مدھیہ پردیش: 14 سال پہلے ہونے والے تیسرے بچے کی پیدائش پر خاتون ٹیچر نوکری اب سے فارغ

بی بی سی اردو  |  Jun 13, 2023

مدھیہ پردیش کی ایک ٹیچر کو نوکری سے اس لیے ہٹا دیا گیا کیونکہ اس نے اپنے تیسرے بچے کو جنم دیا تھا۔

یہ ٹیچر اب اندور ہائی کورٹ گئی ہیں تاکہ انھیں دوبارہ ملازمت پر بحال کیا جا سکے۔

یہ خاتون رحمت بانو منصوری گورنمنٹ سیکنڈری سکول، بیجا نگری میں سیکنڈری ٹیچر کے طور پر تعینات تھیں۔ انھیں سات جون کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

انھیں ہٹانے کے لیے، مدھیہ پردیش سول سروسز، 1961 کے قاعدہ 6 میں ترمیم شدہ شق کا استعمال کیا گیا ہے۔

اس کے تحت اگر کسی ملازم کا 26 جنوری 2001 کے بعد تیسرا بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی سروس ختم کی جاسکتی ہے۔

اس شق کے مطابق وہ امیدوار بھی جنہوں نے تمام قسم کے امتحانات پاس کر کے اپنی اہلیت ثابت کر دی ہے، اگر وہ تین بچوں کے والدین ہیں تو انھیں تقرری کے لیے موزوں نہیں سمجھا جائے گا۔

رحمت بانو منصوری کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش سال 2009 میں ہوئی تھی تاہم 2020 میں شکایت کی گئی اور انھیں رواں ماہ عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

ان کی شکایت مدھیہ پردیش ٹیچرس کانگریس نے کی تھی۔ انکوائری کرنے کے بعد، جوائنٹ ڈائریکٹر پبلک ایجوکیشن ڈویژن، اجین نے ایک حکم جاری کیا اور رحمت کی سروس کو ختم کر دیا۔

کارروائی پر سوالات

اس معاملے میں پبلک ایجوکیشن ڈویژن، اجین کے جوائنٹ ڈائریکٹر رویندر کمار سنگھ نے یہ کہتے ہوئے کسی بھی تبصرہ سے انکار کیا ہے کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہے۔

رحمت بانو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں ایک طرح سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

انھوں نے کہا، ’میرے بلاک میں 34 اساتذہ ہیں جن کے تین یا اس سے زیادہ بچے ہیں، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ لیکن مجھے نشانہ بنایا گیا ہے۔ اگر کارروائی ہو رہی ہے تو سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جب حکام سے اس بارے میں بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ایسا اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ آپ کے خلاف شکایت تھی۔

رحمت بانو نے بی بی سی کے ساتھ 34 اساتذہ کی فہرست بھی شیئر کی ہے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ ایک ہی بلاک میں تین یا اس سے زیادہ بچوں والے اساتذہ کے نام ہیں اور وہ انھیں عدالت میں پیش کر رہی ہیں۔

معاملہ سامنے آنے کے بعد تین بچوں کے ساتھ ایک ٹیچر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خاندان کا انحصار میری آمدنی پر ہے، اگر ہم اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تو پورا خاندان متاثر ہوگا، کہ اب کوئی اور نوکری نہیں ہوگی۔‘

تاہم ایک اور استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مدھیہ پردیش میں ایسے ہزاروں اساتذہ ہوں گے جن کے دو سے زیادہ بچے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

خاندانی ذمہ داری

رحمت بانو آگر مالوا کے سرکاری سیکنڈری سکول میں کیمسٹری کی ٹیچر تھیں۔ انھوں نے سال 2003 میں کنٹریکٹ کیٹیگری دوم میں ملازمت شروع کی۔

رحمت نے بتایا کہ ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ پہلی بیٹی 2000 میں پیدا ہوئی جو بی اے ایم ایس کر رہی ہے۔ اور دوسرا بیٹا جو 2006 میں پیدا ہوا تھا وہ فی الحال کوٹا سے نیٹ کی تیاری کر رہا ہے جبکہ تیسرا بیٹا جو 2009 میں پیدا ہوا تھا وہ 10ویں کلاس کا طالب علم ہے۔

ان کے شوہر سعید احمد منصوری ایک مدرسے میں کام کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہ تقریباً 5000 سے 6000 ہزار روپے ہے۔ رحمت بانو کے مطابق پورے خاندان کی ذمہ داری ان پر ہے اس لیے اب ان کے لیے بچوں کو پڑھانا آسان نہیں ہوگا۔

رحمت بانو نے قبول کیا کہ وہ حکومت کی جانب سے دو سے زائد بچوں کی پیدائش کی صورت میں ملازمت چھوڑنے کے انتظام سے آگاہ تھیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ ’اس بچے کے حمل کے بارے میں انھیں بہت دیر سے معلوم ہوا۔ اس صورتحال میں ڈاکٹر نے اسقاط حمل سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ ایسی صورت حال میں ماں اور بچے دونوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس بچے کو جنم دینا پڑا۔‘

یہ بھی پڑھیے

انڈیا: کتنے بچے پیدا کرنے ہیں؟ فیصلہ حکومت کا ہوگا یا عورت کا

شرحِ تولید: دنیا بھر میں بچوں کی پیدائش میں ’حیرت انگیز‘ کمی متوقع

انڈیا: بچہ پیدا نہ کرنے پر والدین نے بیٹے پر مقدمہ کر دیا

Getty Imagesفائل فوٹو: انڈیا میں بیشتر لوگوں کے ہاں دو سے زائد بچے ہوتے ہیں ’ریاست میں ہزاروں کیسز ہیں‘

رحمت بانو کے شوہر سعید احمد منصوری کا کہنا ہے کہ ’اگر کوئی اصول ہے تو سب پر کارروائی ہونی چاہیے، کسی کو جان بوجھ کر نشانہ نہ بنایا جائے۔‘

تاہم منصوری خاندان پر امید ہے کہ انھیں عدالت سے انصاف ضرور ملے گا۔

اس معاملے کی شکایت کرنے والے یونین کے سابق صدر شیام سنگھ پنوار نے سب سے پہلے 2020 میں ضلع مجسٹریٹ کے دفتر میں اس معاملے کی شکایت کی تھی۔

اس کا خیال ہے کہ ریاست بھر میں ایسے ہزاروں کیسز ہیں لیکن انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ انھوں نے کسی کو نشانہ بنایا۔ اگرچہ وہ کہتے ہیں ’میں نے وہ کیا جو مجھے کرنا تھا۔‘

رحمت بانو کا کہنا ہے کہ مدھیہ پردیش ٹیچرس کانگریس ایسوسی ایشن کو ملازمین کے مفاد میں کام کرنا چاہیے نہ کہ ان کے خلاف، لیکن اس معاملے میں انھوں نے ان کے خلاف کام کیا ہے۔

پچھلے سال ودیشا ضلع میں محکمہ تعلیم میں ایسا ہی ایک معاملہ سامنے آیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ صرف ایک ضلع میں ایسے 954 معاملے ہیں جن میں اساتذہ کو نوٹس دیا گیا ہے۔ تاہم اب تک اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More