کیا اچھا لباس پہننا آج بھی بطور ’خفیہ ہتھیار‘ آفس میں آپ کی کامیابی کا ضامن بن سکتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 14, 2023

Getty Images

گھر سے ویڈیو کانفرنس پر کام کرنے کی روایت نے ایک نئے رواج اور سوال کو جنم دیا ہے کہ ہم دفتری کام کے لیے کس طرح کے کپڑے پہنتے ہیں اور کیا اب زیادہ تیار ہونے کی ضرورت نہیں رہی؟

انشورنس کمپنی ’سائٹ کنفیوزڈ ڈاٹ کام‘ کی سی ای او لوئیز او شیا کا کہنا ہے کہ ’کورونا کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ روزانہ زیادہ تیار ہونے کی ضرورت نہیں رہی، خصوصاً جب ہم نے گھر سے کام کے دوران سب کو حقیقی زندگی کے روپ میں دیکھ لیا ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی تیار ہوتی ہیں کیونکہ ’میں اس سے لطف اندوز ہوتی ہوں اور یہ ایک معمول بن چکا ہے جس سے مجھے اپنی بہترین شخصیت کو سامنے لانے کا موقع ملتا ہے۔‘

برطانوی اشتہار بنانے والی ایجنسی اوگلیوی کی سی ای او فیونا گورڈن اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ’میرا خیال ہے کہ اب پہلے کی نسبت سادہ کپڑے پہنے جا سکتے ہیں۔‘

’کورونا کی وبا نے پرانے تصور کو بدل دیا ہے لیکن میرے لیے کسی اہم کام سے پہلے توانا محسوس کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہ احساس مجھے اپنے کپڑوں سے ملتا ہے۔‘

’مثال کے طور پر لپ سٹک لگانا میرے لیے اعتماد کا اظہار ہے۔‘

یہ دونوں خواتین سی ای او اس سوال کا سامنا کر رہی ہیں کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں کام کرنے کا روایتی طریقہ کم ہوتا جا رہا ہے، ایسے میں اپنے آپ کو کیسے سنجیدہ طریقے سے پیش کیا جائے؟ اور کیا بڑے عہدوں پر موجود لوگ بھی سادگی اپنانے پر تیار ہیں؟

مانچسٹر کی پیننسولا کمپنی کے سی ای او پیٹر ڈن ابھی اپنا سوٹ چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں روز سوٹ پہن کر آفس جاتا ہوں۔ اس سے ایک مخصوص پیمانہ ظاہر ہوتا ہے جو میں نے اپنے لیے ذاتی طور پر اور کام کے لیے طے کر رکھا ہے۔ ایک سی ای او کی حیثیت سے مجھے مثال قائم کرنی ہوتی ہے۔ اگر میں چاہتا ہوں کہ دفتر میں باقی لوگ بھی بن سنور کر آئیں تو مجھے بھی ایسا ہی کرنا ہو گا۔‘

یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ کورونا کی وبا نے توقعات کو بدل دیا ہے اور ملازمین کو اب اتنا تیار رہنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، ان کا ماننا ہے کہ بہتر پہناوا ذہن کو کام کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔

’میرے خیال میں اچھے کپڑے پہننا ایک اچھی عادت ہے۔ اس سے اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ آپ صارفین کا خیال کرتے ہیں اور ان پر اچھا اثر پڑتا ہے۔‘

BBCبرطانوی اشتہار بنانے والی ایجنسی اوگلیوی کی سی ای او فیونا گورڈن: ’میرا خیال ہے کہ اب پہلے کی نسبت سادہ کپڑے پہنے جا سکتے ہیں‘

’اگر کوئی پھٹی پرانی جینز پہن کر آ جائے یا پھر چپل پہنے ہوئے دفتر میٹنگ میں آئے تو میرے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ ’آپ کو پرواہ نہیں ہے‘۔ پہلا تاثر اہم ہوتا ہے اور ایک اچھا تاثر چھوڑنے کا ایک ہی موقع ملتا ہے۔‘

بین وائٹر بھی ایک کنسلٹنسی فرم کے سی ای او ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی باس کے لیے ضروری ہے کہ انسان روبوٹ کی طرح کا نہ نظر آئے اور اس کے گرد لوگ اس کی موجودگی میں آرام دہ محسوس کریں۔

ان کا موقف ہے کہ مردوں کے لیے سوٹ اور ٹائی پہننے کا رواج تو بہت پہلے ہی سے دم توڑ رہا تھا۔

’اب سوٹ کو ایک قابل بھروسہ شخص کا یونیفارم نہیں تسلیم کیا جاتا۔‘

تاہم پیٹر ڈن اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ’سوٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ تو انفرادی ساکھ کا سوال ہے۔‘

تو پھر ایک رہنما کو کیا پہننا چاہیے؟

کسی بھی سی ای او کا کردار، اور اس سے جڑی توقعات کا دارومدار، کمپنی کے سائز پر ہوتا ہے۔ ان کے کپڑوں کا بھی اس سے تعلق ہے۔

نسبتا چھوٹی کمپنیوں کے افسران الگ تھلگ نظر آنے کے خواہش مند نہیں ہوتے لیکن ان کی یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ لوگ ان سے متاثر ہوں اور نئے صارف اور سرمایہ کار جلد ان پر اعتبار کریں۔

جوئیل ریمی پارکس نے بچوں کا سامان بیچنے کے چھوٹے سے کاروبار کو جلد ہی ایک کامیاب کاروبار میں بدل دیا۔

وہ ایک ایسی جگہ کام کرتے ہیں جہاں آپ کو مشکل سے ہی کوئی سوٹ یا ٹائی پہنے نظر آئے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن نے سب کو ضرورت کا عادی بنا دیا اور کپڑوں کے معاملے میں ایک نیا رواج شروع ہوا۔

وہ اس رواج کے حق میں ہیں لیکن ان کے خیال میں نئے لوگوں سے ملاقات میں ایک مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔

’اگر میں نے کسی سرمایہ کار یا ممکنہ پارٹنر سے ملنا ہو، تو میں ٹی شرٹ پہن کر جانے سے ہچکچاؤں گا۔ لیکن دوسری طرف، اگر وہ بھی ایسا ہی کچھ پہن کر آئیں گے تو مجھے اچھا لگے گا۔‘

یہ ایک خوش آئند رواج لگتا ہے لیکن کیا اس میں صنفی برابری بھی ہے؟

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ مرد سی ای او کے لیے اس رواج کو اپنانا آسان ہے۔ لوئیز او شیا کہتی ہیں کہ خواتین پر بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔

’اکثر جب میں انٹرویو دیتی ہوں، تو میرے بارے میں کمنٹس آتے ہیں خصوصاً بالوں کے بارے میں۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن میں یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہو جاتی ہوں کہ کیا میرے مرد ساتھیوں کے ساتھ بھی ایسا کبھی ہوا ہو گا؟‘

’نہیں ہوتا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر میں بال بنائے بغیر ٹی وی پر آ جاؤں تو کیسا رد عمل ہو گا؟ کیا میں ایک ایسی سی ای او سمجھی جاؤں گی جو کوشش نہیں کرنا چاہتی؟ یا ایک ایسی سی ای او جو پرانی توقعات کو چیلنج کرنا چاہتی ہے؟‘

لیکن ایسی رائے سب کی نہیں ہے۔ فیونا گورنڈن کا کہنا ہے کہ اس رواج میں خواتین کے لیے چند غیر متوقع مثبت چیزیں بھی ہیں۔

’آپ کہہ سکتے ہیں کہ خواتین کے پاس لباس کے معاملے میں مردوں کی نسبت زیادہ انتخاب کا راستہ ہوتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ آپ کے پاس اپنی شخصیت کے اظہار کا موقع ہے جو یادگار ہو سکتا ہے۔‘

سارہ سیمونڈز ایک سابق فیشن انٹرپریونر ہیں جو اب سی ای او کے عہدے کے لوگوں کو کوچنگ دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سٹائل کے معاملے میں مرد اور خاتون کو ایک ہی پیمانے پر ناپا جاتا ہے۔

’ہم صرف ان لوگوں کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتے ہیں جن پر ہم اعتماد کر سکیں۔ اور پہلا تاثر لباس سے قائم ہوتا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ آپ کی صنف کیا ہے۔‘

’آپ کیا پہنتے ہیں اس سے فرق نہیں پڑتا لیکن آپ جو بھی پہنیں سوچ سمجھ کر پہنیں۔‘

’زیادہ سادہ لباس سے لوگ آپ کے ساتھ آرام دہ ہو سکتے ہیں لیکن پہلا تاثر پھر بھی اہم ہے۔ اچھی جینز یا ٹی شرٹ اہم ہو گی۔ اور آپ کو کسی ایسی چیز کو لباس میں شامل کرنا چاہیے جو آپ کی شخصیت کی آئینہ دار ہو، جو آپ کا سٹائل بنے۔‘

’آپ کا لباس آپ کا خفیہ ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے جو کاروبار میں مدد دے سکتا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More