instagram\manshapasha
سماجی کارکن جبران ناصر کے اغوا کا مقدمہ ان کی اہلیہ ادارہ منشا پاشا کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ یکم جون کو میں (منشا پاشا) اپنے شوہر جبران ناصر کے ہمراہ گھر کی طرف جا رہی تھی جب تقریباً 11 بجے ایک سفید ٹویٹا ہائی لیکس گاڑی نے ہماری کار کو آگے سے ٹکر مار کر راستہ روکا اور ایک سلور کرولا نے پیچھے سے ٹکر مار کر روکا اور سول کپڑوں میں ہتھیاروں سے لیس تقریباً 10 سے 15 افراد میرے شوہر جبران ناصر کو گاڑی میں ڈال کر فرار ہو گئے۔
منشا پاشا نے اپنی درخواست میں ان نامعلوم افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کراچی میں ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا نے تصدیق کی ہے کہ سماجی کارکن جبران ناصر کے اغوا کا مقدمہ ان کی اہلیہ کی مدعیت میں تھانہ کلفٹن میں درج کیا گیا ہے۔
یار رہے اس سے قبل جبران ناصر کی اہلیہ اداکارہ منشا پاشا نے ایف آئی آر درج کروانے میں مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ اُن کے شوہر اور سماجی کارکن جبران ناصر کے مبینہ اغوا کی ایف آئی آر درج کرنا تو دور کی بات پولیس نے اب تک انھیں اس ضمن میں داخل کی گئی اُن کی درخواست پر ریسیونگ (درخواست وصول کرنے کا قانونی ثبوت) تک نہیں دی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے منشا پاشا نے کہا تھا کہ پولیس تاخیری حربے اپنا رہی ہے، انھوں نے کل ہمارے گھر کا دورہ بھی کیا اور کہا کہ ہم آپ کو درخواست وصول کرنے کا کاغذ دیں گے، مگر دیے بغیر وہ چلے گئے۔
یاد رہے گذشتہ رات ایک ویڈیو میں منشا پاشا نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز فائیو میں وائٹ ویگو اور دیگر گاڑیوں میں آئے قریب 15 مسلح افراد نے ان کی گاڑی کا راستہ روکا اور ان کے شوہر جبران ناصر کو مبینہ طور پر اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے جبران ناصر کے مبینہاغوا کی اطلاعات پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے ان کی محفوظ بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ’ان کے اغوا کاروں کا قانون کے مطابق احتساب ہونا چاہیے۔‘
https://twitter.com/bilalfqi/status/1664360967126351876?s=20
’پاکستان میں جو سیاسی صورتحال ہے اس میں کچھ بھی ممکن ہے‘
منشا نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس واقعے کے بعد کل رات پولیس ان کے گھر آئی تھی، جس کے بعد وہ تھانے گئیں اور بہت دیر تک پولیس کو کہتی رہیں کہ کم از کم ہمیں ایسا کوئی کاغذ دے دیں جس پر لکھا ہو کہ انھوں نے ہماری درخواست وصول کر لی ہے۔ ’مگر انھوں نے وہ بھی دینے سے انکار کر دیا، ایف آئی آر تو دور کی بات ہے۔‘
پولیس کے تاخیری حربوں کے حوالے سے منشا کا کہنا تھا کہ ’وہ کہہ رہے ہیں کہ حکام و افسران کو اس بارے میں علم ہے اور آپ کی درخواست ہمیں مل گئی ہے مگر حقیقیت میں کچھ نہیں ہو رہا انھوں نے بس یہ کہا کہ آپ کل آ جائیں۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا جبران ناصر کو کسی کی جانب سے کوئی خطرہ تھا یا کسی قسم کی دھمکی دی گئی تھی، منشا پاشا نے کہا کہ ’میں یہ نہیں کہوں گی کہ ہمیں ایسا کوئی خدشہ تھا مگر ’پاکستان میں جو سیاسی صورتحال ہے اس میں کچھ بھی ممکن ہے۔‘
Getty Images
سی سی ٹی وی فوٹیج کے حوالے سے منشا نے بتایا کہ ’ہم نے اپنے گھر میں اور باہر تو کیمرے لگائے ہیں مگر یہ واقعہ ہمارے گھر سے ایک گلی کی دوری پر ہوا۔ اور اگر کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج ہے بھی تو صرف پولیس کو اس تک رسائی ہو گی۔‘
وکیل جبران ناصر گذشتہ کئی برسوں سے ایک متحرک ایکٹیوسٹ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی، توہین مذہب قوانین کے غلط استعمال سمیت انسانی حقوق کے کئی مقدمے مختلف عدالتوں میں لڑے ہیں۔ انھوں نے 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں بطور آزاد امیدوار حصہ لیا تھا مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
’میں چاہوں گی کہ آپ سب اس پر آواز اٹھائیں‘
گذشتہ رات جاری کیے گئے ایک ویڈیو پیغام میں منشا کا کہنا تھا کہ ’میرے شوہر کو کچھ لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ہم ڈنر سے واپس گھر کی طرف آ رہے تھے۔ ایک وائٹ ویگو نے ہماری گاڑی کو سامنے سے آ کر روکا، تقریباً ٹکر مار کے۔ پستولوں کے ساتھ تقریباً 15 لوگ تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ’زبردستی میرے شوہر کو لے کر چلے گئے ہیں۔ میں چاہوں گی کہ آپ سب اس پر آواز اٹھائیں اور دعا بھی کریں۔‘
خیال رہے کہ سماجی کارکن نے گذشتہ دنوں ٹوئٹر پر ’اسٹیبلشمنٹ‘ پر تنقید کرتے ہوئے کچھ پیغامات جاری کیے تھے۔ 31 مئی کو جاری کردہ اپنے پیغام میں جبران نے کہا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ عمران کو اگلے انتخابات سے باہر رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن عمران خان کے بیانیے کو نہیں۔ پانامہ ہو یا 9 مئی، اسٹیبلشمنٹ یہ سیکھنے سے انکاری ہے کہ وہ ووٹروں میں اپنا بیانیہ زبردستی مقبول نہیں کر سکتی۔‘
انھوں نے کہا تھا کہ ’معلق پارلیمنٹ سیاسی داؤ پیچ کے لیے اسٹیبلشمنٹ پر زیادہ انحصار کو یقینی بنا دیتی ہے۔‘
جبران نے ٹوئٹر پر سابق اور موجودہ آرمی چیفس کی ایک حالیہ تصویر بھی شیئر کی تھی اور اس پر لکھا تھا کہ ’بگاڑ کر بنائے جا، ابھار کر مٹائے جا کہ میں تیرا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا۔‘
https://twitter.com/MJibranNasir/status/1663915985789759490?s=20
’کوئی بھی ملک ایسی لاقانونیت کی اجازت نہیں دے سکتا‘
جبران ناصر کے مبینہ اغوا پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مذمتی بیان جاری کیے جا رہے ہیں۔
صحافی عاصمہ شیرازی نے اس پر تبصرہ کیا ہے کہ ’کوئی بھی ملک ایسی لاقانونیت کی اجازت نہیں دے سکتا‘ جبکہ مائیکل کوگلمین نے کہا کہ جبران کئی برسوں سے طاقتور کے سامنے سچ بول رہے ہیں۔
صحافی اور اینکر اجمل جامی پوچھتے ہیں کہ ’سیاسی ورکرز، سوشل میڈیا صارفین یا صحافتی احباب کی گمشدگی پر تو تشویش ہوتی ہی ہے لیکن کیا ہماری مقبول سیاسی جماعتوں کو جبران ناصر کے معاملے پر بھی اسی قدر تشویش ہوئی؟ یہ وہی جبران ہیں جو بلا امتیاز ہر نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کے پیمانے تو ایک سے رکھیں پلیز۔‘
twitter
مصنف اور صحافی عاطف توقیر پوچھتے ہیں کہ جبران ناصر کو کس نے اٹھایا؟ کوئی مقدمہ ہے؟ یا لاپتا کیا گیا ہے؟ پاکستان میں تمام جمہوری اور روشن خیال آوازیں دبا دو گے تو یہ ملک باقی کیا رہ جائے گا؟
انھوں نے مطالبہ کیا کہ جبران ناصر کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے۔ اس ملک کو جبران ناصر جیسے افراد کی اشد ضرورت ہے۔
وقاص گورائیہ نے لکھا ’عمران ریاض پر خاموش رہیں گے تو وہ جبران ناصر کو بھی لے جائیں گے اور آپ کو بھی۔‘
تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ نے بھی جبران کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ’پاکستان میں جنگل کا قانون نہیں چلنے دیا جانا چاہیے۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف کے سٹریٹیجک ریفارمز یونٹ کے سربراہ سلمان صوفی نے سندھ پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ جبران کو فوری طور پر ڈھونڈا جائے اور ان کے خاندان سے تعاون کیا جائے۔