’اس نے پانی پھینکا مگر ہمیں (مدد کے لیے) ریسیو نہیں کیا۔ ہم بہت چِلائے، انھیں بہت آوازیں دیں۔ وہ بہت بڑا بحری جہاز تھا۔ اس نے بس پانی پھینکا۔ کیک وغیرہ پھینک کر وہ بس چلا گیا۔‘
جنوبی یونان کے کشتی حادثے میں زندہ بچنے والے 104 تارکین وطن میں سے 12 پاکستانیوں کو ملاکاسا میں قائم کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ یہ تارکین وطن لیبیا سے اٹلی جانے کی خواہش رکھتے تھے مگر ان کی کشتی 14 جون کو یونان کے علاقے پائلوس سے قریب 50 میل دور ڈوب گئی تھی۔
ان 12 میں سے کچھ پاکستانیوں کو کچھ دیر قبل ملاکاسا کیمپ سے رہا کر دیا گیا ہے اور انھیں کچھ کاغذات تھمائے گئے ہیں۔
بی بی سی اردو کو یونان میں پیش آنے والے تارکینِ وطن کی کشتی کے حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی شہری محمد حمزہ تک خصوصی رسائی حاصل ہوئی۔ انھوں نے اس کشتی پر پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔
محمد حمزہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب یہ کشتی مشکلات سے دوچار تھی تو اس وقت ان سمیت کئی تارکین وطن نے سمندر میں قریبی کشتیوں، بحری جہازوں اور کروز شپس سے مدد مانگی تھی مگر کسی نے بھی انھیں بچانے کی کوئی کوشش نہ کی۔
یہ بیان یونان کے کوسٹ گارڈ اور دیگر حکام کے دعوے کی نفی کرتا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ کشتی اٹلی کی جانب روانہ تھی اور اس نے مدد مانگی تھی نہ اسے ڈوبنے کا خطرہ تھا۔
یونان کے حکام پر ایسے الزامات لگے ہیں کہ انھوں نے امدادی کارروائی شروع کرنے میں تاخیر کی اور اس معاملے پر اقوام متحدہ بھی تحقیقات کا مطالبہ کر چکا ہے۔
’ہم نے انھیں بتایا کہ ہمیں پانی نہیں مدد چاہیے‘
حمزہ نے بی بی سی کو بتایا کہ غرق ہونے والی کشتی پر تارکین وطن نے ’ہیلپ، ہیلپ‘ کی آوازیں دیں مگر قریبی کشتیاں اور کروز شپس نے ان کی کشتی میں صرف کھانے کی اشیا اور پانی پھینکا۔‘
جو مدد وہ درحقیقت چاہتے تھے یعنی انھیں ڈوبنے والی کشتی سے ریسکیو کیا جائے، یہ انھیں کئی بار آواز دینے پر بھی فراہم نہ کی گئی۔
حمزہ نے بتایا کہ ’رات کوایک بحری جہاز آیا۔ انھیں سب یہی کہہ رہے تھے کہ ہمیں بس ریسیو کر لو (بچا لو)۔ ہمیں پانی وغیرہ کچھ نہیں چاہیے۔‘
وہ کہتے ہیں اسی جہاز سے ان کی کشتی کی ٹکر ہوئی تھی جسے انھوں نے کئی بار یہ پیغام دیا کہ ’ہمیں ریسیو کر لو۔‘ مگر آگے سے کوئی جواب نہ آیا۔
بی بی سی نے حمزہ سے پوچھا کہ آپ نے کس طرح مدد کی اپیل کی تھی۔ اس پر وہ کہتے ہیں کہ ’سب ہیلپ ہیلپ کر رہے تھے۔ یہ نہیں پتا وہ کون سے ملک کا بحری جہاز تھا۔ انھوں نے پانی پھینکا، کیک پھینکا اور اپنی کشتی لے کر ہم سے آگے چلے گئے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمیں دو کارگو بحری جہازوں نے پانی دیا۔ ایک دن کے وقت اور ایک رات کے وقت آیا۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ دن کے وقت شپ ان کی ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی سے دور تھی۔ بحری جہاز نے انھیں رسیوں کے ذریعے پانی بھی بھیجا، یعنی وہ جانتے تھے کہ یہ لوگ بڑی مشکل میں ہیں۔
حمزہ کا کہنا ہے کہ رات کے وقت ایک بحری جہاز سے ان کی کشتی کی ٹکر ہوئی تھی۔ ’میں پیچھے بیٹھا تھا، وہ بحری جہاز آگے کی طرف تھا۔ اس کے ساتھ آدمی بول رہے تھے۔ اس نے رسی ڈالی۔۔۔ جس طرف میں بیٹھا تھا، اسی طرف کشتی ڈوب گئی۔‘
ان کی یہ بات اہم اس لیے ہے کہ وہ اس حادثے میں زندہ بچنے والوں میں سے ہیں اور یہی وہ افراد ہیں جو اس حادثے کے تمام حقائق واضح کر سکتے ہیں۔
حمزہ نے کہا کہ رات کے وقت آنے والی کشتی سے انھوں نے بارہا مدد کا مطالبہ کیا مگر انھوں نے کچھ نہ سنا۔
’دو، تین دن سے ہماری کشتی ایک ہی جگہ گھوم رہی تھی۔ جہاز کے کپتان کو کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ وہ بولتا تھا میں نے وائر لیس کیا ہے، اٹلی والے آ رہے ہیں، ایسا ہے ویسا ہے۔ ہم وہاں 20، 25 کلومیٹر کے دائرے میں دو، تین دن تک گھومتے رہے۔‘
اس سے قبل بحری جہازوں کی نقل و حرکت کے تجزیے سے بھی یہ معلوم ہوا تھا کہ گنجائش سے زیادہ مسافروں سے بھری کشتی سمندر میں ڈوبنے سے قبل کم از کم سات گھنٹے تک حرکت کرنے کے بجائے ایک ہی جگہ پر کھڑی رہی تھی۔
ٹریکنگ ڈیٹا نے یونان کے سرکاری دعوؤں کو مشکوک کر دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ کشتی کو نیویگیشن میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا اور یہ کہ انھوں نے مدد قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔
تارکین وطن کو لے جانے والی ماہی گیری کی اس کشتی میں کوئی ٹریکر موجود نہیں تھا، اس لیے وہ نقشے پر نہیں دکھائی دیے۔
ان شواہد کے برعکس کوسٹ گارڈ اب بھی اپنے دعوؤں پر قائم ہیں کہ اس دورانیے میں کشتی اٹلی کے راستے پر گامزن رہی تھی اور اسے کسی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔
یونانی حکام کا دعویٰ ہے کہ کشتی میں سوار افراد نے کہا تھا کہ ان کو مدد کی ضرورت نہیں اور کشتی ڈوبنے سے پہلے تک بظاہر کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا جس کی بنیاد پر ان کی مدد کی جاتی۔
’پاکستانیوں کو کشتی کے تہہ خانے میں بھرا ہوا تھا‘
حمزہ کا کہنا ہے کہ ’کشتی میں سب سے اوپر اوپن جگہ پر شامی اور مصری تارکین وطن موجود تھے۔ اوپر والے پورشن میں، مجھے سمیت اور بھی پاکستانی تھے۔‘
ان کے مطابق کشتی کے عملے اور انسانی سمگلروں نے اکثر پاکستانیوں کو نیچے تہہ خانے کی جگہ میں بھرا ہوا تھا۔ ’نیچے تہہ خانے میں بہت سے پاکستانیوں کو رکھا گیا تھا۔ ہم کل 350 پاکستانی تھے جن میں سے ہم صرف 12 پاکستانی زندہ بچے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم سب کو پتا تھا کہ کتنے پاکستانی ہیں۔ سب کو پتا تھا یہ اس ایجنٹ کا ہے، وہ اس ایجنٹ کا ہے۔‘
حمزہ نے کہا کہ ’وہاں خواتین نہیں تھیں مگر 10، 12 سال کے دو بچے ضرور تھے جنھیں کشتی کے اوپری حصے میں رکھا ہوا تھا۔ ایک بچہ ہمارے قریب بیٹھا ہوا تھا۔‘
لیبیا سے اٹلی کی جانب روانگی کا احوال وہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہماری کشتی سمندر میں کھڑی تھی، وہ دو سپیڈ بوٹوں میں 40، 50 لوگ لا کر اس میں ڈالتے تھے۔ ہماری قسمت اچھی تھی کہ ہم اوپر والے حصے میں پیچھے کر کے بیٹھ گئے اور بعد میں انھوں نے ہم سے نہیں پوچھا۔‘
یونان کشتی حادثے میں بچنے والے پاکستانی کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کے اکثر نوجوانوں کو نیچے رکھا گیا تھا جنھیں کشتی چلنے کے بعد باہر نکلنے نہ دیا گیا۔ ادھر آدمی بہت زیادہ بے ہوش بھی ہوئے۔ ہم نے دو، تین دن سمندر کا پانی بھی پیا۔‘
حمزہ نے بتایا کہ کشتی پر ’پینے کا پانی ختم ہوگیا تھا۔ ہم قریب پانچ دن اور چھ راتیں سمندر میں رہے۔ کھانے پینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ جہاز کا کپتان کوئی تھا ہی نہیں۔ پیشاب آتا تو کھڑے ہو کر سمندر میں ہی کر دیتے تھے۔ وہ ہمیں اٹھنے، بولنے بھی نہیں دیتے تھے۔‘
اس دوران سمگلروں نے تارکین وطن کو کئی بار یہ کہہ کر تسلی دی کہ اٹلی سے مدد بس پہنچنے ہی والی ہے۔ ’وہ (عملہ) بول رہا تھا کہ میں نے انھیں اسی جگہ کی لوکیشن بھیجی ہے۔ ابھی سب صحیح ہوجائے گا۔ نظام ایسے ہی چل رہا تھا۔‘
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’آخری دن، رات کو حادثے کے آدھے گھنٹے پہلے انجن بند ہوگیا تھا۔ ہماری کشتی ڈوبی تو وہاں چار سے پانچ بڑے جہاز آگئے۔ وہ کچھ فاصلے پر رہے۔
’میرے ہاتھ میں ڈیڑھ لیٹر کی خالی بوتل آگئی میں اس کے سہارے آگے جا رہا تھا۔ آگے شامی اور مصری تھے، ان کے پاس چھوٹی ٹیوب تھی۔‘
حمزہ کی جان اس وقت بچی جب انھوں نے بھی ’اس ٹیوب کو پکڑ لیا۔ ہم سمندر میں آدھے گھنٹے سے 40 منٹ تک تیرتے رہے۔ پھر انھوں (ریسکیو ٹیم) نے پکڑ کر ہمیں سپیڈ بوٹ میں ڈالا۔‘ اس کے بعد انھیں ایک امدادی کیمپ منتقل کر دیا گیا جہاں سے وہ کچھ دیر قبل رہا ہوئے ہیں۔
یونان میں تارکین وطن کے سب سے پریشان کن حادثات میں سے ایک کے بعد سمندر سے 81 لاشیں نکالی جا چکی ہیں اور انھیں مردہ خانے منتقل کر دیا گیا ہے۔
ڈی این اے ٹیسٹنگ کا عمل جاری ہے اور جب لواحقین کی جانب سے فراہم کردہ ڈی این اے لاشوں سے میچ کر جائے گا تو ممکنہ طور پر یہ لاشیں لواحقین کو منتقل کر دی جائیں گی۔