یونان میں غیرقانونی تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے کے بعد پاکستان میں ان افراد کی نشاندہی کا سلسلہ جاری ہے جو ممکنہ طور پر ڈوبنے والی کشتی پر سوار تھے۔
کشتی پر ایک اندازے کے مطابق 500 سے زیادہ افراد سوار تھے اور اس حادثے میں اب تک 78 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ سو سے زیادہ افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔
حادثے میں زندہ بچ جانے والے افراد کا کہنا ہے کہ اس کشتی پر تین سو سے زیادہ پاکستانی بھی سوار تھے تاہم ان دعوؤں کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پیر کی شام تک پاکستان میں گوجرانوالہ ریجن اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور سے ہی 50 سے زیادہ پاکستانیوں کے اس حادثے میں لاپتہ ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
ایف آئی اے کے حکام کا کہنا ہے کہ پنجاب فرانزک لیب کی ٹیم نے ایف آئی اے آفس میں ڈیسک قائم کر دیا ہے جہاں گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، وزیر آباد اور کامونکی کے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے ڈی این اے کیے جا رہے ہیں۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے نے صحافی احتشام شامی کو بتایا کہ اب تک 49 خاندانوں سے رابطہ ہوا ہے اور پیر کوگوجرانوالہ اور گجرات کے 36 خاندانوں کے افراد کے ڈی این اے لیے گئے ہیں جبکہ منگل کو مزید 14 خاندانوں کے ڈی این اے لیے جائیں گے تاکہ ان نمونہ جات کو یونان بجھوا کر لاشوں کی شناخت کے عمل میں مدد لی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہوزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایات کی روشنی میں ایف آئی اے کی ٹیمیں متاثرین سے خود کوائف اکٹھے کر رہی ہیں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں۔
میرپور کے کمشنر چوہدری شوکت علی نے نمائندہ بی بی سی عمردراز ننگیانہ کو بتایا ہے کہ ڈوبنے والی پناہ گزینوں کی کشتی میں میرپور ڈویژن کے 23 افراد سوار تھے، جن میں سے دو افراد زندہ بچ جانے والوں میں شامل ہیں۔
Reuters
کمشنر میرپور کے مطابق ’کشتی ڈوبنے کے سانحے میں زندہ بچ جانے والے میرپور ڈویژن کے ان دو متاثرین نے مزید ایسے 21 پاکستانی پناہ گزینوں کی تصدیق کی ہے جن کا تعلق میرپور ڈویژن سے تھا اور جو تاحال لاپتہ ہیں۔‘
کمشنر کے مطابق ’حکام نے شناخت کے عمل کے لیے کوٹلی کی تحصیل کھوئی رتہ میں لواحقین سے ڈی این اے کے نمونے لینے کا عمل شروع کر دیا ہے اور یہ نمونے یونان بھیجے جائیں گے تاکہ لاشوں کی شناخت کی جا سکے۔‘
گوجرانوالہ ریجن سے لاپتہ 24 افراد میں سے 17 کا تعلق ضلع گوجرانوالہ، چھ کا ضلع سیالکوٹ جبکہ ایک کا وزیرآباد سے ہے۔ ضلع گوجرانوالہ میں تحصیل نوشہرہ ورکاں وہ علاقہ ہے جہاں سے سب سے زیادہ افراد کے اس حادثے میں لاپتہ ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
یونان میں ملزمان کا الزامات قبول کرنے سے انکارReuters
یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے کے بعد انسانی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے نو افراد نے عدالت میں ان پرعائد الزامات سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس حادثے میں ملوث نہیں تھے۔
ان نو ملزمان پر، جن کی عمریں 20 سے 40 سال تک ہیں، انسانی سمگلنگ کے ساتھ ساتھ دیگر الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔
ایک ملزم کے وکیل نے عدالت میں دعوی کیا کہ ان کا موکل خود کشتی پر سوار مسافروں میں سے ایک تھا اور ’وہ سمگلر نہیں ہے۔‘
واضح رہے کہ اس حادثے میں اب تک کم از کم 78 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ابھی تک کم از کم 500 متاثرین لاپتہ ہیں۔ ان لاپتہ افراد میں درجنوں پاکستانی بھی شامل ہیں۔
پیر کو نو ملزمان کو کالاماٹا کی ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان پر انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے، کشتی ڈبونے اور انسانی سمگلنگ کے الزامات عائد کیے گئے۔
ایک ملزم کے وکیل، الیگزانڈروس ڈیاماریسس، نے کہا کہ ان کا موکل بے گناہ ہے اور ’اس نے سمگلروں کو یورپ پہنچنے کے لیے پیسے دیے تھے۔‘
عدالت کے باہر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ سمگلر نہیں ہے۔ وہ تو صرف ایک مسافر تھا۔‘
ان ملزمان کو منگل کے دن پھر عدالت میں پیش کیا جائے گا جہاں یہ فیصلہ ہو گا کہ مقدمے کی سماعت کے آغاز تک ان کو جیل میں ہی رکھا جائے یا نہیں۔
پاکستان میں انسانی سمگلروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟
اس حادثے کے بعد پاکستان میں بھی جہاں تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں وہیں انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن بھی جاری ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ انسانی سمگلنگ جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث ایجنٹس کے خلاف فوری کارروائی کر کے انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
ترجمان ایف آئی اے کے مطابق اب تک یونان میں پیش آنے والے کشتی کے حادثے میں تین انکوائریاں جاری ہیں جبکہگوجرانوالہ ، گجرات ، سیالکوٹ ، منڈی بہاؤالدین اور شیخوپورہ سے انسانی سمگلنگ میں ملوث دو درجن سے زائد افراد کی گرفتاریاں عمل میں آ چکی ہیں جن میں مقدمات میں نامزد ملزمان بھی شامل ہیں
ایف آئی اے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں انسانی سمگلروں کے نیٹ ورک میں شامل ایجنٹوں نے ’نوجوانوں کو باہر بھجوانے کے عوض ان سے 24، 24 لاکھتک وصول کیے گئے۔‘
ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے مخدوم قیصر بشیر نے صحافی احتشام شامی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ترجیح انسانی اسمگلروں کے نیٹ ورک کو توڑنا اور تمام بڑے اور چھوٹے ایجنٹوں کو گرفتار کرنا ہے۔
’سب ایجنٹ مختلف دیہات میں جاکر نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں اور انہیں مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر اپنی چکنی چپڑی باتوں میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں ، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان سب ایجنٹس کا کردار بھی کم نہیں ہوتا ، ان کے خلاف بھی سخت قانونی کارروائی کی جائے گی‘۔
ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے ایف آئی اے لاہور، گجرات، گجرانوالہ، اسلام آباد اور راولپنڈی میں ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جبکہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر انسانی سمگلرز کی جانب سے غیر قانونی طریقوں سے سرحد پار کروانے کی پیشکشوں والے مواد پر بھی سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔
گذشتہ روز میرپور کے کمشنر چوہدری شوکت کا کہنا تھا کہ ’انسانی سمگلنگ میں ملوث مرکزی ایجنٹ کی معاونت کرنے والے‘ نو مقامی افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ جبکہ ایف آئی اے نے مذکورہ ایجنٹ کو کراچی ایئرپورٹ سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
صحافی محمد زبیر خان کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی یونان کشتی حادثے کا پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے میں 26 افراد کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ دیگر نامعلوم ملزمان شامل ہیں۔
مقدمہ ضلع کوٹلی پولیس نے پولیس انسپکٹر کی مدعیت میں درج کیا ہے۔ درج مقدمہ کے مدعی کھوٹی رٹہ تھان کے ایس ایچ او سہیل یوسف ہیں۔
انھوں نے پولیس کو یہ بتایا کہ ’انھیں معتبر زرائع سے اطلاع ملی ہے کہ مقدمے میں نامزد ملزمان جس میں مقامی افراد کم از کم دس ہیں، نے انسانی سمگلنگ کا گروپ منظم کررکھا ہے جو مقامی سطح پر اپنے اپ کو ایجنٹ ظاہر کرکے عوام کو ورغلا کر اور بھلا پھسلا کر قانونی طریقے سے یورپ لے جانے کا جھانسہ دے کر بھاری رقم بٹورتے ہیں۔
بعد ازاں ان افراد کو بحیرہ روم کے سمندر کے راستے غیر محفوظ اور غیر قانونی طور پر ڈنکی لگا کر بھجتے ہیں اور انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ کچھ عرعہ قبل ان لوگوں نے تحصیل کھوئی رٹہ کے متعدد افراد کو بھی جھانسہ دے کر یورپ لے جانے کے بہانے خطیر رقم بٹوری گئی اور 14 جون کو ان افراد کو یونان کی سمندری حدود میں ایک کشتی میں سوار کرایا۔
درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ کشتی میں 300 سے 350 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش موجود تھی مگر اس آٹھ سو افراد کو سوار کرایا گیا۔
مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ملزمان ’ہمارے تھانے کی حدود میں لوگوں کے ساتھ فراڈ کا سبب بننے کے علاوہ کئی اموات کا سبب بھی بنے ہیں۔‘
Getty Images’سمندر میں ڈوبنے سے قبل پناہ گزینوں کی کشتی 7 گھنٹوں تک ایک ہی جگہ کھڑی رہی‘
بی بی سی نے یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے کے بارے میں چند اہم شواہد حاصل کیے ہیں جو یونانی کوسٹ گارڈ (ساحل پر تعینات محافظ) کی جانب سے دیے گئے بیانات پر شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔
بی بی سی کو اس علاقے میں موجود دیگر بحری جہازوں کی نقل و حرکت کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ گنجائش سے زیادہ مسافروں سے بھری کشتی سمندر میں ڈوبنے سے قبل کم از کم سات گھنٹے تک حرکت کرنے کے بجائے ایک ہی جگہ پر کھڑی رہی تھی۔
بی بی سی نے میری ٹائم اینالیٹکس کے پلیٹ فارم ’میرین ٹریفک‘ کی طرف سے ٹریکنگ ڈیٹا کی ایک کمپیوٹر اینیمیشن حاصل کی ہےجس کے اعداد و شمار کشتی ڈوبنے سے قبل سمندر کے اس مخصوص علاقے کی سرگرمیوں کی مکمل نشاندہی کرتے ہیں جہاں تارکین وطن کی کشتی ڈوبی تھی۔
اس ڈیٹا نے یونان کے سرکاری دعوؤں کو مشکوک کر دیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ کشتی کو نیویگیشن میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا اور یہ کہ انھوں نے مدد قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔
تارکین وطن کو لے جانے والی ماہی گیری کی اس کشتی میں کوئی ٹریکر موجود نہیں تھا اس لیے وہ نقشے پر نہیں دکھائی دی۔
ان شواہد کے برعکس کوسٹ گارڈ اب بھی اپنے دعوے پر قائم ہیں کہ اس دورانیے میں کشتی اٹلی کے راستے پر گامزن رہی تھی اور اسے کسی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔
بی بی سی کے ان شواہد سے متعلق یونانی حکام نے ابھی تک اپنا ردعمل نہیں دیا ہے۔
یاد رہے کہ یونانی حکام کا دعویٰ ہے کہ کشتی میں سوار افراد نے کہا تھا کہ ان کو مدد کی ضرورت نہیں اور کشتی ڈوبنے سے پہلے تک بظاہر کوئی ایسا خطرہ نہیں تھا جس کی بنیاد پر ان کی مدد کی جاتی۔