے نے خدشات کو جنم دیا اور ملکی شناخت کی غلط عکاسی کی ہے۔‘
اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ تعلیمی اداروں میں مذہبی اور لسانی ترجمانی ایک اچھا پیغام دیتی ہے لیکن اسے ’ایک حد کے اندر رہتے ہوئے ہی روا رکھنا چاہیے۔‘
جب بی بی سی نے ڈاکٹر شائستہ سہیل سے اس کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تو ان کے اسسٹنٹ نے بتایا کہ وہ وزیرِ تعلیم کے ساتھ ایک میٹنگ میں ہیں اور ’کب واپس آئیں گی، پتا نہیں‘ جبکہ ان کے نمبر پر پیغام چھوڑنے کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوسکا۔
ادھر ایچ ای سی کے میڈیا وِنگ کی ترجمان عائشہ اکرام نے بتایا کہ متنازع اعلامیہ ’اب واپس لیا جا رہا ہے۔‘
شائستہ سہیل کے اس اعلامیہ کو تقریباً ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے فرد نے تنقید کا نشانہ بنایا۔
سندھ، جہاں ملک میں سب سے زیادہ ہندو برداری آباد ہے، کے صوبائی وزیرِ تعلیم سردار شاہ نے کہا کہ ’پاکستان کا قانون کسی بھی فرد یا ادارے کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ دوسرے عقائد کے شہریوں کو ان کے مذہبی و ثقافتی تہوار منانے سے روک سکیں۔‘
جبکہ وزیرِ ماحولیات شیری رحمان نے ایک ٹوئٹر صارف کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ اعلامیہ اب واپس لیا جاچکا ہے۔‘
’آئین میں کوئی ممانعت نہیں کہ آپ کس کے ساتھ ہولی منا سکتے ہیں‘
طلبہ نے بھی ایچ ای سی کے اس متنازع اعلامیے کو رد کیا ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی ایک طالبعلم آمنہ قریشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس طرح کے اعلامیے کی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ تعلیمی ادارے مذہبی فرق اور فرقے کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔‘
ایک اور طالب علم شاہ میر خان نے بتایا کہ ’اس اعلامیے کو جاری ہی نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ پاکستان کے آئین اور قانون میں اس بات کی کوئی ممانعت نہیں کہ آپ کس کے ساتھ ہولی منا سکتے ہیں یا نہیں۔‘
سدرہ عالم نے کہا کہ ’اگر آپ کو ایک اعلامیہ جاری کر کے پھر اس کا مطلب سمجھانا پڑ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ جس عہدے پر ہیں، اس کے لائق نہیں۔
’ایسی بات بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔ پہلے ہی پاکستان دیگر غیر ملکی ممالک سے مذہبی رواداری میں بہت پیچھے ہے اور پھر اتنے بڑے ادارے کی طرف سے ایسا اعلامیہ ہماری تنگ نظر کو مزید واضح کرتا ہے۔‘
احسن کمال نامی طالبعلم نے سوال کیا کہ ’ایچ ای سی کے دائرہ کار میں کیا ایسی ایڈوائزری جاری کرنا اور اداروں کو اس کا پابند کرنا شامل بھی ہے؟‘
دوسری جانب، وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی سلمان صوفی نے کہا کہ ’مذہبی رواداری کو فروغ دینا چاہیے نہ کہ اسے روکنے کی ضرورت ہے۔
’ہمیں اس وقت ایکا لانے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ مزید تقسیم پیدا کرنے کی۔‘