بےنظیر بھٹو: ’پنکی‘ سے پرائم منسٹر تک

بی بی سی اردو  |  Jun 20, 2023

Getty Images

یہ تحریر پہلی مرتبہ دسمبر 2021 میں بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر شائع کی گئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

21 جون 1953 کے خاصے گرم دن کراچی کے ’پنٹوز نرسنگ ہوم‘ میں اُس بچی کی پیدائش پر اہلخانہ سمیت نرسنگ ہوم کے عملے کے اراکین بھی بہت خوش تھے۔

اپنی اس پہلی اولاد کو والد نے ’پنکی‘ اور والدہ نے ’بےبی‘ کے ابتدائی ناموں سے پکارا مگر ادارے کے ریکارڈ میں بچی کا نام بےنظیر بھٹو درج کیا گیا جو اُس بچی کی ایک جواں سال (مرحومہ) پھوپھی کے نام پر رکھا گیا تھا۔

بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو طبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ سنہ 1943 میں اُن کی پہلی شادی شیریں امیر بیگم سے ہوئی اور ستمبر 1951 میں دوسری شادی کرد نژاد ایرانی خاتون نصرت بھٹو سے۔

نصرت بھٹو ایران کے شہر اصفہان سے تعلق رکھتی تھیں اور انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ذوالفقار اور نصرت بھٹّو کے چار بچے تھے جن میں بے نظیر کے علاوہ میر مرتضی، صنم بھٹو اور شاہنواز بھٹو شامل تھے۔

بےنظیر نے ابتدائی تعلیم ’لیڈی جیننگز نرسری‘ اور پھر ’کونونٹ آف جیسز اینڈ میری‘ کراچی سے حاصل کی۔ پھر دو سال کے لیے وہ راولپنڈی پریزنٹیشن کونونٹ میں زیر تعلیم رہیں، جس کے بعد انھیں مری کے ’کونونٹ آف جیسس اینڈ میری‘ بھیجا گیا۔

دسمبر 1968 میں 15 برس کی بےنظیر بھٹو نے امتیازی کارکردگی سے او لیولز کا امتحان پاس کیا تو انھیں اپریل 1969 میں پولیٹیکل سائنس کی انڈر گریجویٹ ڈگری کے لیے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے ریڈ کلف کالج بھیج دیا گیا۔

سنہ 2016 میں امریکہ سے شائع ہونے والی بروُک ایلن کی کتاب ’فیورڈ ڈاٹر‘ کے مطابق ’بےنظیر کی عمر اس یونیورسٹی میں داخلے کے لیے کم تھی مگر بااثر ذوالفقار بھٹونے ’کچھ ڈوریاں ہلا کر‘ بالآخر اُن کا داخلہ یقینی بنایا اور ہارورڈ یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر (اور بعد میں انڈیا کے لیے امریکہ کے سفیر بننے والے) جان کینیتھ گیل بریتھ کو بے نظیر کا سرپرست مقرر کیا گیا۔‘

بےنظیر کو امریکہ میں زندگی خاصی مشکل لگی اور اس کتاب کے مطابق اُن کی یونیورسٹی کی ایک دوست کا کہنا تھا کہ بےنظیر نے ’پہلے سمیسٹر کا زیادہ تر وقت روتے ہوئے گزارا۔‘

لیکن پھر وہ ہارورڈ میں اپنے ہاسٹل ’ایلیٹ ہاؤس‘ کی سوشل سیکریٹری بھی بنیں اور والد کی طرح امور خارجہ میں دلچسپی رکھنے والی بےنظیر اُسی زمانے میں ویتنام کی جنگ میں امریکہ کے شامل ہونے کے خلاف مہم میں بھی سرگرم رہیں۔

سنہ 2008 میں شائع ہونے والی انڈین نژاد برطانوی صحافی شیام بھاٹیہ کی کتاب ’گُڈ بائے پرنسز‘ اور بروک ایلن کے مطابق سنہ 1971 میں اُن کے ہارورڈ کے زمانہ طالب علمی کے دوران ہی جب ذوالفقار بھٹو پاک، انڈیا جنگ کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے نیویارک پہنچے تو انھوں نے بےنظیر کو بھی وہیں بلوا لیا۔

تربیت کے ایسے ہی مواقعوں کے ذریعے ذوالفقار بھٹّو نے بےنظیر کو امورِ خارجہ کے اَسرار و رُموز سمجھائے۔

Getty Imagesبیرونِ ملک پہلی توجہ

سنہ 1972 میں بےنظیر بھٹو ایک بار پھر پاکستان، انڈیا مذاکرات میں والد کے ہمراہ نظر آئیں۔ اس مرتبہ وہ مشہورِ زمانہ شملہ معاہدے کی تقریب میں شرکت کی غرض سے انڈیا پہنچیں جہاں وہ پہلی بار وزیر اعظم اندرا گاندھی سے بھی متعارف ہوئیں۔

یہ ذوالفقار بھٹو کی مسلسل رہنمائی میں جاری اُن کی سیاسی تربیت کا ایسا موڑ تھا جب انھیں ریڈیو اور اخبارات پر مشتمل انڈین میڈیا کی توجہ حاصل ہوئی۔

اتنی کم عمری میں خود پر پریس کی اس توجہ کو خود بےنظیر بھٹو نے اپنے ہی الفاظ میں یوں واضح کیا کہ ’میں نئی نسل کی علامت تھی۔ میں آزاد پاکستان میں پیدا ہوئی۔ اسی لیے میں اُن تمام پیچیدگیوں اور تعصبات سے پاک تھی جو تقسیمِ ہند کے خونی سانحے اور صدمات کے نتیجے میں بھارتیوں اور پاکستانیوں کو جدا کر چکے تھے۔‘

سنہ 1973 میں ہارورڈ سے تعلیم مکمل ہونے پر بےنظیر نے فلسفے، سیاسیات و معاشیات کی تعلیم کے لیے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے لیڈی مارگریٹ ہال کالج کا رُخ کیا جہاں سے وہ سیکنڈ کلاس میں کامیاب ہو سکیں۔ پھر والد کے اصرار پر انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک اور ادارے سینٹ کیتھرینز کالج سے بین الاقوامی قانون و سفارتکاری میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری بھی حاصل کی۔

شیام بھاٹیہ کے مطابق آکسفورڈ میں وہ تیسری دنیا کی ایک روایتی رئیس زادی کے طور پر بھی رہیں مگر کئی دوست بھی بنائے۔ بعض دوستوں کے مطابق وہ ’خوش مزاج لیکن متجسس‘ شخصیت تھیں۔

سنہ 1974 میں بےنظیر کو اس وقت معمّر قذافی، انور السادات، شاہ حسین اور شاہ فیصل جیسے مسلم رہنماؤں سے ملاقات کا موقع اس وقت ملا جب وہ لاہور میں اپنے والد کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس میں شریک ہوئیں۔

ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسے اداروں کی اعلیٰ تعلیم اور کم عمری میں عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں نے بےنظیر بھٹو کی سیاسی تربیت کو مزید نکھار دیا۔

سنہ 1977 میں بےنظیر بھٹّو مباحثے کی انجمن ’آکسفورڈ یونین‘ کی صدر منتخب ہوئیں۔ وہ پہلی ایشیائی خاتون تھیں جو اس عہدے پر فائز ہوئیں۔ اگرچہ ابتدا میں تنظیم کے اراکین آکسفورڈ یونیورسٹی سے ہی آتے تھے مگر اس آزاد ادارے کا یونیورسٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

Getty Images

اس کے علاوہ بےنظیر برطانیہ کی موجودہ حکمراں اور قدامت پسند جماعت کنزرویٹوِ پارٹی کی ایک ذیلی تنظیم کنزرویٹوِ ایسوسی ایشن میں بھی سرگرم رہیں۔

انڈیا اور پاکستان میں (تب بھی) جاری روایتی کشیدگی کے باوجود وہ آکسفورڈ میں اپنے زمانۂ طالبعلمی کے دوران انڈین طلبا سے بھی رابطے، تعلق اور میل جول رکھتی تھیں۔ شیام بھاٹیہ کے مطابق اسی دوران دو پاکستانی ساتھی طلبا کی جانب سے انھیں شادی کی پیشکش بھی کی گئی مگر دونوں بار انھوں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔

جون 1977 میں آکسفورڈ سے تعلیم مکمل ہونے پر وہ اس نیت کے ساتھ وطن واپس پہنچیں کہ اپنے والد اور اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کے دفتر میں قائم ’مشترکہ مفادات کی بین الصوبائی کونسل‘ میں خدمات بھی انجام دیں گی اور پاکستانی دفتر خارجہ میں ملازمت کے لیے مقابلے کے امتحان میں بھی شریک ہوں گی، مگر سیاست اور پاکستان کی فوج۔۔۔ کچھ اور ہی طے کر چکے تھے۔

پانچ جولائی 1977 کو بری فوج کے سربراہ جنرل محمد ضیا الحق نے ذوالفقار بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور سیاسی قائدین، ادیبوں، صحافیوں، دانشوروں سمیت ہر اُس شخص کو گرفتار کیا جانے لگا جس کے بارے میں ذرا سا بھی شبہ تھا کہ وہ فوج یا اس کے اقتدار پر قبضہ کر لینے کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے۔

گرفتار تو ذوالفقار بھٹو کو بھی کیا گیا مگر جب بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج ہوا تو انھیں رہا کر دیا گیا۔

16 ستمبر 1977 کو ذوالفقار بھٹّو دوبارہ گرفتار ہوئے تو انھوں نے بےنظیر کے بھائی میر مرتضیٰ کو ملک سے باہر بھیج دیا مگر نصرت بھٹّو اور بےنظیر دونوں ملک میں ہی رہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے لیے پاکستان اور افغانستان کے (سابق) چیف فوٹو گرافر زاہد حسین 1970 کی دہائی میں بھٹو خاندان کے قریب رہے۔

بی بی سی سے گفتگو میں زاہد حسین نے یاد کیا کہ ’جنرل ضیا نے بھٹّو حکومت کا تختہ الٹا تو نصرت بھٹو بچوں کے ساتھ 70 کلفٹن (کراچی میں بھٹّو خاندان کی رہائش گاہ) آ گئیں۔ وہاں ہمدردی اور حمایت کے اظہار کے لیے ہر وقت وفود آتے رہتے۔ اتنے زیادہ لوگ آتے کہ اکیلی نصرت بھٹو کے لیے ممکن ہی نہیں تھا کہ سب سے مل سکیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ بعض لوگ اُن کی بجائے مرتضیٰ اور بےنظیر بھٹّو سے ہی مل لیں۔

’ایک روز وفد آیا تو نصرت بھٹّو نے مجھے کہا کہ لائبریری سے بےبی کو بلاؤ۔ صرف بھٹّو صاحب بے نظیر کو پنکی کہتے تھے ورنہ بیگم صاحبہ، گھر کے تمام افراد، ملازمین اور ہم بھی بےنظیر بھٹّو کو بےبی ہی کہتے تھے۔‘

’بیگم صاحبہ کے کہنے پر میں لائبریری میں چلا گیا۔ وہ وہاں بیٹھی ہوئی کتاب پڑھ رہی تھیں۔ کیمرا میرے کندھے پر تھا۔ گھر کے اِس اندرونی حصے میں اتنی بےتکلفی سے مجھے آتا دیکھ کر وہ حیران رہ گئیں۔ ظاہر ہے کہ وہاں گھر کے لوگ ہی جا سکتے تھے۔ اوپر سے نیچے تک بڑے غور سے مجھے دیکھا اور (ٹوٹی پھوٹی اُردو میں) پوچھا ’تم مساوات کے فوٹوگرافر ہو؟‘

’میں نے کہا کہ ہاں۔۔۔ تو کہنے لگیں مجھے بھی صحافی بننے کا بہت شوق ہے۔ پھر کہنے لگیں ممی سے کہو کہ میں آ رہی ہوں۔‘

Getty Imagesعملی سیاست کا آغاز

فوجی بغاوت کے بعد ذوالفقار بھٹّو نے نصرت بھٹّو کو پارٹی کا شریک سربراہ نامزد کر دیا تھا جبکہ اکتوبر 1977 میں بےنظیر کو بھی پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا رکن مقرر کیا گیا۔

یہی وہ وقت تھا جب بےنظیر بھٹّو پارٹی کی مستقبل کی رہنما بن کر ابھریں اور پارٹی کا مقبول ترین سیاسی چہرہ بن گئیں۔ وہ اور نصرت بھٹّو جنرل ضیا کے خلاف مظاہرے اور احتجاج منظم کرتی رہیں اور جب موقع ملتا تو جیل میں ذوالفقار بھٹو سے ملاقاتیں بھی کرتیں۔

فوٹو گرافر زاہد حسین بتاتے ہیں کہ ’فروری 1978 میں بےنظیر، بھٹّو صاحب سے کوٹ لکھپت جیل میں مل کر آئیں تو ہمیں (زاہد حسین اور مساوات کے رپورٹر عنایت حسین) بلوایا کہ پاپا (ذوالفقار بھٹو) نے کہا ہے کہ سندھ کا دورہ شروع کرو اور مساوات والوں کو ساتھ لے کر جاؤ ، تو صبح چلنا ہے۔‘

’اُس وقت قائم علی شاہ سندھ میں پارٹی کے صوبائی صدر تھے۔ انھوں نے کہا کہ بی بی اتنی جلدی نہ کریں۔ صبح تک تو لوگوں کو بھی نہیں بتایا جا سکتا، ویسے ہی مارشل لا حکام کارکنوں کو گرفتار کر رہے ہیں، لوگ جمع نہیں ہوں گے تو کیسے اجتماع ہو سکے گا؟‘

زاہد حسین کے مطابق بےنظیر اپنے پروگرام پر مصر رہیں۔ بے نظیر نے کہا کہ ’نہیں، بس جانا ہے۔ ٹھٹّہ گئے تو وہاں ایک گھر میں محض 15 سے 20 خواتین تھیں۔ اُن سے خطاب کر کے دوسرے گھر گئیں تو وہاں بھی 30 یا 35 لوگ تھے۔ تقریر تو کر دی مگر موُڈ بہت خراب تھا۔ کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا۔ ہم نے دونوں اجتماعات کی تصاویر بنائیں مگر بیگم صاحبہ نے مساوات کے دفتر فون کر دیا کہ اس کو زیادہ ڈسپلے نہیں دینا، بچی ہے ابھی۔ کچھ الٹا سیدھا کہہ دیا تو کیا ہو گا۔‘

’ایڈیٹر (خالد علیگ) نے بس ایک تصویر لگائی اور خبر بھی بہت چھوٹی سی شائع ہوئی۔ اگلی صبح جب ہم پہنچے تو بےبی بہت غصے میں تھیں۔ ایک تو گذشتہ روز لوگوں کی کم تعداد اور اب اخبار میں بھی ایک تصویر اور چھوٹی سی خبر۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو قائم علی شاہ بھی کونے میں دُبکے بیٹھے تھے۔ جیسے ہی بےبی نے ہمیں دیکھا تو (انگریزی میں بڑے کاٹ دار طنز کے ساتھ) ہم سے کہا ’کم مائی پرنسز کم۔۔۔ کم سِٹ ڈاؤن (آؤ، آؤ میرے شہزادو ۔۔۔ آؤ بیٹھو)۔‘

’وہیں مساوات کا ایک پرچہ رکھا تھا۔ اُسے اٹھایا، توڑا مروڑا، گولہ سا بنایا اور ہم دونوں کی جانب پھینکا۔ کہنے لگیں ’یہ ہے تم لوگوں کے نزدیک میری حیثیت؟ ایک تصویر لگائی ہے، وہ بھی 15 بچیاں میرے ساتھ کھڑی ہیں۔ میں وہاں بچیوں سے ملنے گئی تھی؟‘

پھر وہ وقت آیا جب فوجی حکومت نے نصرت اور بےنظیر بھٹو کو بھی گرفتار کر لیا اور دونوں مختلف شہروں میں قید یا نظربند رکھی جاتی رہیں۔

ذوالفقار بھٹو پر اُن کے سیاسی مخالف احمد رضا قصوری کے والد محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں مقدمہ چلا۔ لاہور ہائی کورٹ نے انھیں پھانسی کی سزا سُنائی اور سپریم کورٹ نے یہ سزا برقرار رکھی۔ چار اپریل 1979 کو ذوالفقار بھٹّو کو پھانسی دے دی گئی۔

پھانسی سے قبل ذوالفقار بھٹّو نے نصرت بھٹّو اور بےنظیر دونوں کو ملک سے باہر چلے جانے کو کہا مگر دونوں نے انکار کر دیا۔ اس پھانسی کے بعد بےنظیر اور نصرت بھٹّو کو پھر چھ ماہ کے لیے گرفتار کر لیا گیا۔ رہائی ملی تو دونوں کو مزید چھ ماہ کے لیے گھر پر نظر بند کر دیا گیا اور دونوں اپریل 1980 میں رہا ہوئیں۔

اس مشکل ترین عملی سیاست، قید و بند کی مصیبتوں اور مارشل لا کے سخت و کڑے ماحول میں ’اپنوں کے مختلف رویوں اور کرداروں‘ نے بےنظیر بھٹّو کی زبردست سیاسی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت میں وہ تاثر بھی پیدا کر دیا جسے اُن کے حامی مخالفین دونوں اُن کا ’کرشمہ‘ قرار دیتے رہے۔

بالآخر، دونوں ماں بیٹی فروری 1981 میں کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) نامی اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

Getty Imagesمرتضیٰ بھٹو اور نصرت بھٹوپارٹی کی اندرونی کشمکش

اُس وقت کے اخبارات کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ والد کی گرفتاری کے وقت ملک سے باہر چلے جانے والے بےنظیر کے بھائیوں میر مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹّو نے افغانستان میں قیام کے دوران اپنے والد کا تختہ الٹے جانے کا بدلہ لینے کے لیے مبینہ طور پر ’الذوالفقار‘ نامی تنظیم قائم کی جس میں پیپلز پارٹی اور اس کی ذیلی طلبہ تنظیم پی ایس ایف کے ارکان شامل تھے۔

اس تنظیم نے مزاحمت کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا اور دو مارچ 1981 کو پی آئی اے کی پشاور جانے والی پرواز PK-326 کو ہائی جیک کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔

بےنظیر بھٹو نے اس طیارے کے اغوا کی مذمت کی اور الذوالفقار کی سیاست، حکمتِ عملی اور طریقۂ کار پر پارٹی میں ایک واضح تقسیم نمایاں ہوئی یہاں تک کہ بےنظیر اور مرتضیٰ بھٹو آمنے سامنے دکھائی دینے لگے۔

طیارے کے اغوا کے بعد مارچ 1981 میں ایک بار پھر بےنظیر اور نصرت بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا۔ جولائی 1981 میں کینسر کے مرض کا شکار ہو جانے پر نصرت بھٹّو کو تو علاج کی غرض سے بیرونِ ملک جانے کے لیے رہا کر دیا گیا مگر بےنظیر قید رہیں۔

وہ سکھر اور کراچی کی جیل میں اسیر رہیں اور بعض اوقات انھیں ’قیدِ تنہائی‘ میں بھی رکھا گیا۔ قید و بند کی اِن صعوبتوں سے اُن کی صحت شدید متاثر ہوئی۔

دسمبر 1981 میں ان کی رہائش گاہ کو ’سب جیل‘ قرار دے کر انھیں گھر پر ہی نظر بند کر دیا گیا اور تب ایک پرانی دوستی اُن کے کام آئی۔ یہ ہارورڈ میں اُن کے سرپرست جان کینیتھ گیل بریتھ کے صاحبزادے پیٹر گیل بریتھ تھے جو اُس وقت امریکی محکمۂ خارجہ سے بطور سفارتکار منسلک ہو چکے تھے۔

سنہ 1982 میں جب جنرل ضیا نے واشنگٹن کا دورہ کیا تو پیٹر گیل بریتھ نے روڈ آئی لینڈ سے سینیٹر کلے بورن پیل اور بااثر امریکی ماہر قانون و سیاستدان جیمس بکلی جیسے بارسوخ امریکی سیاستدانوں کے ذریعے جنرل ضیا پر بےنظیر بھٹّو کی حمایت کے لیے خاصا دباؤ ڈالا جس کے نتیجے میں جنوری 1984 میں حکومتِ پاکستان انھیں رہا کرنے پر تیار ہو گئی مگر رہائی کے بعد انھیں جنیوا بھجوا دیا گیا۔

جینیوا سے وہ لندن پہنچیں جہاں پہلے اُن کے سر کی ہڈی کی ایک سرجری بھی کی گئی۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران بےنظیر اور نصرت بھٹّو احتجاجی مظاہرے پر پولیس کے لاٹھی چارج کی وجہ سے زخمی ہوئی تھیں اور غالباً یہ سرجری اُسی کا نتیجہ تھی جس کے بعد بے نظیر باربیکن کے علاقے میں کرائے کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہوئیں۔

بروُک ایلن کے مطابق جب وہ اس بار برطانیہ پہنچیں تو اُن پر پے در پے گزرنے والی ذہنی صدمات نے تب تک انھیں ٹراماٹائزڈ (صدمے کی حالت سے دوچار) کر دیا تھا۔ وہ اپنے اطراف اچانک پیدا ہونے والی آوازوں پر اچھل پڑتیں یا پھر اپنے آس پاس موجود افراد سے اس شک میں پریشان رہا کرتیں کہ کوئی اُن کی نگرانی تو نہیں کر رہا۔

اس ذہنی کیفیت پر قابو پانے کے لیے انھوں نے دوستوں سے ملاقاتیں، شاپنگ، ڈنر اور سنیما جانے کا سلسلہ شروع کیا جو واقعی مددگار ثابت ہوا۔

لندن میں اس قیام کے دوران بےنظیر کی رہاشگاہ پارٹی کے جلِاوطن اراکین کے لیے صدر دفتر بن گئی جو سیاسی مخالفین کے خلاف جاری جنرل ضیا حکومت کے ’جبر‘ سے دنیا بھر کو آگاہ رکھتے رہے۔ وہ پیپلز پارٹی میں مرکزی حیثیت بھی اختیار کر گئیں مگر اب بھی انھیں پارٹی کا بلاشرکتِ غیرے سربراہ مان لیے جانے میں دو رکاوٹیں حائل تھیں۔

ایک پارٹی میں ذوالفقار بھٹّو کے ساتھیوں یعنی ’انکلز‘ کے یہ خدشات کے پیپلز پارٹی بھٹّو خاندان کی جاگیر بن جائے گی اور دوسرا خود اُن کے اپنے سگے بھائی، میر مرتضیٰ بھٹّو، جن کا خیال تھا کہ ذوالفقار بھٹو کے اصل سیاسی وارث بےنظیر نہیں بلکہ وہ خود ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما فرحت اللّہ بابر کہتے ہیں کہ بےنظیر بہت ذہین تھیں اور یہ بات ذوالفقار بھٹّو کو بھی معلوم تھی۔ بھٹّو صاحب نے اُن کی تربیت کی تھی اور انھیں ہی اپنا سیاسی جانشین سمجھتے تھے۔ سندھ کے روایتی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی کم عمری میں پڑھنے کے لیے انھیں باہر بھیجا اور ان کا کرشمہ بھانپ لیا تھا۔ بھٹو بیٹے اور بیٹی میں فرق نہیں کرتے تھے اور بےنظیر نے بھی ثابت کیا کہ وہ ہی اس کی اہل تھیں۔

شاہنواز بھٹو کی پُراسرار موت

بےنظیر کو لندن پہنچے ڈیڑھ برس سے بھی کم کا عرصہ گزرا تھا کہ انھیں اپنے 27 سالہ بھائی شاہنواز کی موت کا صدمہ سہنا پڑا۔

27 سالہ شاہنواز بھٹّو جولائی 1985 میں فرانس کے شہر نیس میں واقع اپنے فلیٹ میں انتہائی پراسرار حالات میں مردہ پائے گئے تھے۔

حیرت انگیز طور پر جنرل ضیا کی حکومت نے بےنظیر بھٹو کو شاہنواز بھٹو کی میت پاکستان لا کر دفن کرنے کی اجازت دے دی اور وہ بھائی کی تدفین کے لیے اگست میں پاکستان پہنچیں مگر گڑھی خدا بخش میں اس تدفین کے فوراً ہی بعد انھیں پھر گرفتار کر کے کراچی میں اُن کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔ نومبر 1985 میں رہائی ملنے پر وہ پھر یورپ روانہ ہو گئیں۔

وطن واپسی

30 دسمبر 1985 کو جب جنرل ضیا نے مارشل لا کے خاتمے کا اعلان کیا تو تب ہی بےنظیر بھٹّو نے بھی وطن واپسی کا فیصلہ بھی کیا لیکن پارٹی کے بعض ارکان کا موقف تھا کہ بےنظیر بھٹّو نے اقتدار کو فوقیت دیتے ہوئے ذوالفقار بھٹّو کی سیاسی روش ترک کر کے پاکستان کی طاقتور فوج اور ریاست کے فیصلہ سازوں یعنی اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ خود اُن کے بھائی مرتضیٰ بھٹّو کا موقف بھی یہی رہا۔

بےنظیر بھٹو سیاسی عمل کا حصّہ بننے کے لیے 10 اپریل 1986 کو وطن واپس پہنچیں تو لاہور میں ان کا شاندار اور تاریخی استقبال کیا گیا جس میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔

اس فقیدالمثال استقبال اور شاندار سیاسی کامیابی کے بعد بےنظیر نے ملک بھر کے طوفانی دورے کیے اور زبردست سیاسی حمایت سمیٹی مگر انھیں ایک بار پھر گرفتار کر کے کراچی کی لانڈھی جیل میں قید کر دیا گیا۔

رہائی ملی تو انھوں نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز تو کیا ہی مگر ساتھ ساتھ 18 دسمبر 1987 کو آصف علی زرداری سے شادی کر کے ایک نئی زندگی کا آغاز بھی کر دیا۔ اُن پر لکھی گئی کتابوں کے مطابق یہ ’ارینجڈ میرج‘ تھی اور آصف زرداری نصرت بھٹو کا انتخاب تھے۔

اس دوران پاکستان میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیراعظم منتخب ہوئے مگر 29 مئی 1988 کو جنرل ضیا نے سانحۂ اوجڑی کیمپ کے تناظر میں محمد خان جونیجو کی حکومت کو قومی و صوبائی اسمبلیوں سمیت تحلیل کر دیا۔

اخبارات کے مطابق جنرل ضیا کو یہ اطلاع بھی مل چکی تھی کہ بےنظیر اب ’حاملہ‘ ہیں اور یہی سوچ کر انتخابات نومبر 1988 میں منعقد کروانے کا اعلان کیا گیا کہ اس وقت بےنظیر بھٹّو حمل کے بالکل آخری دنوں میں ہوں گی اور ان انتخابات میں زیادہ متحرک نہیں رہ سکیں گی۔

شیام بھاٹیہ کے مطابق جنرل ضیا نہیں چاہتے تھے کہ بےنظیر انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچیں مگر خود جنرل ضیا 17 اگست 1988 کو بہاولپور کے قریب ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے اور اس حادثے کے بعد پاکستان کی سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ نومبر کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

شملہ معاہدہ: جب بے نظیر بھٹو کو نہ چاہتے ہوئے بھی ’پاکیزہ‘ فلم دیکھنا پڑی

بے نظیر زندہ ہوتیں تو۔۔۔

’محترمہ کی خیریت معلوم نہیں ہو رہی تھی‘

تمام مشکلات کے باوجود کامیابی

21 ستمبر 1988 کو بے نظیر بھٹو کی اولین اولاد اور پارٹی کے موجودہ شریک چیئرمین بلاول بھٹّو زرداری کی ولادت سے پہلے کئی مہینوں کی حاملہ بےنظیر کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی جو بلاول بھٹّو کی ولادت کے بعد بھی جاری رہی۔

عالمی شہرت یافتہ صحافی و مصنّفہ کرسٹینا لیمب کی کتاب ’ویٹنگ فار اللہ‘ کے مطابق اگرچہ بےنظیر نے ایم آر ڈی سے الگ ہو کر پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم چلائی اور معاشی نظریے فری مارکیٹ کے حق میں پیپلز پارٹی کے روایتی (اسلامی سوشلزم) پر مبنی نظریے سے انحراف کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کا نظریہ ’تھیچر اِزم‘ اپنانے کی سعی بھی کی۔

مگر پارٹی کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پیپلز پارٹی کو زبردست کامیابی کی توقع کے تحت 18 ہزار سے زائد انتخابی امیدواروں کی درخواستیں موصول ہوئیں۔

Getty Images

شیام بھاٹیہ کے مطابق جنرل ضیا کے خیالات اور متعارف کردہ اسلامی نظام کے حامیوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف نواز شریف کی قیادت میں بڑا سیاسی اتحاد اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بھی تشکیل دیا۔

شیام بھاٹیہ کے مطابق آئی ایس آئی کے (اُس وقت کے) سربراہ جنرل حمید گُل کی قیادت میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بےنظیر مخالف اس سیاسی اتحاد کو مالی مدد و معاونت بھی فراہم کی۔ مگر ان تمام تر مشکلات و وجوہات کے باوجود بھی بےنظیر بھٹو 16 نومبر 1988 کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہو ہی گئیں۔

دو دسمبر 1988 کو بےنظیر نے پہلی بار پاکستان کی وزیر اعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ بروک ایلن کے مطابق وہ پاکستان کے روشن خیال حلقوں کے لیے اُمید کی کرن تھیں اور یہی بات پاکستان کے ممتاز صحافی و دانشور غازی صلاح الدین بھی کہتے ہیں۔

بی بی سی سے گفتگو میں غازی صلاح الدین نے کہا کہ ’اُس دن پہلی بار یہ اُمید پیدا ہوئی کہ اب پاکستان روشن خیالی، ترقی اور کامیابی کے راستے پر چل نکلے گا۔‘

مذہبی جھکاؤ

غازی صلاح الدین تو بےنظیر کو روشن خیال پاکستان کی علامت کہتے ہیں مگر امریکہ اور برطانیہ سے تعلیم یافتہ بے نظیر بھٹو کو اولیائے کرام کے مزاروں اور درباروں پر باقاعدگی سے حاضریاں دینے پر اُن کے بعض ناقدین ’توہم پرست‘ بھی کہا کرتے تھے۔

فرحت اللّہ بابر کہتے ہیں کہ بے نظیر بھی عام خواتین کی طرح اولیا اللّہ کے مزاروں اور درباروں پر باقاعدگی سے حاضری دیتی تھیں۔ ’یہ دکھاوا یا سیاسی شعبدہ بازی نہیں تھی۔ وہ بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ ان مزاروں اور درباروں پر حاضری دیتی تھیں۔‘

ان کے مطابق بےنظیر نے منّت مانی تھی کہ اگر آصف زرداری رہا ہو جائیں تو وہ اجمیر میں درگاہ پر حاضری دیں گی اور وہ گئیں۔

فرحت اللّہ بابر نے ایک واقعہ بھی سنایا۔ ان کے مطابق ’ایک علمِ الاعداد مصطفیٰ شاہ سے میرا بہت پرانا تعلق تھا۔ جولائی 1990 کے اواخر میں شاہ صاحب نے مجھے بتایا کہ میں یونہی زائچہ نکال رہا تھا تو چھ اگست کے دن صدر غلام اسحاق خان کا ستارہ بہت اونچا دکھائی دے رہا ہے۔ تم بی بی کو بتا دو۔‘

’غالباً 28 یا پھر 29 جولائی کو جب میری محترمہ سے ملاقات ہوئی تو میں نے اُن سے ذکر کر دیا کہ ایک عالم نے ایسی تنبیہ کی ہے تو بی بی نے بڑی حیرت سے پوچھا ریئیلی؟‘

’اور پھر چھ اگست کو غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹّو کی پہلی حکومت برطرف کر دی۔ محترمہ نے جو مجھے فرحت اللّہ بابر کی بجائے ایف بی کہتی تھیں، بطور خاص مجھ سے پوچھا ’ایف بی! وہ کون تھا جس نے تمہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ کچھ بد شگونی ہونے والی ہے؟ اب جا کر اُس سے پوچھو کہ میرے لیے آگے کیا ہے، کیا ہونے والا ہے اب؟‘

یہ بھی پڑھیے

وہ بھٹو جو اپنی بہن کے دور حکومت میں مارے گئے

شاہنواز بھٹو کی ’پراسرار‘ موت جس نے بھٹو خاندان کو ہلا کر رکھ دیا

مرتضیٰ بھٹّو: ’الذوالفقار‘ سے لے کر 70 کلفٹن کے باہر چلی پہلی گولی تک

فرحت اللّہ بابر نے بتایا کہ ’جب میری دوبارہ شاہ صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے انھیں بی بی کے ردعمل کے بارے میں بتایا۔ شاہ صاحب نے مجھے ان کے لیے امام ضامن بھی دینا چاہا۔ میں نے بی بی کو بتایا کہ شاہ صاحب تو آپ کے لیے ’امام ضامن‘ دے رہے تھے، مجھے نہیں معلوم کہ آپ یقین رکھتی ہیں یا نہیں تو انھوں نے آستین چڑھا کر مجھے دکھایا کہ میرے ہاتھ پر تو پہلے ہی امام ضامن بندھا ہوا ہے۔‘

تاہم فوٹو جرنلسٹ زاہد حسین کی گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائی عمر میں بےنظیر مذہب کی جانب زیادہ جھکاؤ نہیں رکھتی تھیں۔

’خدا ترس اور خوش اخلاق انسان‘

فرحت اللّہ بابر کے مطابق بےنظیر بھٹّو انتہائی ’خدا ترس اور خوش اخلاق انسان تھیں۔‘

ان کے مطابق ’جب جنرل ضیاالحق کی اہلیہ کی وفات ہوئی تو وہ وزیراعظم تھیں اور انھوں نے اپنے ملٹری سیکریٹری سے کہا کہ (جنرل ضیا کے صاحبزادے) اعجاز الحق سے رابطہ کرو۔ اگر اُن کو کسی چیز کی ضرورت ہے یا کوئی کام ہے تو پوچھ لو۔ سوائے فیصل مسجد کے جنرل ضیا کا خاندان کسی بھی خاص مقام پر دفنانا چاہے تو بھی پوچھ لو۔‘

فرحت اللّہ بابر نے کہتے ہیں کہ ’اپنے باپ کا تختہ الٹ کر پھانسی تک پہنچانے والے سے ایسا سلوک کرنے کے لیے بہت دم خم چاہیے۔‘

Getty Images

فرحت اللّہ بابر کا کہنا تھا کہ ’وہ غریب پرور انسان تھیں۔ عام کارکن تک اُن کے قریب پہنچ سکتے تھے۔ کوئی ان تک پہنچ جاتا تھا تو پھٹے پرانے کپڑے پہنے خواتین کو بھی گلے لگا کر ملتی تھیں اور یہ بھی دکھاوا نہیں تھا، وہ دل کی گہرائی سے لوگوں سے ملتی تھیں۔ جب آپ دکھاوا یا اداکاری کرتے ہیں تو پتا چل جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا بھی نہیں تھا کہ بی بی اپنی شخصیت کا خیال نہیں رکھتی تھیں۔ بطور ترجمان جب میں اُن کی تقریر رومن میں لکھ کر دیتا تھا۔ تو بہت غور و فکر کرتیں ایک ایک لفظ، ایک ایک جملہ، تسلسل، روانی ہر چیز۔ پہلے ہوم ورک کرتی تھیں۔ ایک بار میری لکھی ہوئی تقریر میں ایک لفظ آیا ’تاہم‘ جو اُنھیں مشکل لگا ہو گا۔ کچھ دیر تو تیاری کرنے کی کوشش کی مگر پھر ایک وقت آیا کہ وہ چڑ گئیں تو غصّے سے کھڑی ہو گئیں اور اسی غصّے میں مجھ سے کہا ’ایف بی! واٹ اِز دس تاہم۔۔۔ تاہم۔‘

’پھر انھوں نے کاغذات پھینک دیے جو میں نے اٹھا لیے اور وہ شدید بیزاری کے عالم میں یہ کہتے ہوئے چلی گئیں کہ ’اب میرے پاس وقت نہیں ہے۔ اب میں نہیں کر سکتی یہ تاہم، تاہم۔‘

’میں نے وہ کاغذات اٹھا لیے اور چلا آیا۔ شام کو انھوں نے مجھے گھر پر چاندی کا پیالہ تحفے میں بھجوایا اور ایک نوٹ بھی اپنی ایک تصویر پر آٹو گراف کے ساتھ میرے لیے بھیجا۔ غصّہ کرتی تھیں تو اُس کا مداوا بھی کرتی تھیں۔‘

فرحت اللہ بابر کے مطابق بےنظیر خواتین اور نجی زندگی کے احترام کی بہت قائل تھیں۔ ’ایک بار کسی نے سب کے سامنے انھیں بتایا کہ ایک شخص اُن کے بارے میں غلط بات خاصے ناشائستہ انداز میں پھیلا رہا ہے تو محفل میں موجود ایک شخص نے بی بی سے کہا کہ جو شخص بدتمیزی کر رہا ہے اُس کی ہمارے پاس ویڈیوز ہیں۔ ویڈیوز والی بات انھوں نے تین بار کہی۔ پہلی اور دوسری دفعہ تو بی بی خاموش رہیں مگر تیسری بار ویڈیوز کی بات کرنے والے کو زور سے ڈانٹ دیا اور کہا ’کیا تم چاہتے ہو کہ کوئی تمہارے بیڈروم میں داخل ہو؟ کیا تمہیں اچھا لگے گا؟‘

مرتضیٰ، نصرت اور بےنظیر

مگر اُن کے ناقدین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر وہ خدا ترس تھیں تو بھائی اور ماں سے پارٹی کیوں چھین لی۔

ستمبر 1977 میں جلاوطنی اختیار کر لینے والے میر مرتضی بہن کے پہلے دورِ حکومت میں بھی واپس نہیں آئے۔ پاکستانی حکام الزام لگاتے رہے کہ میر مرتضیٰ پی آئی اے کے طیارے کے اغوا سمیت دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔

دوسری طرف میر مرتضی اور بے نظیر میں سیاسی وراثت کی کشمکش بھی پوری شدت سے جاری رہی۔ مرتضیٰ بھٹّو، بےنظیر اور آصف زرداری پر پارٹی نظریے سے انحراف کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کرتے رہے۔ بدعنوانی و اقربا پروری کے ایسے ہی الزامات کی بنا پر صدر غلام اسحاق خان نے چھ اگست 1990 کو اُن کی حکومت کو برخاست بھی کر دیا۔

لیکن بےنظیر بھٹّو آٹھ اکتوبر 1993 کے انتخابات میں دوبارہ پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ 18 اکتوبر 1993 کو جب مرتضیٰ بھٹّو پی ایس 31 لاڑکانہ کے اپنے آبائی حلقے سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر رکن سندھ اسمبلی منتخب ہو کر وطن واپس پہنچے تو دہشت گردی کے الزامات کے تحت انھیں گرفتار کر لیا گیا۔

رہا ہوئے تو بہن کے مقابلے میں اپنی سیاسی قوت مجتمع کرنے کی کوشش میں مرتضیٰ بھٹّو، بےنظیر اور آصف زرداری پر کھلے عام تنقید کرتے تھے۔ پریس کانفرنس ہو یا جلسے جلوس میر مرتضیٰ بےنظیر کی پالیسیوں، طرزِ سیاست اور مبینہ بدعنوانیوں پر کڑی نکتہ چینی کرنے سے کبھی نہیں چوکے۔

تب ہی پارٹی کے سخت گیر عناصر میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ دراصل میر مرتضیٰ ہی کو ذوالفقار بھٹّو کا سیاسی جانشین ہونا چاہیے۔ یہ اندرونی سیاسی کشمکش اتنی شدید ہو گئی کہ بالآخر خود نصرت بھٹّو نے بھی اپنا وزن مرتضی بھٹّو کے پلڑے میں ڈال دیا اور بےنظیر کی بجائے مرتضیٰ بھٹّو کا ساتھ دیتی رہیں۔

پارٹی کی اسی اندرونی کشمکش کے نتیجے میں 10 جنوری 1994 کو بےنظیر بالآخر اپنی والدہ کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے خود پارٹی کی سربراہ منتخب ہونے میں کامیاب تو ہو گئیں لیکن بھٹّو خاندان کے درمیان ماں، بہن اور بھائی کی یہ سیاسی کشمکش مرتضیٰ بھٹّو کی موت تک جاری رہی۔

فرحت اللّہ بابر کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں، سو فیصد درست ہے کہ نصرت بھٹّو کا رجحان، وزن اور پسند سب کچھ میر مرتضیٰ بھٹّو کی جانب تھا مگر جب نصرت بھٹّو کو الزائمر (بھول جانے کے مرض) کی وجہ سے یادداشت کا مسئلہ ہوا تو پارٹی میں سوال اٹھا کہ اگر حالت زیادہ خراب ہوئی تو کیا ہوگا؟

’لہٰذا کچھ اعتراض کرنے والے لوگوں کی تجویز پر بی بی چیئرپرسن بنی تھیں۔ بعض لوگوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا کہ میر مرتضی پارٹی کے سربراہ بن جائیں مگر بعض لوگوں کو اعتراض بھی تھا اس لیے یہ پیشرفت ہوئی۔

’میر مرتضی بھٹّو پر جنرل ضیا کے زمانے میں جو اعتراضات کیے گئے تھے انھیں ختم کرنے میں وقت لگتا اس لیے بی بی چیئرپرسن بن گئیں۔‘

فرحت اللّہ بابر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ آخری زمانے میں مرتضی بھٹّو بھی بےنظیر کے قریب آنے لگے تھے اور وہ اس پر بہت خوش تھیں۔

’مرتضی بھٹّو ایک بار کسی بچے کی سالگرہ پر وزیر اعظم ہاؤس آئے۔ جب وہ واپس جانے لگے تو بی بی خود انھیں رخصت کرنے باہر گئیں۔ جب وہ چلے گئے تو بی بی بہت خوش تھیں۔ ویسے تو مجھے ایف بی کہتی تھی مگر اس دن انھوں نے جذبات میں میرا پورا نام لیا اور بولیں ’اوہ ۔فرحت اللّہ۔۔۔ آئی ایم ایبسولیوٹلی ڈیلائٹڈ (فرحت اللّہ، آج میں بہت زیادہ خوش ہوں۔) تم یقین کرو گے کہ مرتضیٰ میرے گھر آیا۔ ہم نے اتنی اچھی شام گزاری۔ پھر انھوں نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ کوئی نظرِ بد نہ لگ جائے۔‘

فرحت اللہ بابر کے مطابق بےنظیر اپنے خاندان، والدین اور بھائیوں سے شدید محبت کرتی تھیں اور جب مرتضیٰ بھٹّو کے قتل کا واقعہ ہوا تو پاکستان کی وزیراعظم ہوتے ہوئے اس حالت میں ہسپتال پہنچیں کہ ایک پیر میں چپل اور سر پہ دوپٹہ نہیں تھا۔

نصرت بھٹو بھی جب الزائمر کی وجہ سے ایک بار انھیں پہچان نہیں پائیں تو وہ بے حد ملول ہوئیں۔

’بی بی نے تو اپنی والدہ کی یادداشت ریکارڈ کروانے کا کام بھی میرے سپرد کیا کہ ایف بی تم وقت نکالو اُن سے سب پوچھو، کھانے پر چائے پر وقت گزارو اور اُن کی یادداشت ریکارڈ کر لو۔ جب کبھی وہ ذوالفقار بھٹّو کو یاد کرتی تھیں تو بھی اُن کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More