Getty Images’اس وقت انڈیا میں تقر یباً 13 لاکھ جوانوں پر مشتمل فوج ہے جس کو گھٹا کر 8 لاکھ پر لانے کا منصوبہ ہے‘
انڈیا کے ایک سرکردہ دفاعی تجزیہ کار ریٹائرڈ میجر جنرل اشوک مہتہ نے انڈین فوجیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوجیوں کی تعداد کم ہونے سے فوج کی عسکری صلاحیت پر بُرا اثر پڑے گا۔
انڈیا کے ایک سرکردہ اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ایک مضمون میں انھوں نے لکھا ہے کہ کورونا کی وبائی بیماری کے دوران (یعنی 2019 سے جون 2022 تک) تین سال کے عرصے میں فوج میں جوانوں کی کوئی بھرتی نہیں کی گئی، جس سے بری فوج کی مجموعی تعداد میں 180000 فوجیوں کی کمی واقع ہو گئی ہے۔
جون 2022 سے فوجیوں کی بھرتی کے ’اگنی ویر‘ نامی نئے قانون کے تحت 40 ہزار جوانوں کو مخصوص مدت کے لیے فوج میں بھرتی کیا گیا ہے۔
سابق میجر جنرل اشوک مہتہ نے لکھا ہے کہ فوج کے اعلی اہلکاروں میں ’رائٹ سائزنگ‘ یعنی ضرورت کے مطابق فوجی نفری رکھنے کی بات ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 180000 فوجیوں کی کمی کے علاوہ ابھی فوج کی مجموعی تعداد میں مزیدایک لاکھ فوجیوں کی کمی کی جائے گی۔ ان کے بقول انٹیگریٹیڈ ڈیفنس سٹاف کے ہیڈ کوارٹرز نے گذشتہ مہینے حکم جاری کیا ہے کہ مسلحافواج کے سبھی شعبوں میں موجودہنفریوں کی تعداد میں دس فیصد مزید کمی کی جائے۔
فوج کی تعداد گھٹانے کی سب سے بڑی وجہ ریٹائرڈ فوجیوں پر آنے والے پنشن اور دیگر اخراجات ہیں۔
Getty Images
فوجی امور کے جریدے ’فورس‘ کی مدیر غزالہ وہاب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’انڈیا کے دفاعی بجٹ کے دو حصے ہیں، ریونیو بجٹ جس کے تحت تنخواہیں، طبی سہولیات، ٹرانسپورٹ، ایندھن اور دوسری سہولیات آتی ہیں۔ دوسرا کیپٹل بجٹ جو اسلحہ اور جنگی ساز وسامان کی خریداری کے لیے مختص ہوتا ہے۔
ان کے مطابق جب انڈیا کی معیشت آٹھ اور نو فیصد کی شرح سے بڑھ رہی تھی تو دو سے ڈھائی فیصد دفاعی بجٹ میں دینے سے یہ بہت بڑی رقم بن جاتی تھی۔ اب جب معیشت نیچے آ گئی ہے تو دفاع کی رقم بھی کم ہو گئی ہے۔ حکومت کئی برس سے اخراجات کم کرنے کا سوچ رہی تھی اسی لیے انھوں نے ’اگنی ویر‘ اور ’اگنی پتھ‘ جیسی بھرتی کی سکیمیں شروع کی ہیں۔‘
بھرتی کی ان سکیموں کے تحت جوانوں کی بھرتی اب صرف چار سال کی مختصر مدت کے لیے ہوتی ہے اور چار برس پورا ہونے کے بعد انھیں 12 لاکھ روپے کی یکمشت رقم دے کر ریٹائر کیا جائے گا لیکن انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی پنشن نہیں ملے گی۔
چار سال مکمل ہونے پر ان فوجیوں میں سے 25 فیصد نوجوانوں کو مستقل کیڈر میں لے لیا جائے گا جبکہ باقی 75 فیصد جوان واپس سول زندگی میں چلے جائیں گے۔ بھرتی کی اس نئی سکیم سے پنشن پرہونے والے بےتحاشہ اخراجات میں کافی کمی آئے گی۔
انڈین فوج سے ہر برس 70 ہزار فوجی جوان سبکدوش ہوتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ پر ان فوجیوں کی اوسط عمر 37 برس ہوتی ہے۔ جبکہ انڈیا میں شہریوں کی اوسط عمر 70 سے 75 برس کے درمیان ہے۔ جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ 37 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے والے ایک فوجی کو لگ بھگ 35 سے 40 برس تک پنشن دینی ہوتی ہے جبکہ انھیں اور ان کی فیملی کو دی جانے والی طبی اور تمام دیگر سہولیات اس سے الگ ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
چین اور پاکستان کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا اپنی فوج کو کیسے جدید بنا رہا ہے؟
انڈیا عالمی طاقت بننے کی راہ پر گامزن یا دیگر عالمی طاقتوں کے کھیل میں ایک مہرہ؟
مگ 21: انڈین ایئرفورس میں ’ریڑھ کی ہڈی‘ جیسی حیثیت سے ’اڑتے تابوت‘ کے خطاب تک
ہنی ٹریپ: ماتا ہری سے جُڑی فوجی افسران کی جاسوسی کی روایت جس نے انڈیا کو ’پریشان‘ کیا ہے
Getty Images
انڈیا میں ریٹائرڈ فوجیوں اور افسران کی پنشن پورے دفاعی اخراجات کا تقر یباً 23 فیصد ہے، یعنی دفاع کے لیے مختص بجٹ میں سے 23 فیصد صرف پنشن کی مد میں خرچ ہو جاتا ہے۔آٹھ برس پہلے یہ شرح 12 فیصدتھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا تھا۔
دفاعی ماہرین کے مطابق فوج میں نفری کو کم کرنے کا بنیادی مقصد پنشن کے اخراجات کو کم کرنا ہے، اگر پنشن کا بل کم ہو جاتا ہے تو فوج کو نئے اسلحے خریدنے کے لیے زیادہ رقم دستیاب ہو گی۔
دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کہتے ہیں کہ حکومت نے ’اگنی ویر‘ اور ’اگنی پتھ‘ کی جو نئی سکیمیں شروع کی ہیں اس سے کئی عسکری ماہرین متفق نہیں ہیں۔ ان کے مطابق اس سے پنشن بل تو کم ہو گا لیکن فوجیوں کی تعداد گھٹنے سے ملک کی دفاعی صلاحیت پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’انڈیا کا پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازع ہے، چین کے ساتھ سرحدی مسئلہ ہے، اندرونی سلامتی کے مسا ئل ہیں، کشمیر میں عسکریت پسندی کا مسئلہ ہے۔ اس میں فوجیوں کی پوری تعداد کی ضرورت پڑے گی اور اگر نمبر نہیں ہوا تو ان معاملات سے نمٹنے میں دقت ہو گی۔‘
راہل بیدی کہتے ہیں کہ ’اس وقت انڈیا میں تقر یباً 13 لاکھ کی فوج ہے جس کو گھٹا کر 8 لاکھ پر لانے کا منصوبہ ہے۔ اگر پانچ لاکھ فوج کم کر دی جائے تو پنشن، تنخواہوں، میڈیکل اور دوسری سہولیات کے اخراجات میں بھی اسی کی مناسبت سے کمی آئے گی۔‘
AFP’چین کے ساتھ انڈیا کی 3500 کلومیٹر اور پاکستان کے ساتھ 774 کلومیٹر طویل سرحد ہے‘
غزالہ وہاب کہتی ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے بڑے بڑے ملکوں نے اپنی فوج میں کمی کی ہے ’لیکن انڈیا میں فوج کی جدیدکاری اور جدید ٹیکنالوجی اس حد تک نہیں آئی ہے کہ فوج کی تعداد میں کمی کی جائے۔‘
راہل بیدی کا بھی یہی خیال ہے انڈیا کی سرحدی صورتحال کے پس منظر میں فوج گھٹانے کافیصلہ ایک مشکل امر ہے۔ چین کے ساتھ انڈیا کی 3500 کلومیٹر اور پاکستان کے ساتھ 774 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔
’یہ بیشتر پہاڑی اور دشوار گزار علاقے ہیں۔ اس وقت انڈیا کی فوج کے پاس موجود ٹیکنالوجی سے ان مشکل سرحدوں کی نگرانی کرنا بہت مشکل ہے۔ وہاں فوجیوں کی موجودگی کی ضرورت ہے۔ وہاں جوانوں کی ضرورت ہے۔ جدید ٹیکنالوجی بہت آگے نکل چکی ہے لیکن اسے حاصل کرنے کے لیے بہت پیسہ چاہیے۔‘
انڈین فوج نے شمال مشرقی ریاستوں اور کشمیر میں عسکریت پسندی میں کمی آنے کے بعد ان خطوںسے کاؤنٹر انسرجنسی اور دہشت گردی مخالف آپریشن کی تعداد کم کی ہے۔
ریٹائرڈ میجر جنرل مہتہ کا خیال ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب فوج کو جدید ٹیکنالوجی کے ساز و سامان سے پوری طرح مسلح نہیں کیا گیا ہے، فوج کی جنگی قوت کو گھٹاناصحیح قدم نہیں ہے۔