ٹائٹینک: دیوہیکل سمندری جہاز کی باقیات بحیرہ اوقیانوس کے گہرے پانیوں میں کیسے تلاش کی گئیں

بی بی سی اردو  |  Jun 20, 2023

Getty Imagesٹائٹینک 269 میٹر لمبا تھا جس میںعملے اور مسافروں سمیتتقریباً 3,300 افراد سوار تھے

امریکہ اور کینیڈا میں حکام دن رات مسلسلبحیرہ اوقیانوس کے گہرے پانیوں میں اس آبدوز کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں جو ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے پانچ سیاحوں سمیت لاپتہ ہو گئی ہے۔

یہ آبدوزاتوار کی صبح پانچ سیاحوں کو لے کر سمندر میں اتری تاہم اپنی روانگی کے 1 گھنٹہ 45 منٹ بعد غائب ہو گئی۔

لاپتہ آبدوز کو چلانے والی کمپنی ’اوشین گیٹ ایکسپیڈیشنز‘ نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ وہ عملے کو واپس لانے کے لیے تمام آپشنز کو بروئے کارلا رہی ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہانھیں آبدوز کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کرنے کی کوششوں میں مختلف سرکاری ایجنسیوں اور گہرے پانیوں سے متعلق ماہر کمپنیوں سے وسیع پیمانے پر مدد ملی ہے۔

ٹائٹینک سمندر کی تہہ میں کہاں موجود ہے ؟Getty Images

ٹائٹینک کی باقیات شمالی بحراوقیانوس میں موجود ہیں جو کینیڈا میں نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل سے تقریباً 600 کلومیٹر جنوب مشرق میں 38 سو میٹر سمندر کی گہرائی میں پڑی ہیں۔

اس کی باقیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جہاز کی کمان یعنی اگلا حصہاور سٹرن یعنی پچھلا حصہ، ملبے کا ایک بہت بڑا حصہ اس جہاز کے دونوں حصوں کو گھیرے ہوئے ہے۔

یہ باقیات گرینڈ بینک آف نیو فاؤنڈ لینڈ کے جنوب میں’ٹائٹینک کینین ‘کے نام سے جانے والے ایک علاقے میں ہیں۔ اس علاقے کے لیے یہ نام 1991 میں سمندری ماہر ارضیات ایلن رفمین نے تجویز کیا تھا۔

اپنے وقت میں، ٹائی ٹینک دنیا کا سب سے بڑا مسافر بردار جہاز تھا تاہم 1912 میں اپنے پہلے ہی سفر میں 14 اور 15 اپریل کی درمیانی شب یہ دیو ہیکلبحری جہاز برطانیہ کے شہر ساؤتھمپٹن سے نیویارک کی جانب جاتے وقتایکبرفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گیا تھا۔

اس سانحے میں 1500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

9851 میں ٹائٹینک کی باقیات کی دریافت امریکی حکومت کی طرف سے کچھ خفیہ دستاویزات کے اعلان کی بدولت سامنے آئیں۔

ٹائٹینک کی باقیات کیسے ملیں

امریکی انٹیلیجنس کے آفیسر رابرٹ بیلارڈ ان افراد میں شامل تھے جنھوں نے1980 کی دہائی میںٹائٹینک کی باقیات کو تلاش کے خفیہ مشنز میں حصہ لیا تھا۔

امریکی بحریہ نےانھیںجہاز کی تلاش کے ذرائع فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی، لیکن ساتھ ہی شرط رکھی کہ وہ صرف اس صورت میں ان وسائل کو استعمال کرسکتے ہیں جب وہ 1960 کی دہائی میں بحر اوقیانوس میں ڈوبنے والی دو امریکی جوہری آبدوزوں کوبھی تلاش کریں گے۔

Getty Imagesاپریل 1912 میں جب اس حادثے کی خبر نیو یارک پہنچی تو لوگ اخبارات کے دفاتر کے باہر آویزاں نشریے دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو گئے

اس طرح خفیہ فرانکو امریکن مشن کا آغاز1985 میں ہوا۔ دوسری جانب ٹائٹینک کی تلاش کی آڑ میں اس آپریشن کا فیصلہ اس لیے درست سمجھا جا رہا تھا جس سے روسیوں اور ذرائع ابلاغکو شک نہ ہو کہ ڈوبی ہوئی آبدوزوں کو تلاش کیا جا رہا ہے۔

اس مشن کا پہلا حصہ کامیاب رہا۔ بیلارڈ کو یو ایس ایس تھریشر اور یو ایس ایس اسکارپیندونوں آبدوزیں مل گئیں۔

اب بیلارڈ کا مسئلہ یہتھاکہ ان کے پاس ٹائٹینک کو تلاش کرنے کے لیے صرف 12 دن باقی رہ گئے تھے۔

ٹائٹینک کے ملبے کو ڈھونڈنے کے لیے وہ جو کشتی استعمال کر رہے تھے وہ پہلے ہیایڈوانس میں دوسرے لوگوں نے کرائے پر لے رکھی تھی۔

بالآخر سکارپیئن کو تلاش کرنے کے تجربے کے ساتھ ہی بیلارڈ کو صرف 8 دنوں میں یکمستمبر 1985 کو ٹائٹینک مل گیا۔ اس کو تلاش کرنے میں انھیں آرگو آبدوز سے مدد ملی جو کیمروں سے لیستھی اور تصاویر کو سطح پرمنتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔

بیلارڈ نے 2021 میں بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب انھوں نے جہاز کا ملبہ دیکھا تو ایک لمحے ان کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن دوسرے ہی لمحے ان کی خوشی تاسف میں بدل گئی۔

بیلارڈ نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ ہم پرآشکار ہوا کہ ہم کسی کی قبر پر خوشی کی جشن منا رہے ہیں۔ ہم شرمندہ ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More