انڈیا کا وہ تاریخی شہر جہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا اور وہ عبادت گاہ جہاں روزانہ ایک لاکھ لوگ لنگر کرتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Jun 13, 2023

سکھ مذہب کے قلب کے طور پر مشہور شمالی انڈیا کا شہر امرتسر اپنی سخاوت کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹمپل گرودوارے میں ایک دن میں ایک لاکھ لوگوں کو مفت کھانا کھلایا جاتا ہے۔

20 لاکھ کی آبادی والا شہر امرتسر مختلف چیزوں کے لیے مشہور ہے۔ جہاں ایک طرف اس کے لذیذ کھانے ہیں وہیں تاریخی پرانا شہر اور سکھ مذہب کی سب سے اہم عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل بھی ہے۔ لیکن گرودوارے سے لے کر گلیوں میں موجود لوگوں تک ہر جگہ جو چیز سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ سخاوت کا جذبہ ہے جس اس شہر کی اساس ہے۔

امرتسر شہر کو 16 ویں صدی میں ایک سکھ گرو نے قائم کیا تھا اور یہ پنجاب کے اس علاقے میں واقع ہے جہاں سے سکھ مذہب کی ابتدا ہوئی تھی۔ سکھ مذہب خدمت کی اپنی روایت کے لیے جانا جاتا ہے۔ خدمت یا سیوا ایک رضاکارانہ عمل ہے جو دوسروں کے ساتھ بغیر کسی توقع یا باہمی تعاون کے انجام دی جاتی ہے۔

پوری دنیا کے سکھ گرودواروں میں خدمت کرتے ہیں، اکثر سادہ کاموں جیسے فرش کی صفائی، کھانا پیش کرنا اور گرودوارے میں نظم و نسق برقرار رکھنا۔ اس کے علاوہ لوگ اپنی نجی زندگی میں سخاوت اور خیرات کے کاموں کے ذریعے خدمت انجام دیتے ہیں۔

اپریل 2021 میں جب کووڈ کی وبا نے پورے انڈیا کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا اور لوگ پریشانی کے عالم میں تھے تو سکھ برادری نے اسے چیلنج کے طور پر قبول کیا اور اشد ضرورت والوں کو آکسیجن سلنڈر اور دیگر طبی سامان پہنچانے کا کام کیا۔

جسرین مایل کھنہ اپنی کتاب ’سیوا: سکھ وزڈم فار لیونگ ویل بائی ڈوئنگ گڈ‘ میں لکھتی ہیں کہ ’سیوا کا مطلب ہے بے لوث خدمت، اور سکھ مذہب میں یہ صرف ایک نصیحت اور رہنمائی نہیں ہے بلکہ روزانہ کی مشق ہے۔یہ بروک لین ہپسٹر کا نعرہ بننے سے پہلے سکھوں میں رچا بسا تھا۔‘

آٹھ سال کی عمر سے اپنے خاندان کے ساتھ سیوا کرنے والے 23 سالہ ابھینندن چودھری نے کہا کہ ’سیوا کا دوسرا نام محبت ہے۔ ایک عام تعلیم یہ ہے کہ انسان کو خدمت میں اتنا سمجھدار اور بے لوث ہونا چاہیے کہ اگر آپ بائیں ہاتھ سے خدمت کر رہے ہوں تو آپ کے دائیں ہاتھ کو بھی اس کی خبر نہ ہو۔‘

تیزی سے انفرادی ہونے والی اور سرمایہ دارانہ دنیا میں یہ زندگی گزارنے کا ایک تازگی بخشنے والا نظریہ ہے۔

سخاوت کا یہ جذبہ پوری دنیا میں آباد سکھوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران انگلینڈ کے ایک گرودوارے میں سکھ رضاکاروں نے این ایچ ایس کے عملے کو روزانہ ہزاروں لوگوں کے لیے کھانا فراہم کیا، جبکہ امریکہ کے مختلف شہروں میں سکھوں نے لاکھوں کے لیے مفت کھانا پکایا۔ بحران یا ہنگامی حالات میں سکھوں نے ضرورت مندوں کی مدد کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے، چاہے وہ طوفان سے متاثرہ کینیڈا ہو یا طوفان سے متاثرہ نیوزی لینڈ ہو۔

لیکن سکھ مذہب کے دھڑکتے دل امرتسر میں خدمت کا جذبہ ایک اور سطح پر ہوتا ہے۔ پورے انڈیا میں یہ مشہور ہے کہ امرتسر میں کبھی کوئی شخص بھوکا نہیں سوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سکھ مذہب کی سب سے اہم عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل میں ہر شخص کے لیے ہمیشہ گرم کھانا تیار رہتا ہے۔

گولڈن ٹیمپل کا لنگر ایک مفت سماجی باورچی خانہ جو کہ دنیا کا سب سے بڑا لنگر ہے اور یہاں ہفتے کے ساتوں دن روزانہ 100,000 لوگوں کی سیوا کی جاتی ہے۔ یہاں بلا تفریق مذہب و ملت ہر کسی کا خیرمقدم ہے، جب تک انھیں پناہ اور کھانے کی ضرورت ہے اور کھانا 24 گھنٹے دستیاب ہوتا ہے۔

نیویارک میں مقیم میکلین سٹار شیف (طباخ) وکاس کھنہ نے کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران انڈیا میں لاکھوں لوگوں کے لیے کھانے تقسیم کیے۔ انھوں نے کہا کہ 'میں امرتسر میں پیدا ہوا اور وہیں پرورش پائی۔ ہمارے یہاں ایک بہت بڑا کمیونٹی کچن ہے جہاں ہر ایک کو کھانا ملتا ہے۔ پورا شہر کھانا کھا سکتا ہے۔ مجھے بھوک کا احساس نیویارک میں ہوا، جب میں یہاں جدوجہد کر رہا تھا۔'

تمام گرودواروں کی طرح گولڈن ٹیمپل بھی رضاکاروں کے دستے کے ذریعہ آسانی سے اور انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ چلتا ہے۔ یہاں رات دن سٹینلیس سٹیل کی پلیٹوں میں دال، چپاتی، چنے کا سالن اور چھاچھ پر مبنی بنیادی لیکن مزیدار کھانا پیش کیا جاتا ہے۔

لوگ بڑے بڑے ہال میں فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہیں جس میں ایک وقت میں 200 افراد مرد اور خواتین، بوڑھے اور جوان، امیر اور غریب بہ آسانی بیٹھ کر کھا سکتے ہیں۔ اس کے پیچھے موسیقی کی ایک لے ہے جو سب کو معلوم ہے۔

اگر کسی کو مزید کھانا چاہیے تو کچھ لوگ ایسے ہیں جو جلدی سے اپنی پلیٹیں ختم کر کے چلے جاتے ہیں۔ ہر 15 منٹ یا اس کے بعد رضاکار بھوکے کھانے والوں کے اگلے دور کے لیے ہال کو صاف اور تیار کرتے ہیں۔ یہ کھانے اور پیش کرنے کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔

امرتسر میں گولڈن ٹمپل سے لے کر سڑکوں پر تمام لوگوں میں دوستی، سخاوت اور مدد رچی بسی ہے۔ جب ہم وہاں گئے تو لوگوں کی مسکراہٹوں میں کھو سے گئے۔ آپ جہاں ذرا سے کھوئے سے یا الجھے سے نظر آئے اور اس سے پہلے کہ آپ مدد کے طلبگار ہوں کہ کوئی پوچھ لے گا کہ وہ آپ کی کیا مدد کر سکتا ہے۔

رات کو سڑک پر چلتے ہوئے، راہگیروں میں سے کوئی بھی آپ کو کہہ سکتا ہے کہ بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں اپنے بیگ کا خیال رکھیں۔ جب ہم مشہور کیسر دا کے ڈھابہ پر پہنچے تو لوگ ہمارے لیے جگہ بنانے کو سمٹ گئے یہاں تک کہ ان کی کہنیاں ٹکرانے لگیں۔ یہ ڈھابہ طویل انتظار کے ساتھ مشہور کھانے پینے کی جگہ ہے۔ استقبال اور اشتراک کا احساس ہر جگہ موجود تھا۔ اجنبیوں کو چائے پر مدعو کرنے اور ان کی زندگی کے بارے میں بات کرنے کے لیے ایک ملنسار نظر اور مسکراہٹ ہی کافی تھی۔

راحت شرما یہیں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ انھوں نے کہا: 'امرتسر میں پروان چڑھنا ایک بڑی برادری میں رہنے کا احساس دلاتا ہے۔ ہم گولڈن ٹیمپل میں چُھپن چھپائی کھیلتے بڑے ہوئے اور ہم سب نے یہاں سیوا کی۔ ہر کوئی ایک دوسرے کا خیال رکھتا ہے۔ سکھ اور ہندو شہر کے دو اکثریتی عقائد والے لوگ ہیں اور مخالف سیاسی حالات کے باوجود اکثر محبت کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

وہ مسلمان لڑکی جس کے لیے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کوڑے کھانے قبول کیے

لنگر جہاں ذات پات،رنگ و نسل کی قید نہیں

تقسیم کا عجائب گھر: دھندلی پڑتی یادوں کو تازہ رکھنے کی کوشش

اس سے صرف یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ شہر بہت جوش و جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ یہ جتنا مذہبی شہر ہے اتنا ہی زندگی سے بھرپور شہر بھی ہے۔ سڑک کے کنارے کا مقامی کھانا جیسے قلچہ چھولے، روایتی مٹی کے برتنوں میں فیرنی اور بڑے سے گلاس میں لسی اور چھاچھ پورے انڈیا کے لیے حسد کا سامان ہے۔

پرانا شہر جو کہ نظر انداز کر دیا گیا ہے، تنگ گلیوں، چوک چوراہوں کی بھول بھولیاں ہیں اور زندگی سے اور ہلچل مچانے والے بازاروں سے بھرا پُرا لگتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وقت کے ساتھ کھو گیا ہے۔

بہر حال امرتسر کے عظیم اور کھلے کردار کے مرکز میں ایک سیاہ عصری تاریخ بھی ہے جس نے شہر کے ساتھ ساتھ سکھ مت کے اپنے تصور اور عمل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

پنجاب کے دوسرے سب سے بڑے شہر کے طور پر امرتسر برطانوی نوآبادیاتی دور حکومت میں اکثر اجتماعات اور مظاہروں کا مرکز رہا تھا۔ ایسے ہی ایک مظاہرے نے سنہ 1919 میں وحشیانہ موڑ اختیار کر لیا جب ایک برطانوی جنرل نے لوگوں کے ایک پرامن اجلاس پر گولی چلانے کا حکم دیا۔ اس واقعے کو تاریخ میں جلیانوالہ باغ قتل عام کہا جاتا ہے جس میں تقریبا 1500 لوگ مارے گئے تھے۔

مزید برآں جب سنہ 1947 میں انگریزوں نے عجلت میں ہندوستان چھوڑ ا تو انھوں نے اس ملک کو تقسیم کر دیا اور اس کے نتیجے میں ملک گیر فسادات پھوٹ اور تشدد نے امرتسر کو بہت زیادہ متاثر کیا کیونکہ یہ شہر اپنے محل وقوع کے حساب سے نئی کھینچی گئی سرحد کے قریب ہے۔ (اسی تاریخ کی وجہ سے، انڈیا کا پہلا اور واحد پارٹیشن میوزیم سنہ 2017 میں امرتسر میں کھولا گیا۔)

سنہ 1984 میں امرتسر ایک بار پھر المناک واقعات کی آماجگاہ بن گیا۔ اس وقت کی انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کے حکم پر ایک اہم فوجی آپریشن میں گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا گیا۔ حملے کی وجہ علیحدگی پسندوں کو ختم کرنا تھا لیکن اس واقعے کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں چند ماہ بعد ان کے دو سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو قتل کر دیا جس کے بعد انڈیا بھر میں سکھ مخالف فسادات پھوٹ پڑے اور ملک بھر میں ہزاروں معصوم سکھوں کا قتل عام ہوا۔

سکھوں کے لیے ان یادوں کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ سکھ شہیدوں کی کہانیاں ان کی ثقافتی یادوں کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی دعاؤں میں بھی یہ شامل ہیں۔ کھنہ نے لکھا: ’لیکن یہ کہانیاں نفرت کو بھڑکانے یا بدلہ لینے کے لیے نہیں سنائی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، اس میں محافظ ہونے کی میراث پر زور دیا گیا ہے۔‘

اور ایسی صورتحال میں یہ اور بھی قابل تعریف ہے کہ ایک کمیونٹی جس نے بہت سارے اجتماعی صدمات کا سامنا کیا ہے وہ اب بھی داد و دہشت کی جذبے سے سرشار ہے اور سب کی سیوا میں ہے۔ کھنہ کے مطابق یہ خصلتیں سکھ ہونے کا لازمی حصہ ہیں۔ ’گرو نانک (سکھ مت کے بانی) نے سیوا کو سکھوں کا گیت بتایا ہے۔۔۔ سکھ اپنے گرو کے الفاظ اور کردار سے متاثر ہو کر بے لوث خدمات کو اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بناتے ہیں۔‘

سیوا اور بلا تفریق مذہب و ملت سکھوں کا ہر طرح کے لوگوں کے خیرمقدم کرنے کی روایت ان کے عقیدے یا عقیدے سے قطع نظر ان کی سخاوت کے کھلے شواہد ہیں۔ اور یہ شہر ان کے اس جذبے کا سب سے بڑا شاہد ہے۔ امرتسر میں، چیزیں کتنی ہی تاریک اور دھندلی کیوں نہ ہوں رحم، محبت اور سخاوت کا جذبہ ہمیشہ غالب نظر آتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More