کسان احتجاج کے دوران’انڈیا نے ٹوئٹر کو بند کرنے کی دھمکی دی تھی‘: جیک ڈورسی

بی بی سی اردو  |  Jun 13, 2023

Getty Imagesڈورسی نے الزام لگایا کہ انڈین حکومت نے ٹوئٹر پر مواد کو سنسر کرنے کی بار بار درخواستیں کیں

ٹوئٹر کے بانی اور سابق سی ای او جیک ڈورسی نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ انڈیا میں کسانوں کی تحریک کے دوران حکومت نے انہیں ٹوئٹر بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔

انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ ان سے کئی ایسے انڈین صحافیوں کے اکاؤنٹس بند کرنے کو کہا گیا جو حکومت کے ناقدین تھے۔

انڈیا کی حکومت نے جیک ڈورسی کے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ مودی حکومت میں الیکٹرانکس اور ٹیکنالوجی وزیر راجیو چندر شیکھر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انڈیا میں نہ تو ٹوئٹر کے دفتر پر چھاپہ مارا گیا اور نہ ہی کسی کو جیل بھیجا گیا۔

واضح رہے کہ 2021 میں دہلی پولیس نے ٹویٹر کے دہلی آفس کا دورہ کیا تھا جسے اس نے ’سروے‘ اور ’روٹین پراسیس‘ کہا تھا۔ پولیس کا یہ دورہ ٹوئٹر کے ذریعے بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا کے ایک ٹوئیٹ کو ’مینیپولیٹیڈ میڈیا‘ کے طور پر ٹیگ کرنے کے محض چند گھنٹوں کے بعد ہوا تھا۔

جیک ڈورسی نے اس انٹرویو کے دوران انڈیا کے علاوہ ترکی اور نائجیریا کا بھی ذکر کیا جہاں کپمنی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جیک ڈورسی کے تبصروں نے ایک بار پھر مودی کے دور حکومت میں فعال غیر ملکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو درپیش جدوجہد پر روشنی ڈالی ہے۔ مودی حکومت نے اکثر گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر کو اپنے پلیٹ فارمز پر جعلی یا ’انڈیا مخالف‘ مواد سے نمٹنے کے لیے ناکافی کوشس کرنے، یا قواعد کی تعمیل نہ کرنے پر تنقید کی ہے۔

Getty Imagesکروڑوں انڈینٹوئٹر استعمال کرتے ہیںجیک ڈورسی کا دعویٰ اور حکومت کی تردید

واشنگٹن میں مقیم یوٹیوب چینل سے انٹرویو کے دوران جیک ڈورسی سے پوچھا گیا کہ ’دنیا بھر سے طاقتور لوگ آپ کے پاس آتے ہیں اور ہر طرح کے مطالبات کرتے ہیں، آپ اخلاقی اصولوں پر یقین رکھتے ہیں تو آپ ان حالات سے کیسے نکلتے ہیں؟‘

اس سوال کے جواب میں انہوں نے انڈیا کی مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر انڈیا ایک ایسا ملک ہے جہاں سے کسان تحریک کے دوران ہمارے پاس کئی مطالبات آ رہے تھے۔ بعض صحافی جو کہ حکومت کے ناقدین تھے، ان کے بارے میں، ایک طرح سے ہمیں کہا گیا کہ ہم انڈیا میں ٹوئٹر کو بند کردیں گے، انڈیا ہمارے لیے ایک بڑی مارکیٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ’ ہم سےکہا گیا کہ اگر آپ نے ہماری بات نہ سنی تو آپ کے ملازمین کے گھروں پر چھاپے ماریں گے، ہم آپ کا دفتر بند کر دیں گے۔‘ انہوں نے مزید کہا ’یہ سب انڈیا میں ہو رہا تھا، جو ایک جمہوری ملک ہے۔‘

ان کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے انڈیا کے الیکٹرانکس اور ٹیکنالوجی کے وزیر مملکت راجیو چندر شیکھر نے کہا ہے کہ یہ ٹوئٹر کی تاریخ کے ایک مشکوک دور پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیک ڈورسی کی قیادت میں ٹوئٹر اور ان کی ٹیم مسلسل انڈین قوانین کی خلاف ورزی کر رہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ 2020 اور 2022 کے درمیان اس نے انڈیا کے قوانین پر عمل نہیں کیا۔ ٹویٹر نے بالآخر جون 2022 میں قوانین کی تعمیل کی۔

کسانوں کی تحریک کے دور کا ذکر کرتے ہوئے راجیو چندر شیکھر نے کہا، ’جنوری 2021 کے مظاہروں کے دوران بہت سی گمراہ کن معلومات تھیں اور یہاں تک کہ قتل عام کی خبریں بھی آرہی تھیں جو کہ بالکل جعلی تھیں۔ حکومت ہند اس طرح کی معلومات کو پلیٹ فارم سے ہٹانے کے لئے پابند تھی کیونکہ اس طرح کی جعلی خبریں صورتحال کو مزید خراب کر سکتی ہیں‘۔

انہوں نے ٹوئٹر پر امتیازی رویہ اپنانے کا الزام لگاتے ہوئے امریکہ میں ہونے والی پیش رفت کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا، ’جیک کے دور میں ٹوئٹر کا امتیازی رویہ اس سطح پر تھا کہ انہیں انڈیا میں گمراہ کن معلومات کو ہٹانے میں مسئلہ تھا لیکن امریکہ میں نہیں‘۔

یہاں یہ واضح کر دیں کہ اپریل میں جاری ٹوئٹر کی ’ٹرانسپیرینسی رپورٹ‘ کے مطابق انڈیا ٹوئٹر سے مواد ہٹانے کے مطالبے کے معاملے میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔

ٹوئٹر کا حکومت ہند کے سے ٹکراؤ

کسان تحریک کے دوران اکاؤنٹ پر پابندی کے وقت ٹوئٹر اور حکومت ہند کے درمیان ٹکراؤ کی خبریں بھی آئی تھیں۔ انڈیا کے اس وقت کے مرکزی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی روی شنکر پرساد نے بھی فروری 2021 میں ٹوئٹر پر دوہرا معیار اپنانے کا الزام لگایا تھا۔

2021 کے یوم جمہوریہ کے دن دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کرنے والی کسان تنظیموں نے 'ٹریکٹر پریڈ' کا اہتمام کیا تھا، اس دوران دارالحکومت کے مختلف حصوں میں پُرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے۔ لیکن سب سے زیادہ چرچا دہلی کے لال قلعہ اور ارد گرد ہوئے تشدد پر ہوئی جس کے بعد حکومت نے ٹوئٹر کو تقریباً 1100 اکاؤنٹس بلاک کرنے کی ہدایت کی تھی۔

حکومت نے دعویٰ کیا کہ ان میں سے زیادہ تر اکاؤنٹس خالصتان کے حامیوں یا ایسے لوگوں کے ہیں جو کسانوں کے کئی مہینوں سے جاری احتجاج یا یوم جمہوریہ پر ہونے والے تشدد کے بارے میں غلط خبریں اور معلومات پھیلا رہے ہیں۔

حکومت کی ہدایات کے بعد ٹوئٹر نے کچھ اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا تاہم بعد میں اس نے ان میں سے کئی اکاؤنٹس کو بحال کر دیا۔

اس کے بعد ٹوئٹر کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ میڈیا والوں، صحافیوں، سماجی کارکنوں اور سیاست دانوں کے اکاؤنٹس پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس وقت ٹوئٹر نے کہا تھا کہ ’ہم آزادی اظہار کی وکالت جاری رکھیں گے اور ہم انڈین قانون کے مطابق اسکا راستہ بھی نکال رہے ہیں‘۔

سوشل میڈیا پر سوالات

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تنازعہ کہ وجہ انٹرنیٹ سے متعلق ایک نیا قانون ہے جو ٹوئٹر اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو حکومت کی براہ راست نگرانی میں لاتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ قوانین کا مقصد غلط معلومات اور نفرت انگیز تقاریر سے نمٹنا ہے لیکن ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ سنسرشپ کا باعث بنے گا۔

جیک ڈورسی کے حالیہ انٹرویو نے ناقدین کے ان سوالات کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔

یوتھ کانگریس لیڈر سری نواس بی وی نے جیک کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا، ’مدر آف ڈیموکریسی – انفلٹرڈ جبکہ صحافی رانا ایوب نے جیک ڈورسی کے الزامات کو 'مہلک' قرار دیا ہے۔

اسی دوران سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے جیک ڈورسی کا بیان ٹوئٹر پر شیئر کیا اور نشاندہی کی کہ ’حکومت ہند نے ٹوئٹر سے کسانوں کی تحریک اور حکومت کے ناقدین کو بلیک آؤٹ کرنے کو کہا‘۔

کانگریس کے ایک رہنما اور کانگریس صدر ملک ارجن کھرگے کے دفتر سے منسلک گورو پادھی نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ’یہ ایک اور واضح پیغام ہے کہ مودی اور (وزیر داخلہ امیت) شاہ آزادی اظہار سے کتنے خوفزدہ ہیں‘۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More