Getty Images
دہلی میں گذشتہ اتوار کو ایک نوجوان نے سولہ برس کی لڑکی کو قتل کر دیا ہے۔ قتل کی واردات کیمرے میں فلمبند ہوئی اور اس میں صاف نظر آتا ہے کہ وہ نوجوان لڑکی کو کیسے مار رہا ہے اور وہ کتنا بے خوف ہے؟
ایک جانب اس لڑکی کا قتل ہو رہا ہے اور دوسری طرف لوگ آرام سے آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ پولیس کو بھی کوئی اطلاع نہیں دیتا۔ پولیس بھی کافی دیر بعد موقع پر پہنچتی ہے۔ اب وہ لڑکی اس دنیا میں نہیں رہی۔
حالانکہ یہ چونکا دینے والی خبر ہے، تاہم بحیثیت ایک معاشرہ یہ ہمارے پُر تشدد، غیر انسانی اور بزدل ہونے کی نشانی بھی ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ دونوں کے درمیان ’محبت کا رشتہ‘ تھا اور یہ قتل ’جنون‘ میں آکر کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا محبت میں مار پیٹ یا ایک دوسرے کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے؟ کیا محبت کا جذبہ پُرتشدد ہو سکتا ہے۔
لیکن اس دوران جو بحث چل رہی ہے اس میں ہم قتل کے وحشیانہ طریقہ اور قاتل کے مذہب پر بات کر رہے ہیں لیکن اس بحث میں جس چیز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ ہے لڑکوں کا ایسا برتاؤ۔
کیا کوئی دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے کہہ سکتا ہے کہ لڑکوں کا ایسا سلوک فلاں مذہب کے ماننے والوں میں نہیں پایا جاتا؟ اس کا جواب لڑکوں سے نہیں، لڑکیوں اور عورتوں سے پوچھا جانا چاہیے۔
بہتر یہی ہے کہ ہم اس کے بارے میں بات کریں جو اس طرح کے تشدد کی جڑ تک پہنچنے میں ہماری مدد کرے گی۔
محبت یا ’دھونس والی دبنگ مردانگی‘؟
لڑکوں یا مردوں میں یہ ہمت کہاں سے آتی ہے کہ وہ کسی ایسے انسان کو مار ڈالیں جس سے وہ محبت کی بات کرتے ہیں یا جس کے ساتھ دن رات رہتے ہیں یا ساتھ رہنے کی قسمیں کھاتے ہیں؟
اس جرات کی ایک وجہ ہے اور وہ ہے دھونس والی دبنگ زہریلی مردانگی اور یہ مردانگی ہر چیز کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔
وہ لڑکیوں کو ایک چیز یا ملکیت کی طرح اپنے قبضے میں رکھنا چاہتی ہے، وہ انھیں اپنی انگلیوں پر نچانا چاہتی ہے۔ایسی مردانگی کے لیے کسی اور کی خواہش یا لڑکی کی آزاد شخصیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
Getty Imagesشہا آباد ڈیری میں کیا ہوا؟
دہلی کے شہا آباد ڈیری علاقے میں ہونے والے واقعے کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ رات کے وقت ایک 20 سالہ شخص نے 16 سالہ لڑکی کو چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا۔
ملزم نے متاثرہ لڑکی پر چاقو سے 16 وار کیے اور پھر اس کا سر پانچ بار پتھر سے کچلا۔ دہلی پولیس نے پیر کو ملزم کو اترپردیش کے بلند شہر علاقے سے گرفتار کیا تھا۔
ساحل نامی ملزم نابالغ لڑکی کا بوائے فرینڈ بتایا جا رہا ہے، جسے مقتولہ کے گھر والے مسترد کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انھیں اس رشتے کا کوئی علم نہیں۔
دہلی پولیس نے اس واقعہ کے پیچھے کسی مذہبی محرک کے امکان کو رد کیا ہے۔
Getty Imagesتشدد پسند لڑکوں سے گھرا معاشرہ
لیکن لڑکے یا مرد بھی کیا کریں؟ ان کے پاس مسائل حل کرنے کے لیے کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ان کی دبنگ مردانگی انھیں عدم تشدد کی راہ نہیں دکھاتی۔
زیادہ تر لڑکوں یا مردوں کو صرف ایک ہی طریقہ آتا ہے اور وہ ہے تشدد۔
اس طرح کی ذہینیت میں اپنے دل کے خلاف کسی بھی طرح کی بات برداشت نہ کرنا اور پر تشدد انداز میں جواب دینا عام ہوتا ہے۔ اس کا اثر نہ صرف ان پر بلکہ ان کے ساتھ رہنے والے لوگوں پر پڑتا ہے۔
لیکن کیا کسی کو مارنا مردانگی ہوتی ہے؟
یہ بھی پڑھیے
سارہ انعام: اسلام آباد میں قتل ہونے والی ’اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت‘ خاتون کون تھیں؟
انڈیا: لڑکے نے اپنی دوست کی لاش کے ٹکڑے کر کے فریج میں رکھ دیے
انڈیا: پہلے گرل فرینڈ کا قتل پھر فیس بک لائیو پرخودکشی
زہریلی مردانگی کی شناخت
ایسے زہریلی مردانگی والے لڑکوں یا مردوں کی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں۔ وہ بار بار محبت کی دہائی دیتے ہیں لیکن ان کی محبت کسی کو آزاد نہیں کرتی بلکہ غلام بنا دیتی ہے۔ وہ ’نہ‘ نہیں سن سکتے۔
وہ لڑکیوں کو بات کرنا یا کسی اور کے قریب ہوتے دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ وہ محبت کی آڑ میں ہر چیز کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، لڑکی کا کہیں آنا جانا، بات کرنا، فون اور سوشل میڈیاسب پر قابو رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ محبت بھی دکھاتے ہیں اور ڈراتے بھی ہیں۔
وہ جارحانہ ہوتے ہیں اور غصے پر قابو نہیں رکھ پاتے، وہ اپنی ضد میں کسی کی نہیں سنتے، دوسرے کے جذبات کی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کے لیے عورت کے جسم کا استعمال زیادہ ضروری ہے۔ وہ جسم سے ’محبت‘ کرتے ہیں۔ اس پر اپنی فتح حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
Getty Images’نہیں‘ کا احترام کرنا سیکھنا ہوگا
محبت دو یا دو سے زیادہ لوگوں کی رضامندی کا نام ہے۔ چاہت یکطرفہ ہو سکتی ہے۔ جس طرح کسی سے محبت کرنے کا احساس کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو ہمیں نہ چاہنے کا دل کر سکتا ہے۔
یکطرفہ محبت کو محبت یا پیار نہیں کہا جا سکتا۔ اتنی سادہ سی بات ہم کیوں نہیں سمجھتے۔ کسی کی ’نہیں‘ کا احترام محبت کی پہلی سیڑھی ہے۔ محبت میں برابری ہوتی ہے۔ یکطرفہ محبت یا لگاؤ میں کوئی برابری نہیں ہے۔
تشدد کا بڑھتا دائرہ
یہی نہیں لڑکوں میں تشدد کا تصور جتنا بھیانک اور خطرناک ہے، یہ پورے معاشرے کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے لیے۔
لڑکے جس جرات کے ساتھ لڑکیوں پر تشدد کر رہے ہیں وہ معاشرے میں بڑھتے دوسرے تشدد سے مختلف نہیں، وہاں بھی تشدد کرنے والے مرد ہی ہوتے ہیں۔ لڑکوں کو لگتا ہے کہ وہ تشدد کر سکتے ہیں۔
تشدد ان کے مرد ہونے کا ثبوت ہے۔ تشدد جائز ہے۔ وہ کسی کو مار کر آرام سے رہ سکتے ہیں اور انھیں کوئی سزا نہیں دے سکتا۔ اسی لیے، وہ بے خوف ہو کر تشدد پر آمادہ ہوتے ہیں خاص طور پر ذاتی تعلقات میں۔
Getty Imagesتو محبت ہے کیا؟
محبت سب کچھ نچھاور کرنے کا نام ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس سے ہم پیار کرتے ہیں اسے نقصان پہنچائیں؟ اُسے قتل کر دیں؟ قتل میں سفاکیت کی تمام حدیں پار کر دیں۔
محبت میں پُر تشدد نہیں ہو سکتی۔ یہ عورتوں کو ملکیت، انتقام اور نفرت سمجھنے کے احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ اوریہی زہریلی مردانگی ہے۔
محبت میں قتل کرنا یا محبوب کے چہرےکو تیزاب سے مسخ کرنا، یہ سب بتاتے ہیں کہ معاشرے نے لڑکوں کی پرورش میں کتنا زہر گھولا ہے۔
معاشرے نے کسی بھی طرح کے تشدد کو نظر انداز کرنے اور اس کے ساتھ رہنے کی عادت ڈال لی ہے، اسے اپنی زندگی میں جگہ دی ہے اور یہ لڑکوں یا مردوں کو خاص قسم کی طاقت دیتا ہے۔
مردانگی کے نئے احساس کو سیکھنے کی ضرورت ہے
اس لیے لڑکوں کو سب سے پہلے اپنی زندگی سے وہ تمام چیزیں نکالنی ہوں گی، جو وہ مردانگی کے نام پر اب تک سیکھتے آئے ہیں۔ انھیں مردانگی کو نئے انداز میں اپنانا ہوگا۔ یہ مثبت مردانگی ہوگی۔ اس مردانگی کی پہلی اور ضروری شرط عدم تشدد اور بھائی چارہ ہے۔
اس کی بنیاد محبت، بقائے باہمی، ایک دوسرے پر اعتماد، ایک دوسرے کے لیے تڑپ، حساسیت، سب کا احترام، ہمدردی، ایمانداری اور سچائی ہو گی۔
انھیں جمہوریت کو سیکھنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کے خلاف بات سننے کی عادت ڈالیں۔ اختلاف کو سننے اور اس کا احترام کرنے کی عادت ڈالنا ہوگی۔
اپنی بات پوری کرنے کے لیے آپ کو اپنی ضد چھوڑنی ہوگی۔ دوسروں اور خاص طور پر لڑکی کے نقطہ نظر اور رائے کو جگہ دینا ہوگی۔ ایسا ہوگا تو ہی ’محبت کے رشتے‘ میں تشدد کی بات یا خبریں سننے کو نہیں ملیں گی۔