انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کے روز حزب اختلاف کی 20 جماعتوں کے بائیکاٹ اور سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان نئی پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح کیا ہے۔
اس موقعے پر وزیر اعظم نریندر مودی نے تمل ناڈو کے ادھینم مٹھ سے سینگول قبول کیا اور اسے نئی عمارت میں نصب کیا۔
ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ کا دعویٰ ہے کہ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے 14 اگست سنہ 1947 کو تمل پجاریوں کے ہاتھوں اسے قبول کیا تھا۔
امت شاہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہرو نے اسے حکومت کی منتقلی کی علامت کے طور پر قبول کیا تھا۔ لیکن تاريخ دانوں کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور ان کے خیال میں نہرو نے حکومت کی منتقلی کی علامت کے طور پر تو اسے قطعی قبول نہیں کیا ہو گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے افتتاح کے بعد ٹویٹ کیا کہ 'انڈیا کی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا جیسے ہی افتتاح ہوا ہمارے دل و دماغ فخر، امید اور وعدے سے بھر گئے۔ خدا کرے کہ یہ شاندار عمارت بااختیار بنانے کا گہوارہ بنے، خوابوں کو روشن کرے اور ان کی پرورش کرے۔ یہ ہماری عظیم قوم کو ترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچائے۔'
خیال رہے کہ پارلیمان کی نئی عمارت شروع سے ہی تنازعے کا شکار رہی ہے کیونکہ یہ وسیع سینٹرل وسٹا پروجیکٹ کا حصہ ہے اور حزب اختلاف نے اسے فضول خرچی قرار دیا تھا۔
نئی عمارت کی مخالفت کیوں؟
پارلیمان کی نئی عمارت کا بائیکاٹ مودی کے ہاتھوں افتتاح کے معاملے پر ہے۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ اس کا افتتاح انڈیا کی صدر دروپدی مرمو کے ہاتھوں ہونا چاہیے تھا۔
انڈین میڈیا کو جاری کیے جانے والے ایک مشترکہ بیان میں 19 اپوزیشن جماعتوں نے مودی کے ہاتھوں افتتاح کو 'نا صرف سنگین توہین بلکہ جمہوریت پر براہ راست حملہ' قرار دیا۔ ان جماعتوں کا موقف ہے کہ وہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے مخالف نہیں لیکن مودی کے ذریعے افتتاح کے خلاف ہیں۔
ان کا یہ موقف بھی ہے کہ پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح ایک اہم موقع ہے اور اس لحاظ سے انھوں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا: 'ہمارے اس یقین کے باوجود کہ حکومت جمہوریت کو خطرے سے دو چار کر رہی ہے، اور جس آمرانہ انداز میں نئی پارلیمنٹ کی تعمیر کی گئی ہے اس پر ہماری ناراضگی کے باوجود ہم اپنے اختلافات کو ختم کرنے اور اس موقع کو یادگار بنانے کے لیے تیار ہیں۔'
حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ صدر مملکت نا صرف ریاست کا سربراہ ہوتا ہے بلکہ پارلیمنٹ کا ایک لازمی حصہ بھی ہے کیونکہ وہی اسے طلب کرتا ہے، ملتوی کرتا ہے اور وہی اس سے خطاب بھی کرتا ہے۔
'مختصر یہ کہ پارلیمنٹ صدر کے بغیر کام نہیں کر سکتی، اس کے باوجود وزیر اعظم نے ان کے بغیر پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ غیر مہذب فعل صدر کے اعلیٰ عہدے کی توہین ہے، اور آئین کی حرف اور روح دونوں طرح سے خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ سب کی شمولیت کے جذبے کی نفی کرتا ہے جس کے تحت قوم نے اپنی پہلی آدیواسی (قبائلی) خاتون کو صدر بنتے دیکھا ہے۔'
تاہم حزب اختلاف کی کم از کم پانچ پارٹیوں نے اس افتتاح میں شامل ہونے کا کہا ہے۔
پارلیمان کی نئی عمارت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
انڈیا کو پارلیمان کی نئی عمارت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور نئی عمارت کیسی ہوگی یہ سوال لوگوں کے ذہن میں ایک عرصے سے موجود ہے۔ جہاں تک نئی عمارت کا تعلق ہے تو اس کی ایک ویڈیو وزیر اعظم نریندر مودی کے ٹوئٹر ہینڈل سے گذشتہ دنوں جاری کی گئی ہے جس میں اسے دیکھا جا سکتا ہے۔
نئی عمارت سینٹرل وسٹا پروجیکٹ کا حصہ ہے جس پر 20 ہزار کروڑ کا خرچہ آئے گا۔ یہ دارالحکومت نئی دہلی کے مرکز میں واقع راج پتھ کے دونوں طرف کا علاقہ ہے۔ راج پتھ کا نام بدل کر اب کرتویہ پتھ رکھ دیا گيا ہے۔
سینٹرل وسٹا کے تحت ایوان صدر، پارلیمان، نارتھ بلاک، ساؤتھ بلاک، نائب صدر کا گھر وغیرہ شامل ہے۔
پارلیمان کی موجودہ عمارت تقریباً 100 سال پرانی ہو چکی ہے اور مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اس میں رکن پارلیمان کے بیٹھنے کے لیے وافر جگہ نہیں ہے۔
فی الحال ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں اراکین پارلیمان کی کل تعداد 545 ہے اور یہ تعداد سنہ 1971 کی مردم شماری پر مبنی ہے۔ یہ تعداد سنہ 2026 تک برقرار رہے گی لیکن اس کے بعد اس میں اضافے کا امکان ہے جس کے بعد نئے رکن پارلیمان کے بیٹھنے کے لیے وہاں جگہ نہیں ہو گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ آزادی سے پہلے جب پارلیمنٹ ہاؤس بن رہا تھا تو سیور لائن، ایئر کنڈیشننگ، فائر فائٹنگ، سی سی ٹی وی، آڈیو ویڈیو سسٹم جیسی چیزوں کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا تھا۔
بدلتے وقت کے ساتھ ان سہولیات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں شامل کیا گیا لیکن اس کی وجہ سے عمارت میں سیلن پیدا ہوئی اور اس میں آگ لگنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
جب پارلیمنٹ ہاؤس تقریباً 100 سال پہلے بنایا گیا تھا تو اس وقت دہلی سیزمک زون-2 میں تھا، لیکن اب یہ سیزمک زون-4 تک پہنچ گیا ہے۔
اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ سینکڑوں ملازمین ایسے ہیں جو پارلیمنٹ میں کام کرتے ہیں۔ مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے پارلیمنٹ ہاؤس میں کافی ہجوم ہو گیا ہے۔
نئی پارلیمنٹ کتنی مختلف ہے؟
پارلیمنٹ میں لوک سبھا کی عمارت کو قومی پرندے مور کی تھیم پر اور راجیہ سبھا کو قومی پھول کنول کی تھیم پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔
پرانی لوک سبھا عمارت کے ہال میں زیادہ سے زیادہ 552 لوگ بیٹھ سکتے ہیں جبکہ نئی عمارت میں 888 نشستوں کی گنجائش ہے۔
راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا کی پرانی عمارت میں 250 ارکان کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، جب کہ نئی عمارت کے ہال میں گنجائش بڑھا کر 384 کر دی گئی ہے۔ نئی عمارت کے مشترکہ اجلاس کے دوران 1272 ارکان وہاں بیٹھ سکیں گے۔
اس کے علاوہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں اور کیا ہو گا؟
حکام کے مطابق تمام اراکین پارلیمنٹ کو نئی عمارت میں علیحدہ دفاتر دیے جائیں گے، جن میں 'پیپر لیس دفاتر' کے ہدف کی جانب بڑھنے کے لیے جدید ڈیجیٹل سہولیات ہوں گی۔
نئی عمارت میں ایک عظیم الشان کانسٹی ٹیوشن ہال ہوگا جو انڈیا کے جمہوری ورثے کی عکاسی کرے گا۔ انڈیا کے آئین کی اصل کاپی بھی وہیں رکھی جائے گی۔
اس کے علاوہ ارکان پارلیمنٹ کے بیٹھنے کے لیے ایک بڑا ہال، ایک لائبریری، مختلف کمیٹیوں کے لیے کئی کمرے، کھانے کے کمرے اور پارکنگ کے لیے کافی جگہ ہو گی۔
اس پورے منصوبے کا تعمیراتی رقبہ 64,500 مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نئی پارلیمنٹ کا رقبہ موجودہ پارلیمنٹ کی عمارت سے 17 ہزار مربع میٹر زیادہ ہے۔
Getty Imagesانڈین پارلیمان کی یہ عمارت تقریبا 100 سال پرانی ہےپرانے پارلیمنٹ ہاؤس کا کیا بنے گا؟
پرانے پارلیمنٹ ہاؤس کو برطانوی ماہر تعمیرات سر ایڈون لوٹینز اور ہربرٹ بیکر نے 'کونسل ہاؤس' کے طور پر ڈیزائن کیا تھا۔ اسے بنانے میں چھ سال (1921-1927) لگے تھے۔ اس وقت اس عمارت میں برطانوی حکومت کی قانون ساز کونسل کام کرتی تھی۔
اس وقت اس کی تعمیر پر 83 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے جبکہ آج نئی عمارت کی تعمیر میں تقریباً 862 کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔
جب انڈیا آزاد ہوا تو 'کونسل ہاؤس' کو پارلیمنٹ ہاؤس کے طور پر اپنا لیا گیا۔
حکام کے مطابق موجودہ پارلیمنٹ ہاؤس کو پارلیمانی تقریبات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
سوشل میڈیا پر اس عمارت پر تعریف اور تنقید دونوں کی جا رہی ہیں۔
پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح سے قبل بالی وڈ سٹار شاہ رخ خان نے مائی پارلیمنٹ مائی پرائڈ کے ہیش ٹیگ کے تحت نئی عمارت کی تعریف کی ہے اور اسے امیدوں کا نیا گھر کہا ہے۔
انھوں نے لکھا: نیا پارلیمنٹ ہاؤس ان لوگوں کے لیے کتنا شاندار گھر ہے جو ہمارے آئین کو برقرار رکھتے ہیں، جو اس عظیم ملک کے ہر شہری کی نمائندگی کرتے ہیں، اور نریندر مودی وہ شخص ہیں جو اس میں موجود ہر فرد کے تنوع کی حفاظت کرتے ہیں۔
'نئے انڈیا کے لیے ایک نیا پارلیمنٹ ہاؤس۔۔ انڈیا کی عظمت کے پرانے خواب کے ساتھ۔ جئے ہند!'
https://twitter.com/iamsrk/status/1662506616317693952
دوسری جانب معروف وکیل اور سوشل ایکٹوسٹ پرشانت بھوشن نے لکھا: 'مودی ہمیں ایک ایسے نئے انڈیا کی ایک جھلک دکھاتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ ہمارا آئین ریاست میں مذہب کی مداخلت کی اجازت نہیں دیتا، لیکن یہاں یہ نظر آرہا ہے!'
اور اس کے ساتھ انھوں نے ایک تصویر شئیر کی ہے جس میں وزیراعظم نریندر مودی مذہبی رہنماؤں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا موازنہ تابوت سے کیا ہے۔ پارٹی کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے ٹویٹ کی گئی تصویر میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے ساتھ تابوت کی تصویر لگاتے ہوئے پوچھا ہے کہ یہ کیا ہے؟
آر جے ڈی نے کئی دیگر پارٹیوں کی طرح نئی پارلیمنٹ کی عمارت کی افتتاحی تقریب کا بائیکاٹ کیا ہے۔ آر جے ڈی کا کہنا ہے کہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح صدر کے ہاتھوں ہونا چاہیے۔
انڈین پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقعے پر مختلف مذاہب کی جانب سے دعائیہ کلمات بھی کہے گئے ہیں۔