ٹائٹن: پاکستانی نژاد سیاحوں سمیت لاپتہ آبدوز کی تلاش میں زیر آب ’آوازیں‘ سنائی دینے کے بعد روبوٹس کے استعمال کا فیصلہ

بی بی سی اردو  |  Jun 21, 2023

بحرِ اوقیانوس کی گہرائیوں میں غرقاب ہونے والے تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر لے جانے والی لاپتہ آبدوز کی تلاش کا کام چوتھے روز بھی جاری ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ نے تصدیق کی ہے کہ آبدوز کے سرچ آپریشن میں شامل کینیڈا کے پی تھری طیارے نے ’تلاش کے علاقے میں زیر آب آوازوں کا پتا لگایا ہے۔‘

اس پیشرفت کے بعد سے تلاش کے عمل میں تیزی آئی ہے اور اب زیرِ آب استعمال ہونے والے اور چھ ہزار میٹر تک کی گہرائی تک جانے والے روبوٹس کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ہمیں ایکسپلورز کلب سے معلوم ہوا ہے کہ وہ اب تلاش میں ریموٹلی آپریٹڈ وہیکلز (آر او وی) یا زیرِ آب کام کرنے والے روبوٹس کا استعمال کرنے والے ہیں جو برطانیہ کی میگیلن کمپنی نے فراہم کیے ہیں۔

ایکسپلورورز کلب کے صدر رچرڈ گیریئٹ نے کہا ہے کہ یہ روبوٹس چھ ہزار میٹر کی گہرائی تک جا سکتے ہیں اور یہ اس سے قبل ٹائٹینک کے ملبے تک جا چکے ہیں۔

آبدوز میں موجود دو افراد میں سے ہیمش ہارڈنگ اور پال ہنری نارجیولیٹ اس کلب کے رکن ہیں، جو ایک ایسا بین الاقوامی نیٹ ورک ہے جو سائنسی ایجادات پر کام کرتا ہے۔

یاد رہے کہ ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر لے جانے والی آبدوز اتوار سے لاپتہ ہے اور اس پر سوار پانچ مسافروں میں پاکستانی نژاد کاروباری شخصیت شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان داؤد کے علاوہ برطانوی ارب پتی بزنس مین اور مہم جو ہمیش ہارڈنگ اور اس تفریحی مہم کا انتظام کرنے والی کمپنی اوشین گیٹ کے چیف ایگزیکیٹو سٹاکٹن رش بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب تلاش میں مدد کے لیے مزید امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے اور رائل کینیڈین نیوی شپ ایچ ایم سی ایس گلیس بے جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق دن 12 بجے پہنچے گی۔

اس بحری جہاز میں ایسی ٹیم موجود ہے جو زیرِ آب پیش آنے والے طبی مسائل سے نمٹنے میں مہارت رکھتی ہے اور ایک چھ اشخاص پر مشتمل ’ہائپر بیرک ری کمپریشن‘ چیمبر بھی موجود ہو گا۔ اس چیمبر کو زیرِ آب بھیج کر تلاش میں مدد لی جا سکتی ہے۔

جب ڈائیورز کو آبی دباؤ میں تیزی سے ہونے والے اضافے کا سامنا ہوتا ہے تو نائٹروجن خون اور ٹشوز میں ببلز پیدا کرتی ہے۔

BBC

کینیڈین کوسٹ گارڈ شپ ’دی ٹیری فاکس‘ پہلے ہی موقع پر موجود ہے اور یہاں وہ تلاش اور ریسکیو سے منسلک آلات اور افراد کو لادنے کے لیے تیار ہے۔

اس سے قبل بدھ کی صبح امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ آبدوز کے سرچ آپریشن میں شامل کینیڈا کے طیارے کو ’تلاش کے علاقے میں زیر سمندر سے آوازوں کے سگنلز موصول ہوئے ہیں۔

جبکہ امریکی میڈیا میں ایسی ای میلزسے متعلق آگاہ بھی کیا جا رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آبدوز کی تلاش میں جانے والے کینیڈا کے ریسکیو طیارے نے اس علاقے میں 30 منٹ کے وففے سے متعدد ایسی تیز آوازیں سنیں ہیں جہاں آبدوز لاپتہ ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ ہمیش ہارڈنگ نے سفر کے آغاز سے قبلسوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ انھیں یہ اعلان کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ٹائٹینک کے ملبے تک جانے والے مشن کا حصہ بن رہے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’نیو فاؤنڈ لینڈ میں 40 سال کے بدترین موسم سرما کی وجہ سے اس سال کا یہ پہلا اور آخری مشن ہو گا۔‘

واضح رہے کہ اس آٹھ دن کے سفر کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر کا ٹکٹ خریدا جاتا ہے اور سمندر کی تہہ میں 3800 میٹر تک اتر کر ٹائٹینک کے ملبے کا نظارہ کیا جاتا ہے۔

Getty Imagesسرچ آپریشن کہاں تک پہنچا؟

تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر لے جانے والی لاپتہ آبدوزکی تلاش کے چوتھے روز امریکی کوسٹ گارڈ نے تصدیق کی ہے کہ آبدوز کے سرچ آپریشن میں شامل کینیڈا کے پی تھری طیارے نے ’ تلاش کے علاقے میں زیر آب آوازوں کا پتا لگایا ہے۔‘

امریکہ کے میرین ایئر کرافٹ پی ایٹ کے نظام نے آبدوز کے لاپتہ ہونے کے مقام کے قریب سے آوازیں آنے اور رابطے کی اطلاع دی تھی۔

’پی ایٹ نے ہر آدھے گھنٹے بعد اس علاقے میں زور دار تیز آوازیں سنیں جس کے چار گھنٹے بعد وہاں اضافی سونر ( وہ تکنیک جس سے پانی کی تہہ میں آواز یا فاصلے کو جانچا جاتا ہے) کا استعمال کیا گیا ہے جہاں سے ابھی تک تیز آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔‘

تاہم سرچ اور ریسکیو آپریشن کی قیادت کرنے والے بوسٹن کوسٹ گارڈ نے رپورٹ کی جانے والی ان تیز آوازوں پر رد عمل دینے کی درخواستوں کو مسترد کیا ہے۔

کینیڈا کے محکمہ قومی دفاع نے آبدوز کی تلاش کے حوالے سے بیان میں کہا ہے کہلاپتہ آبدوز کی تلاش کے مشن میں توسیع کر دی گئی ہے اور اس حوالے سےمتعدد کشتیاں اور جہاز بھیجے گئے ہیں۔

ادارے کے مطابق رائل کینیڈین بحریہ کا جہازبھی اس مشن میں حصہ لے رہا ہے جس میں چھ افراد کے موبائل ہائپربارک ریکمپریشن چیمبر سے لیس ہیں۔

اگر آبدوز کی نشاندہی ہو جاتی ہے تو اس میں موجود ری کمپریشن چیمبرز کو ڈی کمپریشن بیماری کے علاج یا روکنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب غوطہ خوروں کو دباؤ میں تیزی سے کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو نائٹروجن سے ان کے جسم کے ٹشوز اور خون میں بلبلے بنتے ہیں۔

کینیڈین کوسٹ گارڈ کا ایک جہاز، ٹیری فاکس پہلے ہی جائے وقوعہ پر موجود ہے اور جلد ہی اس کے ساتھ دو دوسرے این ہاروی اور جان کیبوٹ بھی شامل ہوں گے۔ یہ جہاز ریسکیو آپریشن کے لیے درکار آلات اور اہلکاروں کو لوڈ کرنے کے لیے اسٹینڈ بائی(تیار) ہوں گے۔

’یچ ایم سی ایس گلیس بے‘ کہلائے جانے والے اس جہاز میں طبی ٹیم بھی موجود ہے جو غوطہ خوری سے متعلق ادویات میں مہارت رکھتی ہے۔

ایک رائل کینیڈین ایئر فورس کا طیارہ پہلے ہی علاقے میں سطحی اور ذیلی سطح کی تلاشی کارروائیوں میں مدد فراہم کر رہا ہے۔

نیو فاؤنڈ لینڈ میں ٹائٹینک کے ملبے تک جانے والی آبدوز کی تلاش اور امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے امریکہ کی جانب سے تین سی 17فوجی طیارے بھی تعینات کیے گئے ہیں۔

پینٹاگون کی ڈپٹی پریس سکریٹری سبرینا سنگھ نے بتایا ہے کہ یہ جہاز نیویارککے شہر بفیلو سے کمرشل ریسکیو سے متعلق سامان لے کر سینٹ جانز کے لیے روانہ ہو گئے ہیں جو آج شامتک پہنچ جائیں گے۔

جبکہ امریکی کوسٹ گارڈ کے کمانڈر تقریباً 20 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر آبدوز کی تلاش کے پیچیدہ آپریشن کی قیادت کر رہے ہیں۔ کینیڈا کی بحریہ، فضائیہ اور کوسٹ گارڈ کے ساتھ ساتھ نیو یارک سٹیٹ ایئر گارڈ کی ریسکیو ٹیمیں بھی اس سرچ آپریشن میں مدد کر رہی ہیں۔

ایک فرانسیسی تحقیقی جہاز بھی آبدوز کی تلاش کے آپریشن میں شامل ہو گیا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ٹائٹن آبدوز تقریباً 900 میل (1,450 کلومیٹر) مشرق اور نیو فاؤنڈ لینڈ کے دارالحکومت سینٹ جانز سے 400 میل (643 کلومیٹر) جنوب میں ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے اندازوں کے مطابق ٹائٹن آبدوم میں تقریباً 30 گھنٹے کی آکسیجن باقی ہے۔

خیال ہے کہ ٹائٹن نامی تفریحی آبدوز سے رابطہ منقطع ہوا تو وہ کیپ کوڈ کے ساحل سے اندازاً 900 میل کے فاصلے پر موجود تھی۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق اتوار کے دن سفر کے آغاز کے ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد ہی اس آبدوز سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

پیر کی شب امریکی کوسٹ گارڈز کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس آبدوز پر تین سے چار دن تک استعمال کے لیے آکسیجن کا ذخیرہ موجود ہو سکتا ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے ریئر ایڈمرل جان ماگر نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’ہمارے اندازے کے مطابق (تلاش کے کام کے لیے) اس وقت 70 سے 96 گھنٹے دستیاب ہیں۔‘

تاہم انھوں نے بتایا کہ جس علاقے میں سرچ آپریشن کیا جا رہا ہے وہ کافی دور دراز ہے جس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرچ آپریشن میں تیزی آ رہی ہے کیونکہ اندازہ ہے کہ آبدوز پر سوار افراد کے پاس استعمال کے لیے آکسیجن کا ذخیرہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس مہم میں امریکی اور کینیڈین بحریہ کے علاوہ سمندر کی گہرائی میں کام کرنے والے ادارے بھی شریک ہیں۔

اس تفریحی سفر کی منتظم کمپنی اوشیئن گیٹ کا بھی کہنا ہے کہ آبدوز میں سوار افراد کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ پولر پرنس میں نامی ایک تحقیقاتی مہم کے بحری جہاز نے بھی پیر کی شام سمندر کی سطح پر آبدوز کو تلاش کیا۔ یہ جہاز تفریحی آبی گاڑی کو ٹائٹینک کے غرق ہونے کے مقام تک لے جانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اتوار کو شروع ہونے والی مہم میں مددگار جہاز کے طور پر شامل تھا۔

ٹائٹن کے ساتھ ممکنہ طور پر کیا ہوا ہو گا؟

یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر الیسٹیر کریگ نے بی بی سی کے پلب گھوش کو بتایا کہ وہ اس بارے میں کئی ممکنہ منظرناموں پر کام کر چکے ہیں کہ لاپتہ آبدوز کہاں ہو سکتی ہے۔

ایک تو یہ ہے کہ لاپتہ آبدوزنے ہنگامی صورتحال پیش آنے کے بعد 'اضافی وزن' گرا دیا ہو تاکہ سطح پر آیا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ 'اگر بجلی یا کمیونیکیشن کی خرابی ہوئی ہے تو ممکن ہے کہ ایسا ہوا ہو اور پھر آبدوز اپنے مل جانے کے انتظار میں سطح پر ہی گھوم رہی ہو گی۔'

ایک اور ممکنہ منظر نامے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’ممکن ہے کہ اس آبی گاڑی کے تلے یا نچلے حصے میں خرابی ہوئی ہو جس کے نتیجے میں لیکج ہو سکتی ہے اور یہ کوئی اچھا خیال نہیں ہے۔‘

پروفیسر کریگ کا کہنا ہے کہ 'اگر آبدوز سمندر کی تہہ میں چلی گئی ہے اور اپنے زور پر واپس آنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی ہے تو پھر بہت ہی کم آپشن بچتے ہیں۔'

ان کے مطابق اگر آبدوز کا ڈھانچہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور 200 میٹر سے زیادہ کی گہرائی میں موجود ہے تو بہت کم ہی جہاز ایسے ہیں جو اتنی گہرائی تک جا سکتے ہیں اور یقینی طور پر غوطہ خور تو بالکل نہیں جا سکتے۔

نیوی کی آبدوز ریسکیو کرنے کے لیے بنائی گئی گاڑیاں یقینی طور پر اس گہرائی کے قریب کہیں بھی نہیں اتر سکتیں، جہاں ٹائٹینک کا ملبہ موجود ہے۔

ڈیوڈ پوگ نامی رپورٹر، جن کا تعلق سی بی ایس سے ہے، گذشتہ سال اسی آبدوز پر سفر کر چکے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ممکنہ طور پر اس آبدوز سے رابطہ کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں کیوں کہ پانی کے نیچے ریڈیو یا جی پی ایس کام نہیں کرتا۔‘

’جب کوئی جہاز اس آبدوز کے بالکل اوپر پہنچ جائے تو پھر پیغامات کا تبادلہ ہو سکتا ہے لیکن بظاہر ابھی تک ایسی کوششوں کا کوئی جواب نہیں مل رہا۔‘

انھوں نے بتایا کہ آبدوز سے نکلنے کا کوئی طریقہ نہیں کیوں کہ ’آبدوز میں موجود لوگوں کو صرف باہر سے ہی کوئی نکال سکتا ہے۔‘

شہزادہ داؤد کون ہیں؟

پاکستان کے ایک بڑے کاروباری خاندان کے رکن اور برطانیہ میں ’پرنس ٹرسٹ چیریٹی‘ کے بورڈ ممبر 48 سالہ شہزادہ داؤد اور اُن کے 19 سالہ بیٹے سلیمان بھی اُس لاپتہ آبدوز میں سوار ہیں۔

داؤد فیملی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارے بیٹے شہزادہ داؤد اور اُن کے بیٹے سلیمان نے بحر اوقیانوس میں ٹائیٹینک کی باقیات کو دیکھنے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا۔ فی الحال، اُن کی سب میرین کرافٹ (چھوٹی آبدوز) سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے اور اس کے بارے میں دستیاب معلومات محدود ہیں۔ متعدد سرکاری ایجنسیوں اور گہرے سمندر میں کام کرنے والی کمپنیوں کی قیادت میں ایک مشترکہ کوشش کی جا رہی ہے تاکہ آبدوز سے رابطہ بحال کیا جا سکے اور انھیں بحفاظت واپس لایا جا سکے۔‘

داؤد فیملی نے مزید کہا کہ ’ہم اپنے ساتھیوں اور دوستوں کی طرف سے موصول ہونے والے پیغامات پر بہت مشکور ہیں اور ہر ایک سے درخواست کرنا چاہیں گے کہ اس وقت خاندان کی نجی زندگی کا خیال کرتے ہوئے اُن کی حفاظت کے لیے دعا کریں۔‘

داؤد خاندان کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہوتا ہے لیکن ان کے برطانیہ کے ساتھ بھی گہرے روابط ہیں۔

شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے نائب چیئرمین ہیں۔ یہ کمپنی کھاد، کھانے پینے کی اشیا اور توانائی کے شعبے میں کام کرتی ہے۔ ان کے بیٹے سلیمان یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں۔

خاندان کے ترجمان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سلیمان سائنس فکشن لٹریچر کے بڑے مداح ہیں اور انھیں نئی نئی چیزیں سیکھنے کا شوق ہے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق شہزادہ داؤد پاکستان میں پیدا ہوئے تھے لیکن بعد میں برطانیہ منقتل ہو گئے جہاں انھوں نے یونیورسٹی آف بکنگھم سے شعبہ وکالت میں تعلیم حاصل کی جبکہ انھوں نے گلوبل ٹیکسٹائیل مارکیٹنگ میں فلاڈیلفیا یونیورسٹی سے ایم ایس سی بھی کر رکھی ہے۔

شہزادہ داؤد خلا میں ریسرچ کرنے والے ایک کمپنی ’ایس ای ٹی آئی‘ انسٹیٹیوٹ کے ٹرسٹی بھی ہیں اور اس ادارے کی ویب سائیٹ پر ان سے متعلق کچھ تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

ان تفصیلات کے مطابق شہزادہ داؤد اپنی اہلیہ کرسٹین اور اپنے بچوں سلیمان اور علینا کے ہمراہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انھیں فوٹو گرافی کا شوق ہے اور وہ جانوروں سے محبت کرنے والے شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

شہزادہ داؤد ’داؤد ہرکولیس کارپوریشن‘ کے وائس چیئرمین ہیں۔’داؤد ہرکولیس کارپوریشن‘ داؤد گروپ کا حصہ ہے اور یہ خاندان گذشتہ ایک صدی سے زائد عرصے سے کاروبار کی دنیا میں مصروف عمل ہے۔ شہزادہ داؤد سنہ 1996 میں خاندانی کاروبار میں شامل ہوئے جہاں ان کی مہارت کارپوریٹ گورننس اور پاکستان میں صنعتی شعبے کی تجدید میں ہے۔

داؤد ہرکولیس کارپوریشن صنعتوں کے ایک متنوع سلسلے کا انتظام و انصرم سنبھالتی ہے جہاں شہزادہ داؤدتوانائی، زرعی و غذائی اشیا، خوراک، پیٹرو کیمیکلز اور ٹیکسٹائل جیسے شعبوں کے انضمام اور ترقی و اختراع کے مواقع تلاش کرنے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن لمیٹڈ اور داؤد لارنس پور لمیٹڈ کے بورڈز میں بطور شیئر ہولڈر ڈائریکٹر بھی شامل ہیں۔

ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کی مہم کیا ہے؟

اوشیئن گیٹ کمپنی کی اشتہاری مہم کے مطابق آٹھ دن کا یہ سفر عام زندگی سے نکل کر کچھ غیر معمولی دریافت کرنے کا موقع ہے۔

کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق 2024 میں بھی دو مہمات بھیجنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

اس چھوٹی سی آبدوز میں ایک پائلٹ کے علاوہ تین مہمان مسافر ہوتے ہیں جو ٹکٹ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ کمپنی کے مطابق ایک ماہر بھی آبدوز میں سوار ہوتا ہے۔

اس مہم کا آغاز نیو فاؤنڈ لینڈ میں سینٹ جونز سے ہوتا ہے۔

کمپنی کی وی سائٹ کے مطابق اس کے پاس تین آبدوزیں ہیں جن میں سے صرف ٹائٹن نامی آبدوز، جو لاپتہ ہے، اتنی گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اس آبدوز کا وزن 10432 کلو ہے اور ویب سائٹ کے مطابق یہ 13100 فٹ کی گہرائی تک جا سکتی ہے۔ اس آبدوز میں 96 گھنٹے تک کے لیے لائف سپورٹ موجود ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ ٹائٹینک اپنے وقت کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا جو 1912 میں نیو یارک جاتے ہوئے اپنے پہلے ہی سفر پر ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ اس جہاز پر سوار 2200 مسافروں اور عملے کے اراکین میں سے 1500 سے زیادہ ہلاک ہو گئے تھے۔

اس جہاز کا ملبہ 1985 میں پہلی بار دریافت ہوا تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More