منی پور میں ایک ماہ سے جاری پُرتشدد واقعات پر ’مودی کی خاموشی سے لوگ مایوس‘

بی بی سی اردو  |  Jun 17, 2023

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں پرتشدد واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ سو سے زیادہ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ 50 ہزار سے زائد بے گھر ہو گئے ہیں، بے شمار لوگوں کے گھر، دکانیں اور یہاں تک کہ عبادت گاہیں جلا دی گئی ہیں۔

ایسے میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی پر لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔ البتہ وزیر داخلہ امت شاہ نے منی پور کا دورہ کیا ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتو بسوا سرما کو منی پور کی دو اہم برادریوں میتئی اور کوکی کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، لیکن منی پور میں تشدد بلا روک ٹوک جاری ہے۔

تازہ ترین واقعات میں مرکزی وزیر آر کے رنجن سنگھ کے امپھال کے کونگبا میں واقع گھر کو جمعرات کی رات آگ لگا دی گئی۔

اس سے قبل بدھ کے روز ایک گاؤں میں مشتبہ شدت پسندوں کے حملے میں کم از کم نو میتئی برادری کے لوگ مارے گئے۔

مرکز اور ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتیں ہیں لیکن پھر بھی تشدد جاری ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری کشیدگی اور تشدد پر قابو پانے میں ناکام ہیں؟

کیا وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ منی پور کے محاذ پر ناکام ثابت ہو رہے ہیں؟

کیا حکومتی اقدامات ناکافی ہیں؟

وزیر داخلہ امت شاہ نے منی پور کے اپنے دورے کے دوران تمام فریقین سے بات کی اور 15 دنوں کے اندر امن بحال کرنے کی اپیل کی۔ لیکن صورت حال صرف بدتر ہی ہوئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حالات کو سدھارنے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت تھی، وہ نہ تو مرکزی حکومت نے اٹھائے اور نہ ہی ریاستی حکومت نے۔

ریاست کے نامبول ضلعے میں قائم سنوئی کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ننگومبام شریما نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ کوکی اور میتئی دونوں برادریوں کے لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ انھیں اپنی حفاظت خود کرنی پڑے گی کیونکہ حکومت ان کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے۔

’اور اسی وجہ سے حالات خراب ہوتے چلے گئے کیونکہ لوگ خود تشدد سے نمٹنے کے لیے تشدد کا ہی سہارا لے رہے ہیں۔'

'بھروسہ ٹوٹ گیا'

ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں برادریوں کے درمیان دیرینہ اختلافات کے باوجود کوکی اور میتئی کمیونٹی ریاست میں پرامن طریقے سے رہ رہے تھے۔

یہاں تک کہ دونوں کے درمیان کاروباری تعلقات بھی رہے ہیں۔ لیکن اب صورتحال ایسی ہو گئی ہے کہ ان کا ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔

کوئی میتئی منی پور کے کوکی اکثریتی علاقے میں قدم رکھنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتا جبکہ دوسری جانب کوئی کوکی بھیمیتئی کے علاقوں میں جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔

ننگومبام شریما کہتی ہیں کہ جب تک مرکزی حکومت بہت سخت مداخلت نہیں کرتی اور ریاستی حکومت عام لوگوں کی حفاظت کے انتظامات نہیں کرتی تشدد کا یہ دور نہیں رکے گا۔

ریاست میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے کارکن کے اونیل کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے ریاست میں جاری تشدد سے نمٹنے میں وہ سنجیدگی نہیں دکھائی جو اسے دکھانی چاہیے تھی۔ وزیر داخلہ امت شاہ کا منی پور کا دورہ بھی محض خانہ پوری تھا۔ انھوں نے کسی ٹھوس اقدامات کی بات نہیں کی۔

امن کمیٹی

مرکزی حکومت کی طرف سے منی پور کی گورنر انوسویا اوئکے کی صدارت میں 51 افراد پر مشتمل امن کمیٹی کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

ایک طرف کوکی قبیلے کی اعلیٰ ترین تنظیم کوکی امپی نے امن کمیٹی کی تشکیل کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ میتی برادری کی قیادت کرنے والی منی پور کی سالمیت کی رابطہ کمیٹی نے اس امن کمیٹی میں شامل نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔

کے اونیل کہتے ہیں: 'صورتحال کو بہتر بنانے کے مقصد سے بنائی گئی امن کمیٹی میں حکومت نے اپنی مرضی کے لوگوں کو شامل کیا ہے۔ اس کمیٹی میں ایک بھی ایسا شخص نہیں ہے جو ریاست اور اس علاقے کے حالات کا ماہر ہو۔ ایسے لوگ جو ریاست کو اچھی طرح سمجھتے ہیں انھیں کمیٹی میں ہونا چاہیے تھا۔ تو اسی بات سے حکومت کی نیتوں کا اندازہ ہو جاتا ہے۔'

ہمنتو بسوا سرما پر عدم اطمینان؟

اب آسام کے وزیر اعلی ہمنتو بسوا سرما کو ریاست منی پور میں میتئی اور کوکی قبیلے کے درمیان نسلی تقسیم کو ختم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ لیکن خود منی پور میں بہت سے لوگ ان سے خوش نہیں ہیں۔

میتئی کمیونٹی کے کچھ دانشوروں کا کہنا ہے کہ مرکزی قیادت کو سمجھنا چاہیے کہ ہمنتو بسوا سرما شمال مشرقی ریاستوں کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔

کے اونیل کہتے ہیں: ہمنتو بسوا سرما یہاں کیا کریں گے؟ وہ یہاں کے مسائل کو نہیں سمجھتے۔ کوئی ان پر بالکل بھروسہ نہیں کرتا۔

لیکن ننگومبام شریما کا کہنا ہے کہ ہمنتو بسوا سرما نے امن کمیٹی سے بات کی ہے۔ وہ اپنی طرف سے کوشش کر رہے ہیں لیکن اصل قدم ریاستی اور مرکزی حکومت کو اٹھانا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

منی پور میں نسلی فسادات کے نتیجے میں کم از کم 54 ہلاک

انڈیا کی دو ریاستوں کے درمیان جھڑپ جو ’دو ملکوں کے درمیان جنگ‘ بن چکی ہے

بی جے پی کیا کہتی ہے؟

دوسری طرف بی جے پی کا کہنا ہے کہ ہمنتو بسوا سرما شمال مشرق کے بڑے لیڈر ہیں اور وہ اس خطے کے مسائل کو سمجھتے ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار دلیپ کمار شرما سے بات کرتے ہوئے منی پور میں بی جے پی کے سینئر ایم ایل اے ایبومچا کا کہنا ہے کہ 'کچھ لوگ ہمنتو کے بارے میں برا بھلا کہہ سکتے ہیں لیکن وہ شمال مشرقی جمہوری اتحاد کے کنوینر ہیں اور شمال مشرق کے رہنما ان کی بات سنتے ہیں۔'

ریاست میں تشدد کی وجہ سے عام لوگوں کو سکیورٹی سے متعلق مسائل کے ساتھ ساتھ انھیں مہنگائی کا بھی سامنا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں کو ادویات کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی جگہوں پر چاول 200 روپے فی کلو کے حساب سے مل رہا ہے۔

وزیر اعظم مودی کی خاموشی

ایک ماہ سے جاری تشدد کے باوجود اب تک وزیر اعظم نریندر مودی نے اس معاملے پر عوامی سطح پر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

کوکی قبیلے کی اعلیٰ طلبہ تنظیم کوکی چھاتر سنگھٹن نے وزیر اعظم کی خاموشی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

کے اونیل کا کہنا ہے کہ 'میتئی اور کوکی دونوں برادریوں کے لوگوں کو دکھ ہوا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اب تک اس مسئلہ پر ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے۔'

ننگومبام شریما کہتی ہیں: 'ہاں، وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی سے لوگوں میں مایوسی ہے، لیکن لوگ ریاستی حکومت سے زیادہ ناراض ہیں۔'

ننگومبام شریما نے مزید کہا: 'لوگ وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ سے بہت ناراض ہیں۔انھوں نے لوگوں کی حفاظت کے لیے کوئی اقدام نہیں کیے۔ میتئی برادری کے 60 میں سے 40 ایم ایل اے ہیں لیکن انھوں نے وزیر اعظم تک ٹھیک طرح سے ان کی بات نہیں پہنچائی۔'

تشدد کیسے شروع ہوا؟

تشدد کا آغاز 3 مئی کو ہوا جب ریاست کے کوکیوں سمیت دیگر قبائلی برادریوں نے میتئی کمیونٹی کو قبیلے کا درجہ دینے کے مطالبے کے خلاف ایک ریلی نکالی جو بعد میں پرتشدد ہو گئی۔

انھوں نے میتئی کمیونٹی پر حملہ کیا۔ اس کے جواب میں میتئی برادری نے بھی جوابی کارروائی شروع کر دی اور میتئی اکثریتی علاقوں میں رہنے والی کوکی برادری پو حملہ کیا اور ان کے گھروں کو جلا دیا۔

ان حملوں کے بعد میتئی اکثریتی علاقوں میں رہنے والے کوکیوں اور کوکی اکثریتی علاقوں میں رہنے والے میتیوں نے اپنا گھر بار چھوڑنا شروع کر دیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاست کے پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کوکی انتہا پسند میتئی کے علاقوں میں فائرنگ کر رہے ہیں جس سے بڑی تعداد میں میتئی کے لوگ مارے جا رہے ہیں۔

حال ہی میں منی پور سے واپس آنے والے بی بی سی کے نامہ نگار نتن سریواستو نے بتایا کہ منی پور میں حالات بہت کشیدہ ہیں۔

نتن نے بتایا کہ ریاستی راجدھانی امپھال میں کافی کشیدگی ہے۔ سی آر پی ایف کے جوانوں نے ہمیں گاڑی سے باہر نہ نکلنے کی سخت ہدایات دیں۔ تشدد کے پیمانے پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ کوکی اور میتئی برادریوں کے درمیان باہمی دشمنی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی لگتا ہے کہ تشدد میں باہر کے شدت پسند عناصر بھی ملوث ہیں۔ ان کے پاس جدید ترین ہتھیار بھی ہو سکتے ہیں۔'

اس وقت ریاست میں 40 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حالات کتنے خراب ہیں۔

کوکی اور میتئی کے درمیان تنازع

منی پور میں بنیادی طور پر تین برادریوں کے لوگ رہتے ہیں۔ میتئی اور قبائلی گروہ کوکی اور ناگا۔ کوکی، ناگا سمیت دیگر قبائل کے لوگ پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ جبکہ میتئی کی اکثریت وادی امپھال میں رہتی ہے۔ میتئی برادری کے زیادہ تر لوگ ہندو ہیں۔

جبکہ ناگا اور کوکی برادری کے لوگ بنیادی طور پر عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

آبادی میں زیادہ ہونے کے باوجود میتئی منی پور کے 10 فیصد علاقے میں رہتے ہیں، جبکہ باقی 90 فیصد میں ناگا، کوکی اور دیگر قبائل آباد ہیں۔

منی پور کے موجودہ قبائلی گروہوں کا کہنا ہے کہ میتئی آبادی والے زیادہ سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پڑھنے لکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات میں بھی آگے ہیں۔

منی پور کے کل 60 ایم ایل اے میں سے 40 ایم ایل اے میتئی کمیونٹی سے آتے ہیں۔ باقی 20 کا تعلق ناگا اور کوکی قبائل سے ہے۔ اب تک 12 وزرائے اعلیٰ میں سے صرف دو قبائل سے تھے۔

ایسے میں یہاں کے قبائلی گروپوں کو لگتا ہے کہ ریاست میں میتئی لوگوں کا غلبہ ہے۔

اس کے ساتھ انھیں یہ بھی تشویش ہے کہ اگر میتیوں کو بھی قبیلے کا درجہ مل جاتا ہے تو ان کے لیے روزگار کے مواقع کم ہو جائیں گے اور وہ پہاڑوں پر بھی زمین خریدنا شروع کر دیں گے۔ ایسی صورت حال میں وہ مزید پسماندہ ہو جائیں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More