شونتر پاس پر برفانی تودے کا نشانہ بننے والا خانہ بدوش خاندان: ’لاشیں دفنانے کے بعد مویشیوں کے لیے واپس آنا ہے‘

بی بی سی اردو  |  May 28, 2023

’شونتر پاس پر موسم بہت خراب تھا۔ بارش اور برف باری جاری تھی۔ ہم نے کوشش کی کہ خچروں کے گزرنے کا راستہ بھی بن سکے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔‘

گلگت بلتستان کے ضلع استور کے علاقے شونتر پاس پر برفانی تودے کے حادثے کا شکار ہونے والے خانہ بدوشوں کے قافلے کے سربراہ محمد سلیمان بتاتے ہیں کہ ’پھر فیصلہ کیا کہ اپنے قافلے میں سے 20 مردوں، خواتین اور بچوں کو مال مویشی کے ہمراہ لے کر آگے نکل جاؤں جبکہ کچھ لوگ خچروں کے ساتھ رکیں گے اور پیچھے سے آنے والے قافلے کے پہنچنے کے بعد ان کے ساتھ مل کر خچروں کے لیے راستہ بنا لیں گے۔‘

برفانی تودہ گرنے کی وجہ سے پیش آنے والے اس حادثے میں ریسکیو حکام کے مطابق ایک چار سالہ بچے سمیت آٹھ افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔

محمد سلیمان بتاتے ہیں کہ اس حادثے میں ان کے دو چچا زاد بھائی عبدالحمید اور محمد شبیر ہلاک ہوئے۔محمد شبیر غیر شادی شدہ تھے جبکہ عبدالحمید اپنے بیٹے اور اہلیہ پری بی بی سمیت ہلاک ہوئے۔

محمد سلیمان نے بتایا کہ ’ہم خانہ بدوش لوگ جب بھی کسی سفر پر جاتے ہیں تو واپسی پر روات میں قیام کرتے ہیں جہاں ہمارا آدھا گھرانہ انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ ہر سفر سے پہلے شادیاں طے کرکے جاتے ہیں اور واپسی پر محمد شبیر کی شادی بھی طے تھی۔‘

محمد سلیمان کا کہنا تھا کہ ’ہم سب ہی قریبی رشتہ دار تھے۔ میرا چار سالہ چچازاد بھائی بھی ہلاک ہو گیا ہے۔ چار خواتین، دو بچے اور دو بڑے ہلاک ہوئے ہیں۔‘

BBC’کیل میں رکنے نہیں دیا گیا‘

گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے سانحہ شونتر کی تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق برفانی تودہ گرنے کا واقعہ رات آٹھ بجے پیش آیا تھا۔ اس برفانی تودے کی زد میں آنے والے گجر برادری کے افراد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے استور کی طرف آ رہے تھے۔

اس واقعے میں ہلاک ہونے والے آٹھ افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جبکہ زخمی افراد کو علاج کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال استور منتقل کر دیا گیا ہے۔

محمد سلیمان بتاتے ہیں کہ انھوں نے دس رمضان کو چکوال سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔

’ہماری واپسی گلگت بلتستان کے علاقوں سے اگست میں ہونی تھی۔ قافلے میں 40 لوگ تھے جن میں بچے، عورتیں، مرد شامل تھے۔ مال مویشی کے ریوڑ اور خچر بھی ہمارے ساتھ تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے بڑے حادثات ہوتے ہیں مگر اس طرح کا جان لیوا حادثہ کبھی نہیں ہوا۔

’ہمارا سفر پرسکون تھا۔ جب ہم کشمیر میں تھے تو بات کر رہے تھے کہ اس دفعہ کچھ نہیں ہوا لیکن جب ہم کیل پہنچے تو ہمارے ساتھ واقعات کا آغاز شروع ہو گیا۔‘

’ہم پر دباؤ تھا کہ ہم فی الفور کیل کو چھوڑ دیں۔ اگر ہمیں کیل میں کچھ دن رکنے دیا جاتا تو شاید ہم اس حادثے کا شکار نہ ہوتے۔‘

محمد سلیمان کہتے ہیں کہ ’کیل میں لوگوں نے ہمیں رکنے نہیں دیا۔ سب نے ہمیں جلدی جلدی مال مویشی نکالنے کا کہہ دیا تھا جس کے بعد ہم گلگت بلتستان کی طرف چل پڑے۔ جب ہم استور کے شونتر پاس کے ٹاپ کے قریب پہنچے تو موسم خراب ہو گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہاں گذشتہ دن اور پھر رات کو بارش اور ہلکی برف باری جاری تھی ’عموماً اس موسم میں وہاں پر نہ تو بارش ہوتی ہے اور نہ ہی برفباری جس بنا پر شونتر پاس سے گزرنے کا راستہ نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شونتر پاس پر وہ ایک ہی رات رکے تھےاور اس رات ہی بارش شروع ہو گئی تھی۔

محمد سلیمان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں شونتر پاس سے راستہ بنانا تھا۔ ہم لوگوں نے بڑی مشکل سے چھوٹے مویشیوں کے گزرنے کا راستہ بنایا لیکن خچروں کا راستہ نہیں بن پا رہا تھا۔ پھر فیصلہ کیا گیا کہ میں مال مویشی، کچھ مردوں اور عورتوں کے ہمراہ آگے نکل جاوں جبکہ خچر اور باقی لوگ پیچھے سے آنے والے قافلوں کے ساتھ مل کر راستہ بنائیں گے اور ہم آگے مل جائیں گے۔‘

BBC

وہ کہتے ہیں کہ 45 خچر سامان سے لدے تھے ’خچر بہت قیمتی ہوتے ہیں اور ان کو چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ قافلہ بارش کا مقابلہ کرتا رہا مگر کب تک۔۔۔ جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ کچھ لوگ خچروں کو چھوڑ کر گزرنے کی کوشش کریں۔‘

محمد سلیمان کا کہنا تھا کہ ’کچھ ماؤں اور بہنوں نے اپنے بچوں اور بھائیوں کو اٹھایا اور انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیچے پہنچ گئے تھے جبکہ باقی بھی ابھی نیچے اترنے کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک برفانی تودہ گر پڑا تھا۔ موقع ہی پر آٹھ لوگ دب گئے تھے۔‘

’خچروں کی آوازیں آتی رہیں‘

محمد سلیمان کہتے ہیں کہ ’نیچے پہنچنے والے لوگوں کو اندازہ ہو گیا کہ ہمارے لوگ اس حادثے سے متاثر ہو چکے ہیں۔‘

’ہمیں صبح روشنی کے وقت یہ اطلاع ملی تو میں فوراً اپنے ساتھیوں کے ہمراہ موقع پر پہنچ گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں موقع پر پہنچا تو وہاں میں نے خچر تو نہیں دیکھے مگر ان کی آوازیں سنی تھیں۔ دور سے مجھے اپنا قیمتی سازوسامان بھی نظر آیا تھا۔ مگر یہ بہت ہی مشکل مقام تھا۔ کوشش کے باوجود نہ تو خچروں کو نکال سکے اور نہ ہی سامان کو اٹھا سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ برفانی تودے میں دبی ہوئی چار لاشوں کو نیچے لانے کے بعد ان کے بدن، ٹانگوں اور بازؤوں میں طاقت ختم ہو گئی تھی۔

بروقت طبی امداد نے چار لوگوں کی زندگی کو بچا لیا

اس ہی موقع پر امدادی ٹیمیں بھی پہنچنا شروع ہوئیں اور بروقت طبی امداد نے چار لوگوں کی زندگی کو بچا لیا۔

عبدالباری ریسیکو 1122 استور کے میڈیکل ٹیکنشین ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ انھیں دس بجے واقعہ کی اطلاع ملی ’یہ مقام دور تھا۔ دو گھنٹے گاڑی کا سفر کیا اور دو گھنٹے پیدل چل کر جائے وقوعہ پر پہنچے تو چار لاشوں کو نیچے لایا گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دیکھا کہ حالات بہت برے تھے۔ کچھ خواتین نے اپنے چھوٹے بچوں کے ہمراہ بارش شروع ہونے کے بعد جان بچانے کے لیے رات کے اندھیرے اور بارش میں سفر کیا۔ اگر وہ ہمت کر کے یہ سفر نہ کرتیں تو شاید جانی نقصان زیادہ ہوتا اور زیادہ بچے ہلاک ہو جاتے۔‘

عبدالباری کہتے ہیں کہ ’وہاں پر پہلے سے موجود لوگوں کے ساتھ مل کر ہم نے باقی لاشوں کو نکالا۔ مجموعی طور پر آٹھ لاشیں نکالی گئی ہیں۔ اس موقع پر تین شدید زخمی موجود تھے جن کو فراسٹ بائیٹ ہوچکا تھا کیونکہ اس مقام پر درجہ حرارت منفی میں تھا۔‘

BBC’خاندان والوں کو اب تک اصل واقعہ کی اطلاع نہیں دی‘

عبدالباری کہتے ہیں کہ ’تینوں زخمی افراد آکسیجن کی کمی کا بھی شکار ہو چکے تھے۔ ہم نے فورا ان کو آکسیجن دی۔ کمبلوں سے ان کو گرم کیا اور کچھ ضروری ادوایات فراہم کیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’اگر ہم لوگ چند منٹ بھی اور لیٹ ہو جاتے تو ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی تھیں۔‘

محمد سلیمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے روات میں انتظار کرنے والے خاندان والوں کو اب تک اصل واقعہ کی اطلاع نہیں دی۔

’دونوں بھائیوں کی ہلاکت کے بارے میں بھی نہیں بتایا۔ سوچ رہا ہوں کہ کیسے بتاوں اور کیا بتاؤں مگر بتانا تو ہے۔ جب ان کو اصل واقعہ پتا چلے گا تو قیامت ٹوٹ پڑے گی مگر اس کے باوجود مجھے لاشیں دفن کرنے کے بعد فوراشونتر پاس پہنچنا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’شونتر پاس میں ہمارے خچر پھنسے ہوئے ہیں۔ مال مویشی کی رکھوالی کے لیے کچھ لوگ چھوڑے ہیں۔ یہ خچر سخت جان ہوتے ہیں ور ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے پہنچنے تک وہ محفوظ ہوں گے۔ ورنہ ہمارا بہت زیادہ نقصان ہو جائے گا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More