فردوسی: ’عجم کو زندہ کرنے والے‘ فارسی شاعر جو محمود غزنوی سے انعام حاصل نہ کر سکے

بی بی سی اردو  |  Jun 18, 2023

Getty Images

یہ کوئی ہزار سال پرانی بات ہے جب ہندوستان پر محمود غزنوی کے پے در پے حملے ہو رہے تھے اور انھوں نے اپنے تقریباً 30-31 سالہ دورِ حکومت میں کوئی 17 بار ہندوستان کے مختلف علاقوں میں حملے کیے اور بڑی مقدار میں مال غنیمت حاصل کیا۔

کہا جاتا ہے کہ انھوں نے گجرات کے معروف سومنات مندر سے بیش بہا خزانہ حاصل کیا۔ اسی طرح انھوں نے متھرا کے راجہ پر فتح کے بعد بھی بہت ساری دولت حاصل کی تھی۔

اسی طرح کے ایک حملے کے بعد جب وہ واپس اپنے دارالسلطنت غزنی جا رہے تھے تو وہ اپنی فوج کے ساتھ راستے میں ایک راجہ کی راجدھانی کے قریب خیمہ زن ہوئے اور راجہ کے پاس اپنی حاکمیت قبول کرنے کے لیے قاصد روانہ کیا۔

بادشاہ اپنے خیمے میں جواب کا بے صبری سے منتظر تھا کہ قاصد آیا تو فوراً محمود غزنوی نے وزیر اعظم سے کہا کہ دیکھو کیا جواب لایا ہے تو وزیر نے برجستہ ایک شعر پڑھا جس کا مطلب تھا اگر ہمارے مطلب کا جواب نہیں ہوا تو پھر میں، گرز (ایک قسم کا ہتھیار)، میدان جنگ اور افراسیاب ہو گا۔

بادشاہ اس جواب سے انتہائی محظوظ ہوا اور فرط جذبات میں پوچھا کہ یہ کس کا شعر ہے تو بقول شبلی نعمانی وزیر نے کہا کہ ’اس بدقسمت کا جس نے 15 برس خونِ جگر کھایا اور کچھ حاصل نہ ہوا۔‘ محمود نے کہا کہ مجھے سخت ندامت ہے غزنین پہنچ کر یاد دلانا کہ پائے تخت پہنچ کر اس کی خدمت کا صلہ اس کے پاس پہنچایا جائے۔

وزیر نے جس بدقسمت کا ذکر کیا وہ کوئی اور نہیں بلکہ فارسی شاعر فردوسی تھے جنھوں نے اپنی تصنیف شاہنامہ سے عجم کو زندہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔

ان کی تصنیف شاہ نامہ فارسی زبان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کے بارے میں علامہ ابن الاثیر نے اپنی تصنیف 'مثل السائر' کے خاتمے پر لکھا ہے کہ 'عربی زبان باوجود اپنی وسعت اور کثرت الفاظ کے شاہ نامہ کا جواب پیش نہیں کر سکتی۔'

Getty Imagesفردوسیفردوسی کی ابتدائی زندگی

فردوسی کی پیدائش طوس کے پاس آباد ایک گاؤں میں ایک زمیندار گھرانے میں سنہ 329 ہجری یا 940 عیسوی میں ہوئی لیکن اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

ان کے نام کے بارے میں بھی بہت زیادہ معلومات نہیں ہیں البتہ ان کی کنیت ابو اسحاق سے انھیں زیادہ تر یاد کیا گیا ہے لیکن اردو کے معروف تنقید نگار علامہ شبلی نعمانی نے 'فردوسی' پر اپنی تصنیف میں ان کا نام حسن بن اسحاق بن شرف لکھا ہے۔ وہ فردوسی تخلص رکھتے تھے اور بعض جگہ ابن شرف شاہ کا بھی استعمال کیا ہے۔

فارسی نقد کی تاریخ شعر العجم کے مصنف شبلی نعمانی نے فردوسی کے حوالے سے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ فردوسی جب پیدا ہوئے تو ان کے والد نے خواب دیکھا کہ نومولود بچے نے کوٹھے پر چڑھ کر نعرہ لگایا اور ہر طرف سے لبیک کی صدائیں آئیں، صبح کو انھوں نے اس زمانے میں خواب کی تعبیر بتانے والے مشہور بزرگ نجیب الدین سے اس کا ذکر یا تو انھوں نے کہا کہ یہ لڑکا شاعر ہو گا اور اس کی شاعری کا غلغلہ یعنی شہرہ تمام عالم میں پھیلے گا۔

فردوسی کے حالات زندگی تواتر سے لکھے گئے ہیں لیکن ان میں بہت سی باتوں میں اختلاف ہے۔ کسان یا زمیندار گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے فردوسی کا خاندان خوشحال تھا اور اسے فکر معاش نہیں تھی اس لیے وہ سن رشد کو پہچ کر علم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے اور چونکہ اس زمانے میں شعر و شاعری کا دور دورہ تھا تو ان میں شاعری کمال کو پہنچی۔

Getty Imagesفردوسی کے شاہنامے کا ایک منظرعجم کو زندہ کرنے کا دعوی

وہ وقت ایرانیوں کی شکست اور عربوں یا عالم اسلام کی فتح کا دور تھا۔ امریکی ایرانی سکالر آذر نفیسی فردوسی کی عالمی شہرت کی حامل کتاب 'شاہ نامہ' کے انگریزی ترجمے کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ ان کے والد 'ہمیشہ اصرار کیا کرتے تھے کہ فارس والوں (ایرانیوں) کا بنیادی طور پر کوئی گھر نہیں ہوا کرتا تھا، سوائے ان کے ادب کے اور وہ بھی بطور خاص ان کی شاعری کے۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’اس ملک، ہمارے ملک پر متعدد بار حملہ ہوا یا حملہ کیا گیا، اور ہر بار جب اہل فارس اپنی تاریخ، ثقافت اور زبان کے احساس سے محروم ہونے لگتے تو وہ اپنے شاعروں کو اپنے گھر کا حقیقی محافظ پاتے۔‘

بہت سے ناقدین ادب اور تاریخ دانوں نے فارس کی شکست کے بعد کے دو سو سال کے عرصے کو ’عجم کی خامشی کا دور‘ کہا ہے۔ ویسے بھی عجم کے معنی گونگے کے ہوتے ہیں اور یہ نام عربوں نے اپنی فصاحت، بلاغت اور مالامال عربی زبان کے حوالے سے باقی ماندہ دنیا کو دیا تھا۔

انھی حالات کو مصنفہ آذر نفیسی کہانیوں میں زندہ رہنے کی کوشش کہتی ہیں۔ انھوں نے فردوسی کے حوالے سے اپنے والد کا قول نقل کیا ہے کس طرح فردوسی نے عربوں کے فارس پر حملے کے بعد اپنی قوم کے تشخص اور ثقافت کو بچایا اور اپنی کتاب شاہ نامہ میں بادشاہوں کی حکایات، فارسی اساطیر اور تاریخ کا رزمیہ لکھ کر اپنی قوم کے تشخص اور ثقافت کی ازسرنو تعریف کی۔

وہ لکھتی ہیں: 'میرے والد کتابوں کی طرف اشارہ کرکے کہتے کہ اس کے سوا ہمارا کوئی گھر نہیں ہے۔ وہ دہراتے کہ یہی ہمارا گھر ہے، ہمیشہ سے، آپ کا اور آپ کے بھائی کا، اور آپ کے بچوں اور آپ کے بچوں کے بچوں کا۔'

حیدرآباد (دکن) میں قائم مولانا آزاد نیشنل اوپن یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر قیصر احمد نے فردوسی کے متعلق بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'فردوسی فارسی شاعری اور حکمت کے بے مثال ماہر اور دنیا کے عظیم ترین قصہ گو میں سے ایک ہیں۔

فردوسی کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی لازوال تخلیق سے نہ صرف فارسی زبان بلکہ پوری فارسی ثقافت اور تاریخ کو امر کر دیا۔ ان کے ایک ایک لفظ سے ایرانی عوام کے ساتھ ان کے جذبہ صادق کی جھلک ملتی ہے بلکہ انھیں بھی اپنی کام کی اہمیت کا بخوبی علم تھا کہ وہ کس قد اہم دستاویزی حیثیت کی حامل ہیں۔

چنانچہ خود فردوسی نے کہا کہ کہ انھوں نے شاہ نامہ کی تصنیف میں بہت رنج و مصیبت اٹھائی لیکن 30 سالوں کی محنت کے نتیجے میں انھوں نے فارسی میں عجم کو زندہ کر دیا۔

Getty Imagesاسفندیار کے جنگ کی منظر کشی

دہلی کی معروف جواہل لعل نہرو یونیورسٹی میں سینٹر برائے فارسی و وسطی ایشیائی علوم میں پروفیسر اخلاق آہن نے کہا کہ ’ادبی، لسانی، تاریخی اور تہذیبی لحاظ سے جو اہمیت و افادیت شاہنامہ کی ہے، اس کا ہم پلہ فارسی کی ادبی تاریخ کا کوئی دوسرا شاہکار نہیں ہو سکتا۔

’اس کی تخلیق بذات خود ایران کی تہذیبی و ثقافتی احیا کے عروج کا مترادف ہے۔ اس کا احساس خود فردوسی کو بھی تھا، چنانچہ اس کی تکمیل پر اس نے اس کا برملا اظہار کیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ 'کسی بھی زبان و تہذیب کی معراج ایک حماسہ یا بڑی مثنوی کی تخلیق ہوتی ہے اور اس کے تحفظ کا ایک اہم وسیلہ بھی۔ اس نقطہ نظر سے شاہنامہ دنیا کے عظیم شاہکاروں ایلیڈ، اوڈیسی، مہابھارت، پیراڈائز لاسٹ وغیرہ میں نہ صرف شامل ہے بلکہ کئی اعتبارسے اس کو فوقیت و برتری بھی حاصل ہے۔

’دنیا کی مختلف زبانوں کے ساتھ شاہنامہ کے اثرات ہندوستان کی تقریباً تمام زبانوں کی ادبی روایات میں پائے جاتے ہیں، چاہے وہ اس کی پیروی کی شکل میں ہوں یا اس کے واقعات و تلمیحات سے استفادہ کی شکل میں۔ اسی طرح شاہنامہ کے توسط سے ہند و ایران کے درمیان بے شمار اساطیری مشابہتوں کا سراغ بھی ملتا ہے۔‘

BBCفارسی کے تین پیمبروں میں ایک

فردوسی کو ابیات یعنی شعر کا پیغمبر کہا گیا ہے جبکہ انوری کو قصیدے کا اور سعدی کو غزل کا۔ لیکن خود انوری کا کہنا ہے کہ فردوسی کی حیثیت ان کے لیے استاد کی ہے بلکہ خداوندگار کی ہے جبکہ فردوسی کے سامنے ان کی اپنی حیثیت شاگرد اور بندے کی ہے۔

فردوسی نے شعر گوئی میں اپنا مقام پیدا کیا یہاں تک کہ چاروں جانب ان کا شہرہ ہونے لگا۔ قیصر احمد بتاتے ہیں کہ شاہنامہ نہ صرف اشعار کا سب سے بڑا اور جامع مجموعہ ہے جو سامانی اور غزنوی عہد سے اب تک محفوظ ہے بلکہ فارسی زبان کی عظمت کی سب سے اہم دستاویز اور ثقافت کی شان و شوکت کا سب سے واضح مظہر بھی ہے۔

ان کے مطابق یہ اسلام سے قبل یا قدیم ایران کی تہذیب اور الفاظ کا خزانہ اور فارسی ادب کا خزانہ ہے۔

لیکن ساتھ ہی ان کا یہ کہنا ہے کہ فردوسی سے پہلے بھی شاہ نامہ کی روایت تھی اور کئی لوگ شاہ نامہ یعنی بادشاہوں کے قصے نظم کرنے میں لگے تھے۔ اسی دوران فردوسی کو پتہ چلا کہ اپنے وقت کے معروف شاعر دقیقی بھی شاہ نامہ نظم کر رہے ہیں اور ان کے تقریبا ایک ہزار اشعار ان تک پہنچے۔ لیکن وہ ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی تھا اس لیے فردوسی نے شاہنامہ لکھنے کا بیڑا اٹھا لیا اور اپنے طور پر لکھنا شروع کیا۔

قیصر احمد بتاتے ہیں کہ غزنوی کے آنے سے قبل ایران کے اس خطے میں ساسانی سلاطین کی حکومت تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ایران کے بادشاہوں، بہادروں اور پہلوانوں کا کارنامے رقم کیے جائیں جس سے ان کی عظمت آنے والی نسلوں تک پہنچے۔

چونکہ فردوسی کو خود ایرانی زبان و ثقافت اور تاریخ سے کافی لگاؤ تھا اس لیے انھوں نے اپنے تئیں یہ بیڑا اٹھا لیا۔

بعد کو انھیں پتہ چلا کہ غزنی میں حکمرانی کرنے والے بادشاہ محمود کو تاریخ اور شجاعت کے ساتھ ساتھ شعر سخن میں کافی دلچسپی ہے اور وہ بھی تاریخ سلاطین لکھے جانے کا خواہش مند ہیں۔ چنانچہ انھوں نے وہاں جانے کا قصد کیا بلکہ بعض جگہ کہا جاتا ہے کہ سلطان محمود کی دعوت پر انھوں نے وہاں کا دورہ کیا۔

غزنی کا سفر

شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ محمود غزنوی کی دعوت پر فردوسی نے پایہ تخت جانے کا فیصلہ کیا لیکن ان کی آمد سے قبل ہی درباریوں نے ان کے خلاف منصوبہ بندی شروع کر دی۔

دربار کا میر منشی بدیع الدین دبیر تھا اس نے درباری شاعر عنصری سے کہا بادشاہ کو مدت سے شاہنامے کی تصنیف کا خیال تھا لیکن دربار کے شعرا میں سے کسی نے اس کی ہامی نہیں بھری اور اگر فردوسی نے یہ کام کر دکھایا تو دربار کے تمام شعراء کی آبرو خاک میں مل جائے گی۔ عنصری نے کہا کہ بادشاہ کو یہ تو نہیں کہ جا سکتا کہے فردوسی کو واپس کر دیں لیکن کوئی دوسری تدبیر کرنی چاہیے اور انھیں وہاں پہنچنے سے روکنے کے لیے انھوں نے فردوسی کو ایک مکتوب بھیجا کہ کہ بادشاہ کو اب شاہنامے کا خیال تک نہیں آتا اس لیے انھیں واپس ہوجانا چاہیے۔

فردوسی نے ہرات سے واپس ہونا چاہا لیکن پھر یہ خیال آیا کہ شاید اس میں کوئی بھید ہو اس لیے اس نے واپسی کا ارادہ چھوڑ دیا۔ قسمت سے اسی دوران عنصری اور بدیع الدین میں شکررنجی پیدا ہو گئی تو بدیع الدین نے قاصد بھیجا کہ فورا غزنی آ جائیے عنصری نے جو کچھ لکھا وہ خود غرضی سے لکھا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ایرانی ثقافت اور موسیقی کا ’بین الاقوامی سفیر‘ سمجھے جانے والے شجریان کون تھے؟

ایرانی شہنشاہوں کی پرتعیش زندگی کی ایک جھلک

حافظ شیرازی جن کی ’مسلمانوں کے قبرستان‘ میں تدفین پر تنازع ہوا

بہر حال جب وہ غزنی آئے تو ایک باغ میں قیام کیا جہاں اس وقت عنصری، فرخی اور اسجدی جیسے شاعر بھی سیر کو آئے تھے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ تو انھوں نے امتحان کے طور پر ان سے شعر پر مصرع لگانے کو کہا اور یہ سوچا کہ اگر وہ مصرع نہ لگا سکے گا تو خود ہی چلا جائے گا۔ چنانچہ انھوں نے مصرعہ بھی لگایا اور نہایت برجستہ مصرع لگا دیا اور جس کہانی کی جانب اس میں اشارہ تھا تمام شعرا اس سے نابلد تھے چنانچہ انھوں نے فردوسی کو اپنی محفل میں شامل کر لیا۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ باغ کا نہیں بلکہ خود محمود کی مجلس کا تھا اور بادشاہ نے اس پر فردوسی کی خوب تحسین کی اور شاہنامے کا ذمہ دیا۔

لیکن دوسری روایت میں ہے کہ عنصری نے رستم و سہراب کی کہانی پر مبنی چند اشعار کہے جسے بادشاہ نے بہت پسند کیا۔ اس وقت تو فردوسی چپ رہے لیکن چپکے سے رات میں اس داستان کو خود رقم کرنا شروع کیا اور جب حسب معمول سب بادشاہ کے ساتھ رات کے کھانے پر بیٹھے تو فردوسی کے دوست ماہک نے کہا کہ عنصری سے پہلے بھی شعرا نے رستم و سہراب کی داستان نظم کی ہے چنانچہ خود میرے پاس ایک نظم موجود ہے جس کے آگے سب ہیچ ہے اور انھوں نے یہ نظم بادشاہ کو پیش کی جب بادشاہ نے نظم دیکھی تو پوچھا کہ یہ جواہر کہاں سے لائے تو ماہک نے بڑھ چڑھ کر فردوسی کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ان کے اشعار ہیں۔

Getty Imagesمحمود غزنوی کو خلیفہ کی جانب سے خلعت پیش کی گئیشاہنامہ لکھنے کی پیشکش اور انعام

محمود نے انھیں فوراً طلب کیا اور فردوسی سے پوری داستان سنی۔ سب سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔ شبلی لکھتے ہیں کہ 'بادشاہ نے خلعت عطا کیا، شعرا نے تحسین کی صدا بلند کی، عنصری نے بڑھ کر فردوسی کے ہاتھ چوم لیے۔‘

بہرحال محمود نے شاہنامے کا ذمہ فردوسی کے سپرد کیا اور یہ بھی حکم ہوا کہ فردوسی کو ایوان شاہی کے قریب ایک مکان دیا جائے جو تمام ضروری ساز و سامان سے آراستہ ہو اور آلات جنگ، اسلحہ حرب، شاہان عجم اور بہادروں اور پہلوانوں کے مرقعوں اور تصویروں سے سجا دیا جائے اور اس کے لیے ایک ایک شعر پر ایک ایک اشرفی یا سونے کے سکے کا صلہ مقرر ہوا اور حکم ہوا کہ ہزار شعر ہو جائے تو ہزار اشرفیاں عطا کر دی جائیں لیکن فردوسی نے ایک بار کتاب پوری ہونے پر ایک ساتھ اشرفی لینے پر اتفاق کیا۔

شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ فردوسی نے ایسا اس لیے کیا کہ جب وہ اپنے وطن طوس میں تھا تو اکثر ایک چشمے کے کنارے بیٹھا کرتا تھا اور آب رواں سے لطف اٹھاتا تھا۔

چشمے کے اوپر بند تھا جو برسات میں ٹوٹ جاتا تھا اور چشمے کا پانی گدلا ہو جاتا تھا اور فردوسی کی طبیعت اس سے مکدر ہو جاتی تھی تو اس نے اسے پختہ بنانے کا قصد کیا لیکن اتنا مقدور نہ تھا اور جب بادشاہ کی جانب سے صلے کی امید ہوئی تو اسی کی تعمیر کے لیے اس نے یک مشت رقم کی خواہش ظاہر کی۔

وہ غزنی میں مسلسل چار سال رہا لیکن اس کے بعد اس نے طول عرض کا سفر بھی کیا جب 20 سال کی مشقت کے بعد شاہنامہ پورا ہوا تو انھیں سونے کی اشرفی کے بجائے چاندی کے سکے بھیج دیے گئے جو اسے ناگوار گزار اور اس نے تمام اشرفیاں تقسیم کرادیں اور جان بچا کر وہاں سے نکل گیا۔ لیکن بادشاہ غزنی کے خوف سے کوئی بھی سردار انھیں اپنی جگہ پناہ دینے سے گریز کرتا رہا یہاں تک کہ وہ واپس اپنے وطن طوس پہنچ گئے۔

بہر حال دوسری روایتیں بھی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ سلطان محمود کو فردوسی کا کارنامہ پسند نہیں آیا اور اس کی کئی وجوہات بتائی گئی ہیں۔

دولت شاہ نے لکھا ہے کہ چونکہ فردوسی نے ایاز کی طرف کبھی توجہ نہیں کی اس لیے اس نے دراندازی کی اور محمود کو یقین دلایا کہ فردوسی رافضی ہے۔ نظامی عروضی کا کہنا ہے کہ دربار کی اکثریت وزیراعظم حسن میمندی کی مخالف تھا اور چونکہ وہ فردوسی کا مربی و سرپرست تھا اس لیے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اس گروہ نے محمود کے کان بھر دیے کہ فردوسی معتزلی اور رافضی ہے۔

محمود کو پسند نہیں آیا شاہنامہ

شاہنامے کے دیباچے میں درج ہے کہ فردوسی کو خود حسن میمندی نے تباہ کیا کیونکہ وہ اس کی شہرت سے جلنے لگا تھا کیونکہ غزنین اور اطراف کے امرا فردوسی کے لیے تحفے بھیجتے اور شکریے میں محمود ان کے لیے اشعار بھیج دیتے۔

کہتے ہیں کہ حسن مذہبی طور پر خارجی تھا اور فردوسی راسخ العقیدہ شیعہ تھے اس بھی وہ فردوسی کی مخالفت پر اتر آیا تھا۔

تنقید نگاروں نے شاہنامے کے پسند نہ کیے جانے کی یہ بھی توجیہ نکالی ہے کہ شاہ نامے میں فردوسی نے جا بجا خاندانی شرافت نجابت اور حسب نسب کو بہت جوش و جذبے کے ساتھ لکھا ہے اور سلطان محمود چونکہ غلام زادہ تھا اس لیے اسے یہ لگتا تھا کہ حسب و نسب کی خوبی پر زور دینا در اصل اس پر چوٹ کرنا ہے۔

کئی لوگوں نے اس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے کہ محمود نے فردوسی کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ناقدری کی تو اس بابت شبلی نعمانی کا کہنا ہے کہ محمود کے دربار میں بہت سے شیعی علما و فضلا تھے جو نہایت قدر منزلت سے دیکھے جاتے تھے۔

ابو ریحان بیرونی اعلانیہ شیعہ تھے، انھیں محمود نے خود فرمان جاری کر بلا بھیجا تھا اور ان کی نہایت قدردانی کرتا تھا۔ اس کے دربار میں ہندو، مسیحی، یہودی اور دوسرے مذہب و ملت کے اہل کمال تھے تو پھر فردوسی سے وہ اس معاملے میں کیونکر بدظن ہو سکتا تھا۔

شاہنامے میں کیا ہے؟

قیصر احمد بتاتے ہیں کہ اسلام کی فارس میں فتح سے قبل کی داستان اس میں رقم ہے جس میں بادشاہ، وزیر، بہادر، پہلوانوں کے قصے رقم ہیں۔

ڈک ڈیوس کے ترجمے کے تعارف میں آذر نفیسی لکھتی ہیں کہ شاہنامہ فردوسی میں 50 بادشاہوں کا ذکر ہے جس میں سے تین ملکہ یا رانیاں ہیں۔ ان کے سلطنت پر آنے ان کی موت یا تخت سے بے دخل کیے جانے کی داستان کو انتہائی چابکدستی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور کہانی عہد بہ عہد آگے بڑھتی ہے۔

قیصر احمد کا کہنا ہے کہ اس کی ابتدا اساطیری بادشاہ فارس کیومرس سے کی گئی ہے جو کہ سنی سنائی داستان پر مبنی ہے جبکہ مز آذر کا کہنا ہے کہ سکندر اعظم کے عہد کے بعد سے جن بادشاہوں کا ذکر فردوسی نے کیا ہے ان کی تاریخی حقیقت ہے اور وہ بہت حد تک دوسرے ذرائع سے بھی ثابت ہے۔

بہرحال آذر نفیسی لکھتی ہیں کہ انھوں نے تمام بادشاہوں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا ہے کسی کو چند اوراق میں بیان کیا تو کسی پر جلد کی جلد لکھ ڈالی ہے۔

انھوں نے عام طور پر بادشاہ سے زیادہ کہانی کے ہیرو کی تعریف کی ہے اور بادشاہ کو اپنے وزیر سے کم علم اور کم ظرف والا بتایا ہے۔

قیصر احمد بتاتے ہیں کہ اس میں صرف کہانیاں نہیں بلکہ حکمت کی باتیں اور عقل و دانش کی باتیں انتہائی سادہ انداز میں بیان کی گئی ہیں۔ رستم و سہراب کی کہانی کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے اور رستم کی بہادری کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے اس کی وجہ سے وہ اس قدر مشہور ہوئے کہ ان کے نام پر ہندوستان کے معروف گاما پہلوان یا دارا سنگھ کو رستم ہند کا خطاب دیا گیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ فردوسی کی وجہ سے یہ کردار زندہ ہوا اور ان پر کئی زبانوں اور ملکوں میں فلمیں بنائی گئی ہیں اور وہ ہماری اجتماعی آگہی کا حصہ بن گئے ہیں۔

بیٹی نے بھی انکار کر دیا

اب واپس اسی کہانی پر آتے ہیں کہ محمود کو جب یہ احساس ہوا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے تو انھوں نے ہر شعر کے عوض ایک سونے کی اشرفی انھیں بھجوائی لیکن کہا جاتا ہے کہ شہر طوس کے ایک دروازے سے انعام کی رقم ان کے یہاں لے جائی جا رہی تھی اور دوسرے دروازے سے فردوسی کا جنازہ جا رہا تھا۔

صلے کی رقم ان کی بیٹی کی نذر کی گئی کیونکہ فردوسی کو کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی اور جو ایک ہوئی تھی وہ جوانی کے عالم میں فوت ہو گئے جس کے غم میں فردوسی نے مرثیہ لکھا تھا اور انھی کی کنیت ابوالقاسم کے نام سے ان کا نام آج بھی مشہور ہے۔

بہرحال فردوسی کی غیور بیٹی نے وہ انعام لینے سے انکار کر دیا کیونکہ جو ان کے والد کو جیتے جی نہ مل سکا اسے لینے کے لیے ان کی حمیت نے اجازت نہ دی۔ چنانچہ یہ طے کیا گیا کہ ان اشرفیوں سے کار خیر کا کام کیا جائے اور ان کے نام پر ایک سرائے بنوا دی گئی۔

BBCشاہنامے کا ایک منظر

ناصر خسرو نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ جب 430 ہجری میں وہ طوس پہنچے تو انھوں نے ایک بڑی کارواں سرائے دیھکی پوچھا تو معلوم ہوا کہ فردوسی کے صلے کی رقم سے تعمیر ہوئی ہے۔ فرہنگ رشیدی اور چہار مقالہ میں درج ہے کہ اس سرائے کا نام چاہ ہے۔ یہ مرو اور نیشاپور کے راستے میں ہے۔

بہرحال اس بات پر اتفاق ہے کہ فردوسی کی موت سنہ 411 ہجری میں ہوئی جو کہ 1019-20 عیسوی ہے۔ ان کی وفات کے بعد ان پر رافضی ہونے کا الزام لگایا گیا اور کہا گیا کہ انھیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جا سکتا چنانچہ شہر سے باہر انھیں ان کی ہی زمین میں دفن کیا گيا۔ جب محمود کو اس کا علم ہوا تو اس نے واعظ کو شہر سے نکال دیا۔

قیصر احمد نے بتایا کہ انھوں نے سنہ 2014 میں جب طوس کا دورہ کیا تو ان کے مزار پر عقیدت مندوں کو آتے دیکھا جبکہ آذر نفیس لکھتی ہیں کہ سنہ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد فردوسی کی پزیرائی میں کمی آئی ہے جبکہ اس سے پہلے کے دور میں انھیں ایران کے ہیرو کا درجہ حاصل تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More