دنیا میں بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جن کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کو علم نہیں ہوتا کیونکہ یہ نایاب ہوتی ہیں جو ہزاروں لاکھوں میں کسی ایک کو ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک نایاب بیماری میں مبتلہ لڑکے کی کہانی آج ہم آپ کے ساتھ شئیر کرنے جارہے ہیں۔
یہ کہانی ہے برازیل کے 23 سالہ لوز آگسٹو مارسیو مارکیوس کی جنھیں گٹو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ 7 سال کی عمر تک ایک عام بچے کی طرح زندگی گزارنے کے بعد اچانک اس کے سر میں شدید درد رہنے لگا جس کے بعد اسے دماغ میں رسولی کی تشخیص ہوئی۔ یہ وہ مرض تھا جو دس لاکھ میں سے صرف ایک شخص کو ہوتا ہے۔
گٹو نے بتایا کہ، جب میں اسکول میں تھا تو مجھے سر میں درد رہنے لگا، جس کی وجہ سے میں پڑھائی نہیں کر سکتا تھا۔ ڈاکٹرز کو دکھایا تو کچھ نے کہا کہ مجھے نفسیاتی مسئلہ ہے، میں کاہل ہوں، جبکہ کچھ دوسرے ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ صرف ایک وائرس ہے۔
جب یہ مسئلہ بڑھا تو اسے شہر کے ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر یہ جاننے میں کامیاب ہو گئے کہ گٹو کو آخر مسئلہ کیا ہے۔ اسے "کرینیوفرینگیوما" نامی مرض لاحق تھا۔
ڈاکٹروں نے گھر والوں کو بتایا کہ اسکا آپریشن کرنا پڑے گا، اور یہ خطرناک ہے کیونکہ اس میں اسکی جان بھی جاسکتی ہے۔ لیکن چونکہ ٹیومر کو ایسے ہی چھوڑا نہیں جاسکتا تھا اسلیئے اسکی سرجری کروائی گئی۔
گٹو نے بتایا کہ، سرجری کے بعد میرے بہت سے ٹیسٹ کیے گئے کیونکہ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اسکے بعد میری نشوونما رک جائے گی لیکن وہ (ڈاکٹر) یہ نہیں جانتے تھے کہ میں کب اور کس عمر یعنی 8، 9 یا 10 سال کی عمر میں بڑھنا بند کر سکتا ہوں۔ آخر کار 12 سال کی عمر میں میری نشوونما ہونا رک گئی۔ ٹیومر (رسولی) کو آپریشن کے ذریعے ہٹانے نے دماغ کے ایک اہم پٹیوٹری غدود کو متاثر کیا تھا۔ یہ غدود دوسرے جسمانی کاموں کے ساتھ ساتھ انسان میں گروتھ ہارمون پیدا کرنے کا کام کرتا ہے۔
ایک اور سرجری سے گروتھ ہارمونز یعنی نشوونما بڑھانے والے ہارمونز کو بڑھایا جا سکتا تھا لیکن اس سے یہ خطرہ تھا کہ گٹو کے دماغ میں موجود رسولی بھی بڑھے گی۔ لہذا یہ خطرہ مول نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔
اپنی نوجوانی میں جب گٹو کو یہ احساس ہوا کہ اسکی ظاہری حالت میں تبدیلی نہیں آ رہی تو اس وقت گٹو کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا اپنی ظاہری حالت کو تسلیم کرنا۔ تاہم، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، گٹو نے اپنی ظاہری حالت کو قبول کیا اور اپنے خاندان کی طرف سے انھیں ملنے والی محبت کی بدولت، آج وہ خوش ہے۔
مجموعی طور پر اسکا علاج 15 سال تک علاج چلا، جس میں 7 بار کیموتھراپی اور سر کی 12 سرجریاں شامل تھیں۔ تاہم اسکے دماغ میں موجود ٹیومر 100 فیصد ختم نہیں ہوا تھا۔ گٹو نے 2015 میں کیموتھراپی کروانا بند کر دی تھی اور آج بھی ان کے سر میں ایک مٹر کے سائز جتنا ٹیومر موجود ہے لیکن اب انھیں سر درد نہیں۔