Reuters
’کچھ دیر پہلے میری ملاقات اپنے 22 سالہ بھانجے سے ہوئی ہے جو اس کشتی حادثے میں زندہ بچ گیا ہے۔‘
راجہ فریاد خان نے بی بی سی کو اپنی کہانی سنانے کی ابتدا کچھ یوں کی۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی سے تعلق رکھنے والے راجہ فریاد اس وقت یونان کے کالاماتا ساحل پر موجود ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ جیسے ہی انھیں جنوبی یونان میں پناہ گزینوں کی کشتی الٹنے کا علم ہوا تو وہ برطانیہ کے شہر شیفیلڈ سے یہاں پہنچ گئے کیونکہ کشتی پر ان کے چند رشتہ دار اور علاقے کے لوگ بھی سوار تھے۔
یاد رہے 14 جون کو جنوبی یونان کے ساحل پر ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والیکشتی ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا تھا جسے یورپ میں تارکین وطن کو پیش آنے والے بدترین واقعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ کشتی ڈوبنے کے اس واقعے میں اب تک کم از کم 78 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ بیشتر لوگ اب بھی لاپتہ ہیں۔
رپورٹس کے مطابق اس کشتی پر 750 سے زیادہ افراد سوار تھے جن میں سے 100 کے لگ بھگ بچے ہو سکتے ہیں۔ یونانی حکام اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کہ اس کشتی پر بڑی تعداد میں تارکین وطن سوار تھے۔
یونان نے اسے تاریخ کے سب سے بڑے کشتی حادثوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
کشتی پر پاکستانی شہریوں کی موجودگی کے خدشاتBBCراجہ فریاد خان کا دعویٰ ہے کہ کشتی پر ان کے 14 سے زیادہ رشتہ دار سوار تھے
بی بی سی نے ایسے تین پاکستانی نژاد شہریوں سے یونان کے ساحل پر گفتگو کی ہے جنھیں خدشہ ہے کہ اس کشتی پر ان کے پاکستانی رشتہ دار بھی سوار تھے جو اب لاپتہ ہیں۔
راجہ فریاد کے مطابق اس کشتی پر اُن کے علاقے کوٹلی سے تعلق رکھنے والے 14 سے 15 لڑکے سوار تھے۔ انھوں نے بتایا کہ بچ جانے والے دو لڑکوں سے ان کی ملاقات ہوئی ہے، جن میں سے ایک ان کا 22 سالہ بھانجا ہے۔
’انھوں (بھانجے) نے مجھے بتایا کہ ہم کشتی میں سوار تھے، کشتی ہچکولے کھا رہی تھی اور پھر وہ ایک جانب الٹ گئی اور تمام لڑکے (پانی میں) ڈوب گئے۔ ریسکیو والے آئے اور انھوں نے ہمیں بچا لیا۔۔۔ (بھانجے نے مجھے بتایا کہ) ہمیں نہیں معلوم کون بچا ہے اور کون نہیں بچ سکا۔‘
یاد رہے کہ اس واقعے میں زندہ بچ جانے والوں کو ساحل کے قریب واقع کیمپ میں رکھا گیا ہے جبکہ چند افراد زیرعلاج ہیں۔
راجہ فریاد خان نے کہا کہ ’میں نے اُن سے (ساحل پر موجود حکام سے) کہا کہ میں اس (بھانجے) کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتا ہوں، لیکن انھوں نے مجھے تصویر بنانے کی بھی اجازت نہ دی۔‘
نمائندہ بی بی سی کے مطابق جب راجہ فریاد اپنے بھانجے سے ملاقات کے بعد کیمپ سے نکلے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے تاہم انھیں ضبط کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اپنے رشتے داروں سے متعلق تفصیلات فراہم کر رہے تھے۔
Reuters
انھوں نے کہا کہ انھیں خدشہ ہے کہ اس کشتی پر ان کے ’14 سے زیادہ رشتہ دار سوار تھے، کئی کے بارے میں ہمیں علم نہیں کہ آیا وہ اسی کشتی پر سوار تھے بھی یا نہیں۔‘
’میں نے اپنے بھانجے سے پوچھنا چاہا کہ آپ کے ساتھ کون کون تھا مگر سکیورٹی اہلکار جلدی میں تھا، وہ انھیں اپنے ساتھ اندر لے گیا اور وہ کچھ زیادہ نہ بتا سکا۔‘
اسی طرح پاکستانی نژاد برطانوی شہری آفتاب بھی اس وقت یونان کے ساحل پر موجود ہیں۔ انھوں نے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے رشتہ دار کشتی پر سوار تھے۔‘
آفتاب جو اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں برطانیہ سے یونان پہنچے ہیں، نے کہا کہ پاکستان سے آنے والے اُن کے کم از کم چار رشتہ دار لاپتہ ہیں۔
’ہمیں تصدیق ہو گئی ہے۔ ہم نے زندہ بچ جانے والے اپنے ایک رشتہ دار کو ریسکیو سینٹر میں ڈھونڈ نکالا ہے، مگر باقیوں کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔‘
جبکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے 35 سال کے فہد رؤف نے کہا کہ وہ یونان ہی میں مقیم ہیں اور وہ بھی اپنے چار لاپتہ رشتہ داروں کو ڈھونڈ رہے ہیں جو ممکنہ طور پر اس کشتی پر سوار تھے۔
Reutersشام سے تعلق رکھنے والے 34 سال کے قاسم کا کہنا ہے کہ کشتی سوار ان کی اہلیہ تاحال لاپتہ ہیں’کشتی کے نچلے حصے میں 100 کے قریب بچے موجود ہو سکتے ہیں‘
امدادی کارکن اب بھی اس سمندری علاقے کی تلاش کر رہے ہیں جہاں کشتی جنوب مغربی ساحل سے تقریباً 50 سمندری میل کے فاصلے پر الٹ گئی تھی، کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کی امیدیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔
اس واقعے پر یونان کے کوسٹ گارڈز کو کشتی پر سوار افراد کی مدد نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تاہم اب یونان میں حکام کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے امداد کی پیشکش کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
یونان کے ایک ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اس واقعے کے تناظر میں کم از کم 11 گرفتاریاں کی گئی ہیں جن میں سے زیادہ تر مصری شہری ہیں۔
یہ کشتی لیبیا کی بندرگاہ توبروک سے اٹلی جا رہی تھی جس دوران یہ سمندر میں غرقاب ہو گئی۔
BBC
اس حوالے سے سامنے آنے والی تصاویر میں کشتی کی ڈیکس کو لوگوں سے بھرا ہوا دکھایا گیا ہے۔ کالاماتا جنرل ہسپتال کے ایک سینیئر ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ کشتی پر 100 بچے سوار تھے۔
ہیڈ آف کارڈیالوجیڈاکٹر ڈاکٹر منولس ماکاریس کے مطابق ’(زندہ بچنے والوں) نے ہمیں بتایا کہ کشتی کے نچلے حصے میں بچے موجود تھے۔ بچے اور خواتین۔‘
انھوں نے کہا کہ دو زیر علاج بچ جانے والوں نے انھیں اپنے اندازے کے مطابق اعداد و شمار بتائے ہیں۔ ’ایک مریض نے مجھے بتایا کہ کشتی پر لگ بھگ 100 بچے تھے۔ دوسرے مریض نے کہا کہ 50 کے لگ بھگ۔ اس لیے میں سچ نہیں جانتا، لیکن یہ (بچے) بہت ہیں۔‘
ڈاکٹر ماکاریس نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اس واقعے میں 600 سے زیادہ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کشتی پر سوار تمام افراد کی صحیح تعداد 750 تھی۔
انھوں نے کہا کہ لاپتہ ہونے والے کچھ مصری بچوں کے اہلخانہ نے انھیں اپنے نوجوان رشتہ داروں کی تصاویر بھیجی تھیں اور امید ہے کہ وہ ان کا علاج کرنے کے بعد شناخت کے عمل کے دوران انھیں پہچان لیں گے۔
انھوں نے کہا کہ یہ ایک المیہ تھا۔ ’یورپ میں ہر ایک کو اس صورتحال کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔ ہر کسی کو کچھ کرنا ہے تاکہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔‘
یونان کے ایک چینل نے ایک رپورٹر نے ایک زندہ بچ جانے والے سے پوچھا کہ کیا جہاز میں 100 بچے تھے، جس پر زندہ بچ جانے والے نے جواب دیا: ’ہاں۔‘
بی بی سی آزادانہ طور پر ان اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کر سکا ہے، لیکن اس کی تصدیق چیریٹی سیو دی چلڈرن نے کی، جس میں زندہ بچ جانے والوں کی شہادتوں کا حوالہ دیا گیا۔
EPAاب تک 100 سے زیادہ لوگوں کو ڈوبنے سے بچایا گیا ہے
یونانی حکومت کے ترجمان الیاس سیکانتارس نے کہا کہ یہ معلوم نہیں ہے کشتی پر کتنے لوگ سوار تھے، ’لیکن ہم جانتے ہیں کہ کئی سمگلر لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لیے بند کر دیتے ہیں۔‘
لاپتہ ہونے والوں میں سے کچھ کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی تلاش میں یونان پہنچ چکے ہیں۔
نیدرلینڈ سے آنے والے ایک شامی نژاد شہری نے بتایا کہ اس کی بیوی اور بہنوئی لاپتہ ہیں۔
سماجی کارکن نوال صوفی وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے منگل کی صبح کشتی پر سوار لوگوں سے رابطے کے بعد سب سے پہلے ممکنہ خطرے کی اطلاع دی تھی۔
یونان کے ساحل پر موجود کوسٹ گارڈ نے کہا کہ ماہی گیری کی کشتی سے ابتدائی رابطہ منگل کو مقامی وقت کے مطابق دن دو بجے پر کیا گیا تھا، اس رابطے کے دوران مدد کی کوئی درخواست نہیں کی گئی تھی۔
یونان کی وزارت جہاز رانی کے مطابق اس کشتی سے بارہا رابطہ کیاگیا تاہم کشتی والوں نے کہا کہ وہ اٹلی جانا چاہتے ہیں۔
ایک فیس بک پوسٹ میں نوال صوفی نے اطلاع دی کہ شام کے اوقات میں دو پانی فراہم کرنے والے تجارتی جہازوں نے اس کشتی کو پانی فراہم کیا اور صورتحال اس وقت پیچیدہ ہوئی جب اس دوران ایک جہاز کی جانب سے پانی کی بوتلیں پھینکنے کے دوران کشتی پر رسیاں بھی پھینکی گئیں۔
کشتی میں موجود کچھ لوگوں نے اس خدشے کی وجہ سے ’انتہائی خطرے‘ میں محسوس کیا تھا کہ رسیوں اور پانی کی بوتلوں کی حصول کے لیے ہونے والی لڑائی کے باعث کشتی ڈوب سکتی ہے۔ پانی دینے کے بعد یہ تجارتی جہاز وہاں سے چلے گئے۔
کوسٹ گارڈ نے کہا کہ بدھ کی صبح کشتی کا انجن خراب ہو گیا اور اس میں سوار لوگوں نے ادھر ادھر جانا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں افراتفری مچی اور کشتی الٹ گئی۔ اب تک زندہ بچ جانے والے 104 افراد میں تمام کے تمام مرد ہیں۔