سپیشل اولمپک گیمز میں چار میڈل جیتنے والے سیف اللہ سولنگی: ’امی نے کہا تھا میں سب کچھ کر سکتا ہوں‘

بی بی سی اردو  |  Jun 21, 2023

’امی ابو نے کہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو سب کچھ کر سکتا ہوں، مجھے کوئی نہیں ہرا سکتا۔ جب مقابلے کے دوران میرا نمبر آیا تو بس ایک ہی سوچ تھی کہ میں نے جیتنا ہے اور ہر حال میں جیتنا ہے۔‘

’میں خود اعتمادی سے آگے بڑھا اور مقابلہ جیت کر باہر آیا تو سب مجھے مبارک باد دے رہے تھے کہ جتنا وزن میں نے اٹھایا، اتنا اٹھانا اب کسی اور کے بس کی بات نہیں۔‘

یہ کہنا ہے جرمنی کے دارالحکومت برلن میں منعقد ہونے والے سپیشل اولمپک گیمز کے پاور لفٹنگ مقابلوں میں دو گولڈ، ایک چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ حاصل کرنے والے پاکستانی کھلاڑی سیف اللہ سولنگی کا۔

سیف اللہ سولنگی نے بیک سکواٹ میں 90 کلو وزن اٹھا کر گولڈ میڈل حاصل کیا، ڈیڈ لفٹ میں 115 کلوگرام وزن اٹھا کر طلائی تمغہ جیتا اور پھر کمبائنڈ کیٹگری میں 245 کلوگرام وزن اٹھا کر چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔

’وکڑی سٹینڈ پر کھڑے ہونے کا اپنا ہی مزہ ہے‘

کراچی کے رہائشی سیف اللہ سولنگی کا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ میں ضلع دادو سے ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ان جذباتی لمحات کا تذکرہ کیا جب ان کو میڈل پہنائے گئے۔

’میڈل پہنتے ہوئے میرے آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ مجھے وہاں پر سب نے گلے لگایا، مبارک باد دی۔ امی، ابو اور میری بہنیں خوش تھیں۔ میں نے یہ مقابلے جیتنے کے لیے بہت محنت کی تھی۔ نہ دن دیکھا، نہ رات دیکھی۔‘

سیف اللہ سولنگی مجموعی طور پر چار میڈل حاصل کرکے بہت خوش ہیں۔ انھوں نے بعد میں اپنے ساتھوں کے ساتھ مل کر فتح کا جشن بھی منایا۔

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پہلی مرتبہ بین الاقوامی مقابلوں میں میڈل جیتے ہیں لیکن اب ان کی نظریں مستقبل میں ہونے والے مقابلوں پر ہیں۔

’اس کے بعد کئی مقابلوں میں میڈل جتینے کی کوشش کروں گا۔ وکڑی سٹینڈ پر کھڑے ہونے کا اپنا ہی مزہ ہے۔‘

سیف اللہ کو کھیلوں سے رغبت ہے۔ سائیکلنگ، تیراکی۔۔۔ غرض انھوں نے بہت سے کھیلوں میں حصہ لیا۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے مزہ پاور لفٹنگ ہی میں آیا کیونکہ یہ طاقت اور تکینک کا کھیل ہے۔ اس میں ہر کھلاڑی اپنی طاقت اور ہنر دکھاتا ہے۔‘

لیکن صرف چند سال قبل ہی پاور لفٹنگ شروع کرنے والے سیف اللہ سولنگی نے اتنی جلدی یہ سب کیسے سیکھا؟

وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے جب پاور لفٹنگ شروع کی اور پاکستان میں مقابلے جیتنا شروع کیے تو ان کے ہنر کو سراہا گیا۔

’میرے کوچ اور استادوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں سپیشل اولپمکس میں بھی میڈل جیت سکتا ہوں۔ یہ بات میرے دل و دماغ میں بیٹھ گئی۔ بس اس کے بعد میں نے دن رات محنت کی۔‘

لیکن ان کی محنت اور لگن کے ساتھ ساتھ گھر والوں اور ساتھیوں کی حوصلہ افزائی نے بھی ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔

سیف اللہ سولنگی کہتے ہیں کہ ’جب مقابلے کے دوران لفٹنگ کے لیے میرا نام پکارا گیا تو اس وقت مجھے لگا کہ میرے کوچ اور میرے ساتھیوں کو مجھ سے بہت امیدیں ہیں۔‘

’مجھے لگا کہ میرے ماں باپ، بہنیں اور خاندان والے میری طرف دیکھ رہے ہیں۔‘ مقابلہ سخت تھا لیکن سیف اللہ کو اپنی صلاحیت اور ٹریننگ پر اعتماد تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے پتا چل گیا تھا کہ کتنا وزن اٹھانا ہے تو فتح مل سکتی ہے۔ مجھے لگا کہ میں یہ کر سکتا ہوں۔‘

’میں خود اعتمادی سے آگے بڑھا اور پھر پورے اعتماد کے ساتھ مقابلہ جیت کر باہر آیا تو سب مجھے مبارک باد دے رہے تھے کہ جتنا وزن میں نے اٹھایا، اتنا اٹھانا اب کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔‘

’اسے سپیشل سکول میں داخل کروائیں‘

سیف اللہ سولنگی کے والد سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کی تربیت اور دیکھ بھال مکمل طور پر ان کی والدہ زاہدہ سفیر نے کی۔

زاہدہ سفیر تین بچوں کی ماں ہیں۔ سیف اللہ کے علاوہ ان کی دو بیٹیاں ہیں اور سیف اللہ سولنگی کا نمبر دوسرا تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ سیف اللہ کے بچپن میں ان کو علم نہیں ہوا کہ وہ سپیشل ہیں۔

’یہ جب بچپن میں بولتا نہیں تھا تو سب کہتے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، سکول جائے گا تو بولنے لگے گا۔‘

لیکن سکول شروع ہوا تو بھی سیف اللہ چپ ہی رہے۔ ’یہ کوئی دوست نہیں بناتا تھا، بس الگ تھلگ سا رہتا تھا۔‘

’اس کے سکول کے اساتذہ اور پرنسپل نے ہمیں کہا کہ سیف اللہ سولنگی عام بچوں کے سکول میں تعلیم حاصل نہیں کر سکے گا، اس کو سپیشل بچوں کے سکول میں داخل کروایا جائے۔ وہ اس کی تعلیم و تربیت کریں گے تو یہ بہتر ہو جائے گا اور بولنا شروع کر دے گا۔‘

پھر زاہدہ سفیر نے سیف اللہ کو نمائش چورنگی کے سکول ایس ار سی ایس میں داخل کروایا۔ یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ زاہدہ بتاتی ہیں کہ ’شروع میں پابندی تھی کہ مجھے سکول ہی میں موجود رہنا ہوگا۔‘

’میں صبح آٹھ بجے جاتی اور دو بجے تک سکول ہی میں رہتی تھی۔ کافی عرصے تک اس طرح چلتا رہا۔‘

’کچھ عرصے کے بعد انھوں نے کہا کہ اب ضرورت نہیں رہی مگر مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ میرے بیٹے کو میری ضرورت ہے جس کے بعد میں نے اس کو تنہا نہیں چھوڑا۔‘

زاہدہ سفیر کا کہنا تھا کہ ’میں نے اس کو گھر سے کبھی باہر نہیں نکلنے دیا۔ اس کو گھر میں مصروف رکھنے کا انتظام کیا۔ اس کو خود پارک لے کر جاتی تھی۔‘

زاہدہ سفیر کہتی ہیں کہ ’میری زندگی کا مقصد سیف اللہ سولنگی کی ایسی تربیت کرنا تھا کہ وہ معاشرے کے لیے کار آمد بنے۔‘

ان کی اس توجہ کے تنائج جلد ہی نظر آنا شروع ہو گئے۔

’وہ کہتا تھا کہ میں جیت کر ہی واپس آؤں گا‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’سیف نے سکول میں بہت کچھ سیکھا۔ سکول والوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی جس کے بعد اس نے کھیلوں میں بہتر سے بہتر کارگردگی دکھانا شروع کی۔‘

زاہدہ کہتی ہیں کہ ’مجھے بھی لگا کہ یہ اس کے لیے بہت اچھا ہے اسی لیے ہم نے اس کو ہر ممکن سہولت فراہم کی۔‘

سیف اللہ کے خاندان نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ’ہم نے سیف اللہ کو سمجھایا کہ تم بہت باصلاحیت ہو۔‘

’جب وہ ملکی سطح پر یا مقامی سطح پر بھی کھیلوں میں کوئی مقابلہ جیت لیتا تو ہم سب خاندان والے اس کو انعام دیتے تھے۔‘

پھر وہ دن آیا جب سیف اللہ کو سپیشل اولپمک مقابلوں کے لیے چنا گیا۔

زادہ بتاتی ہیں کہ سپیشل اولمپک کے لیے اس کا انتخاب ہوا تو ’اس کے والد اس کو روز فون کرکے کہتے کہ تم نے یہ مقابلہ جیتنا ہوگا۔ میں بھی کہتی کہ جب تم جیتو گے تو ہم بہت جشن منائیں گے۔‘

’وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ میں جیت کر ہی واپس آؤں گا، سر دھڑ کی بازی لگا دوں گا۔ اب وہ بہت خوش ہے اور ہمیں بھی لگتا ہے کہ ہماری اور اس کے استادوں کی محنت رنگ لے آئی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More