سرینگر میں جی 20 اجلاس: ’سیاح کشمیر کا رُخ کریں تو ہمارا کاروبار چلے گا‘

بی بی سی اردو  |  May 27, 2023

BBC

سرینگر کی رہنے والی 28 سالہ فخرالنسا نے جب انڈین حکومت کے چند وزرا کا یہ اعلان سُنا کہ بہت جلد کشمیر میں غیرملکی سیاحوں کا پھر سے تانتا بندھے گا تو اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔

یہ اعلان سرینگر میں گذشتہ ہفتے منعقد ہونے والے G20 ممالک سے آئے مندوبین کے اجلاس کے بعد کیا گیا۔

چند سال پہلے لیبارٹری ٹیکنیشن کی ٹریننگ لینے کے بعد فخرالنساٴ نے فیصلہ کیا کہ نوکری نہیں بلکہ وہ کاروبار کریں گی۔ انھوں نے ایک ٹریول ایجنسی قائم کی اور اپنا روزگار کمانے لگیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر واقعی غیرملکی سیاح آئیں گے تو ہمارا بزنس بہت ترقی کرے گا۔ کورونا وبا کے بعد دو سال تک اتنی پرابلم ہوئی کہ ایک وقت میں نے سوچا تھا کہ یہ سب چھوڑ دوں، لیکن پچھلے سال سے سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو بزنس سنبھل گیا۔ لیکن غیرملکی ٹورسٹ آئیں گے تو بہت ترقی ہو گی۔‘

چین، ترکی، مصر اور سعودی عرب کے بائیکاٹ کے باوجود انڈیا نے سیاحت سے متعلق جی 20 کے ورکنگ گروپ کا تیسرا اجلاس کڑے سکیورٹی حصار میں سرینگر کے انٹرنیشنل کنوینشن سینٹر میں منعقد کیا۔ خوبصورت جھیل ڈل کے کنارے واقع اس سینٹر کے ارد گرد پانچ کلومیٹر کا علاقہ سیل کیا گیا تھا اور انڈین بحریہ کے خصوصی کمانڈوز ’مارکوس‘ جھیل کے اندر تعینات تھے۔

شہر کو کئی مہینوں سے دلہن کی طرح سجایا جارہا تھا اور اجلاس سے چند روز قبل جگہ جگہ جامع تلاشی لی گئی اور شہر کے اکثر علاقوں میں سکول بند کئے گئے۔

BBC

وزیراعظم کے دفترمیں تعینات خصوصی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا ’جموں کشمیر دنیا کی خوبصورت ترین جگہوں میں سے ہے اور یہ فلموں کی شوٹنگ کے لیے سستی اور مناسب جگہ ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کو یہاں آنا چاہیے اور جموں کشمیر کے لوگ انڈیا کی ترقی کے سفر میں شریک ہورہے ہیں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ علیحدگی پسند بیانیے کو شکست ہوچکی ہے کیونکہ عام کشمیری آگے بڑھ چکا ہے۔ ’پہلے اگر اس پیمانے کی کانفرنس یہاں ہوتی تو علیحدگی پسند ہڑتال کی کال دیتے تھے، لوگ پتھراوٴ کرتے تھے۔ لیکن آج لوگ جشن منارہے ہیں، معمول کی زندگی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘

اگست 2019 میں کشمیر کی آزاد حیثیت کے خاتمے کے بعد ایک سال تک حالات کشیدہ تھے، تاہم پچھلے تین سال سے حالات ماضی کے مقابلے میں پُرسکون ہیں اور سیاحوں کی بڑی تعداد نے اس مدت کے دوران کشمیر کی سیر کی۔ حکام کے مطابق گذشتہ برس ایک کروڑ 80 سیاحوں نے جموں کشمیر کی سیر کی جن میں سے 26 لاکھ کشمیر وادی کی سیر پر آئے۔ اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ اس سال کے آخر تک دو کروڑ سیاح کشمیر آئیں گے۔

سرینگر میں جھیلِ ڈل کے کنارے ممبئی سے آئیں ایک خاتون سیاح راج شری منڈالے نے بتایا: ’میں نے سنا کہ یہاں G20 میٹنگ ہوگی ہم نے پلان بنالیا۔ میں پہلی بار آئی ہوں، کشمیر تو جنت ہے۔ یہاں کے پہاڑ، جھیلیں، وادیاں سب کچھ اتنا سُندر ہے کہ میں چاہتی ہوں واپس ہی نہ جاوٴں۔‘

BBC’سب ٹھیک ہے تو غیرملکی سیاح کیوں نہیں آتے‘

فخرالنسا جیسے کئی نوجوانوں نے سیاحت کی صنعت سے روزگار کمانا شروع کیا ہے۔ کچھ لوگ ٹریول ایجنسی چلاتے ہیں، کچھ نے ہوٹل یا گیسٹ ہاوس بنائے ہیں۔ واضح رہے کشمیر کی معیشت میں سیاحتی صنعت کا صرف آٹھ فی صد حصہ ہے، تاہم اس صنعت کے ساتھ بالواسطہ اور بلا واسطہ پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ وابستہ ہیں۔۔

جھیل ڈل میں شکارا چلانے والے ایک نوجوان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اگر سب ٹھیک ہے، انڈیا سے لاکھوں لوگ آتے ہیں، تو پھر مسئلہ کیا ہے، غیرملکی سیاح کیوں نہیں آتے۔ میں کہتا ہوں فارن ٹورسٹ یہاں کانفرنس کرنے سے نہیں آئے گا۔ اس کے لیے انڈیا کی گورنمنٹ کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھاتی۔‘

یہ پوچھنے پر کہ ٹھوس قدم کیا ہوگا، نوجوان شکارا ڈرائیور نے کہا کہ ’جو بھی فارین ٹورسٹ انڈیا آتا ہے، اس کے ویزا پر ایکسپٹ کشمیر (کشمیر کے علاوہ) لکھا ہوتا ہے۔ اگر وہ کشمیر آنا چاہئیں تو انھیں انشورنس نہیں ملتی۔ ٹھوس قدم یہ ہوتا ہے، انڈیا اگر اس سمت میں کام کرے تو واقعی فارین ٹورسٹ آئیں گے۔‘

BBC

واضح رہے 1990 میں مسلح شورش شروع ہوتے ہی انڈیا نے جموں کشمیر میں ’ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ‘ لاگو کردیا جس کے تحت پورا جموں کشمیر ایک ڈسٹربڈ یعنی شورش زدہ علاقہ ہے۔

یہی وجہ ہے بیشتر مغربی ممالک نے اپنے شہریوں کے لیے ٹریول ایڈوائزری جاری کی جس میں کہا گیا کہ جموں کشمیر جانا محفوظ نہیں ہے۔

شورش کے دوران ہی سنہ 1995 میں مسلح شدت پسندوں نے پہلگام کے جنگلوں سے ایک امریکی شہری سمیت چھ سیاحوں اور ان کے دو گائیڈز کو اغوا کر دیا۔

کئی ہفتوں کی تلاش کے بعد ناروے کے ایک شہر کی سرکٹی لاش برآمد ہوئی جبکہ امریکی سیاح فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ باقی چار سیاحوں کا ابھی تک کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ اس واردات کے بعد مزید کئی ممالک نے جموں کشمیر کو سیاحت کے لئے غیر محفوظ قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ غیرملکی سیاح اب کشمیر نہیں آتے۔

BBCکشمیر میں G20 اجلاس کی کیا اہمیت ہے؟

سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار ہارون ریشی کہتے ہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر ایک عالمی ایونٹ کا سرینگر میں ہونا اپنے آپ میں بہت ہی اہم ہے۔ ’ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ انڈیا دُنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے، اُس نے کشمیر میں پاکستانی حمایت والی علیحدگی پسند سوچ کو شکست دی ہے، امن بحال ہوگیا ہے اور لوگ ترقی کرنا چاہتے ہیں۔‘

تاہم ہارون مزید کہتے ہیں کہ ایک طرف اس عالمی ایونٹ کے کامیاب انعقاد پر انڈیا خوش ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں گزشتہ کئی دہائیوں سے انڈین حکومتوں کی کوشش رہی ہے کہ کشمیر کو عالمی راڈار سے اُتارا جائے۔ ’اقوام متحدہ میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق خصوصی رپورتار نے اس ایونٹ کی مخالفت کی اور چین نے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ انڈیا 2019 کو آزاد حیثیت ختم کرنے کی کارروائی پر عالمی حمایت جتانے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ تو ایک حساب سے انڈیا نے کشمیر کے معاملے کو ایک بار پھر عالمی راڈار پر لایا ہے۔‘

BBC

واضح رہے امریکہ، چین، ترکی، سعودی عرب اور یورپی یونین سمیت دنیا کی 20 طاقت ور معیشتوں پر مشتمل اس اتحاد کی سربراہی اس سال انڈیا کررہا ہے۔ ملک کی سبھی ریاستوں اور مرکزی انتظام والے خطوں کے 60 شہروں میں 250 نشستوں کا اہتمام کیا جارہا ہے، جن میں کشمیر بھی ایک ہے۔

سرینگر میں ایک ہوٹل کے مالک شیخ عمر کہتے ہیں: ’ہم یہ اعلان سُن کر بہت خوش ہیں کہ فارن ٹورازم بحال ہوجائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو میں بینک سے قرض لے کر دوسرا ہوٹل تعمیر کروں گا۔‘

لیکن اکثر ہوٹل مالکان کہتے ہیں کہ کشمیر کے حالات کو پُرامن قرار دینے کے باوجود انڈیا کشمیر میں فارن ٹورازم میں حائل قانونی اور سفارتی رکاوٹوں کو دُور نہیں کر رہا ہے۔

BBCخوشحال دور کی اُمید

اجلاس کے اختتام پر پریس کانفرنس کے دوران انڈیا میں G20 اجلاسوں کے نگران امیتابھ کانت سے جب مغربی ممالک پر جاری ٹریول ایڈوائزری سے متعلق سوال پوچھا گیا تو انھیں بہت غصہ آیا۔ کیا ایڈوائزری بول رہے ہو، کہاں ہے ایڈوائزری، کوئی پابندی نہیں۔ یہ جو لوگ آئے ہیں، یہ پھر کیسے آتے۔‘

کشمیر میں غیرملکی سیاحت کی بحالی کے دعوؤں میں موجود ابہام کے باوجود یہاں کی ٹورازم صنعت سے جُڑے لوگ پرُامید ہیں کہ طویل کشیدگی اور اقتصادی بحران کے بعد پھر سے ایک خوشحال دور شروع ہوجائے گا۔

ٹریول ایجنٹ فخرالنساٴ کہتی ہیں کہ ’اگر فارن ٹورازم شروع ہوئی تو میں صرف اپنے لیے روزگار نہیں کماوٴں گی بلکہ دوسروں کے لیے بھی روزگار کے مواقع پیدا کروں گی۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More