Getty Images
معروف بزنس مین ایلون مسک کی برین چپ بنانے والی کمپنی نیورا لنک نے کہا ہے کہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے اسے انسانی جسم پر ٹیسٹ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
ارب پتی ایلون مسک کی کمپنی نیورالنک ایک چپ کے ذریعے لوگوں کے دماغ کو کمپیوٹر سے جوڑنا چاہتی ہے۔
نیورالنک نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایف ڈی اے کی منظوری 'ایک اہم پہلے قدم کی نمائندگی کرتی ہے جو ایک دن ہماری ٹیکنالوجی کو بہت سے لوگوں کی مدد کرنے کے قابل بنائے گی۔'
بہر حال اس نے مطالعہ کے مقاصد کی وضاحت نہیں کی ہے اور صرف یہ کہا کہ وہ ابھی تک لوگوں کو تجربے کے لیے بھرتی نہیں کر رہا ہے، اور مزید تفصیلات جلد ہی دستیاب ہوں گی۔
Getty Imagesنیورالنک کا مقصد کیا ہے؟
کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ کمپیوٹر کو انسانی دماغ سے براہ راست بات چیت کرنے کی اجازت دینے کے لیے ایک نیا طریقہ متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔
امید ہے کہ ایسا کرنے سے، نیورالنک پیچیدہ اعصابی حالات سے نمٹنے کے قابل ہو جائے گی جو اب تک لاعلاج ثابت ہوئے ہیں۔ یہ فالج اور اندھے پن سے لے کر ڈپریشن اور شیزوفرینیا (دماغی خلل) تک کے مسائل کو دور کرنے کے قابل ہوں گے۔
یہ کیسے کام کرتا ہے؟
اس کے تحت مریض کے دماغ میں براہ راست ایک چھوٹی سی مہر بند چپ لگائی جائے گی۔
یہ چپ 1,024 چھوٹے الیکٹروڈز سے منسلک ہو گی جو کہ انسانی بالوں سے زیادہ موٹی نہیں ہے اور یہ ایک بیٹری سے منسلک ہوگی جسے وائرلیس کے ذریعے سے چارج کیا جا سکتا ہے۔ یہ چپ ایک بیرونی کمپیوٹر کے ساتھ ایک انٹرفیس یعنی ربط بنائے گا اور اس طرح اسے سگنل بھیجنے اور وصول کرنے کی اجازت ہوگی۔
Getty Imagesکیا یہ محفوظ ہے؟
اس میں تین عناصر ہیں: مختصر مدت کے جسمانی خطرات، طویل مدتی طبی خدشات اور اخلاقی تحفظات۔
دماغ کی کسی بھی سرجری میں خطرہ مضمر ہوتا ہے۔ اس دوران جسمانی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے اور جسم باہری دخل کو مسترد بھی کر سکتا ہے۔ جانوروں پر چپس کی وسیع (اور متنازع) جانچ کی گئی ہے۔
فروری میں امریکی محکمہ زراعت میں ایک شکایت درج کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اس ٹیکنالوجی کے تجربے کے لیے مبینہ طور پر مکاک بندروں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔
ایف ڈی اے کی جانب سے انسان پر تجربہ کرنے کی منظوری دینے کا مطلب یہ ہے کہ کمپنی نے کچھ چیلنجز پر قابو پالیا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ اس چپ کے زیادہ سنگین خدشات طویل مدتی ہوں جو انسانی دماغ کے اندر اس طرح کے آلے کے کام کرنے کے نتیجے میں سامنے آئیں۔ بہر حال دماغ ایک بہت ہی پیچیدہ عضو ہے جسے ہم نے ابھی سمجھنا شروع کیا ہے۔
یہ بات واضح ہے اس بارے میں کوئی ڈیٹا نہیں ہے جس سے کہ ممکنہ نقصانات کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکے۔ انسانوں پر تجربے کے ساتھ اس میں وضاحت آئے گی اور یہی تجربات اسی طرح کی دوسری مصنوعات کی ترقی کی کلید ہو گی۔
اس کا آخری پہلو اخلاقی تحفظات ہیں اور یہ زیادہ انفرادی یا موضوعی ہے۔ اس طرح کی ٹیکنالوجی میں ڈیٹا کے تحفظ، اس کے ممکنہ استعمال اور انسانی افزائش کے امکانات کے بارے میں خدشات شامل ہیں۔
اس کا مطلب انسانی دماغ کی صلاحیتوں کو مہمیز لگانا یا بڑھانا ہے یعنی ہم اس وقت جو کرنے کے قابل ہین اس سے آگے کرنے کے اہل ہو جائیں۔ مثال کے طور پر، انسانی ادراک، حسی ادراک، یا جسمانی صلاحیتوں کو بہتر بنانا وغیرہ۔ یہ ہمیشہ شدید جذبات کو ابھارتا ہے اور اخلاقی سوالات کو جنم دیتا ہے اس لیے اس شعبے میں باریک بینی کے ساتھ سخت ضابطے کی بات کی جائے گی۔
کمپنی نیورالنک چپس کی مدد سے کئی دوسری بیماریوں اور مسائل سے نجات کا دعویٰ بھی کرتی ہے۔ کمپنی کے شریک بانی ایلون مسک نے کہا ہے کہ اس چپ کی مدد سے موٹاپے کا بھی علاج کیا جا سکتا ہے۔
فی الحال ایف ڈی اے نے نیورالنک کے دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نیورالنک نے پہلے بھی ایک بار ایف ڈی اے سے منظوری لینے کی کوشش کی تھی لیکن چپ کی حفاظت کے متعلق شکوک و شبہات کے باعث اسے مسترد کر دیا گیا تھا۔
Getty Imagesزندگی بدل جائے گی
نیورالنک اپنی چپس کے ذریعے اندھے پن سے لے کر فالج تک کی بیماریوں کا علاج کرنے کی کوشش کرے گا۔
کمپنی کے مطابق یہ جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے کمپیوٹر اور موبائل استعمال کرنا آسان بنا سکتا ہے۔
کمپنی نے اس چپ کو بندروں پر آزمایا ہے۔ اس چپ کو دماغ سے نکلنے والے سگنلز کی تشریح کرنے اور بلیو ٹوتھ کے ذریعے معلومات کو کسی ڈیوائس تک پہنچانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
ایلون مسک نے حال ہی میں کہا تھا کہ اس ٹیکنالوجی کے بعد ان لوگوں کی پریشانیاں بھی کم ہو جائیں گی جنھیں لگتا ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانوں کو پیچھے چھوڑ دے گی۔
یہ بھی پڑھیے
’ایسے مریضوں کا علاج ممکن ہو سکے گا جو چل، بول یا دیکھ نہیں سکتے‘
سائنس نے سو سال میں دنیا کیسے بدل دی؟
’انسانی دماغ میں پائے جانے والے خلیوں یا نیورونز کی تعداد کہکشاں میں موجود ستاروں سے بھی زیادہ‘
خطرات کیا ہیں؟
کمپنی کی ویب سائٹ پر یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ انجینئرنگ کے دوران چپ کی حفاظت اور قابل اعتماد بنانے کو ترجیح دے گی۔
لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ نیورالنک کو دماغی چپ کے لیے وسیع پیمانے پر جانچ کی ضرورت ہوگی اور اسے اس سے منسلک اخلاقی چیلنجز سے نمٹنا پڑے گا۔
نیورلنک کو سنہ 2016 میں تشکیل دیا گیا تھا۔ ایلون مسک اس کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ ہمیشہ اس ٹیکنالوجی کو متاثر کن بتاتے رہے ہیں۔
کمپنی کا ہدف یہ تھا کہ سنہ 2020 میں وہ انسانی دماغ میں ایک چپ لگا سکے، بعد ازاں اس ہدف کو 2022 تک ملتوی کر دیا گیا۔
اسے گذشتہ سال دسمبر ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب اس پر جانوروں کے خلاف کام کرنے کا الزام لگایا گيا۔
لیکن نیورالنک نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
دماغی چپ کیا ہے؟
سائنس دان لوگوں کے دماغ میں ایک چپ لگانے کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ انسانی دماغ کو کمپیوٹر سے منسلک جا سکے۔
یہ کوئی سائنس فکشن نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ نیورالنک نے تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ لیکن منزل ابھی اتنی قریب بھی نہیں ہے۔
کمپنی نے ہر بار وعدہ کیا کہ وہ اسے اگلے سال شروع کرے گی، لیکن ہر بار لانچ کی تاریخ آگے بڑھتی رہی۔
نیورالنک نے پہلے کہا تھا کہ وہ اسے 2019 میں لانچ کرے گی، پھر کہا کہ دماغی امپلانٹ 2020 میں شروع ہو جائے گا۔
Getty Imagesفالج کی زد میں آنے والے چلنے کے قابلچپ کیسے کام کرے گی؟
لیڈز بیکٹ یونیورسٹی میں ڈاکٹر روز وائٹ ملنگٹن الیکٹرانکس انجینئرنگ پڑھاتی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ نیورالنک اس نئی ٹیکنالوجی کا استعمال دماغ کو کمپیوٹر یا دیگر ڈیوائس سے جوڑنے کے لیے کرے گا۔
ڈاکٹر روز نے کہا کہ 'خیال یہ ہے کہ یہ چپ دماغ کے برقی سگنلز کو ریکارڈ کرے گی اور فوری طور پر پروسیس کرے گی اور بلوٹوتھ کے ذریعے کمپیوٹر یا دوسرے ڈیوائس پر موجود ایپ پر بھیجے گی۔'
'یہ ان لوگوں کو مدد کرے گی جو اپنے ہاتھوں سے موبائل استعمال نہیں کر سکتے۔ بعد میں یہ لوگ بلیو ٹوتھ ماؤس کے ذریعے چپ کی مدد سے کمپیوٹر کو کنٹرول یا استعمال کر سکیں گے۔'
ڈاکٹر روز کا کہنا ہے کہ 'یہ ٹیکنالوجی برین مشین انٹرفیس پر برسوں کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ اسے پر عمل در آمد کرنے سے پہلے اسے مکمل کلینیکل ٹرائلز سے گزرنا پڑے گا۔ تب ہی اسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔'
BBCکیا دوسری کمپنیاں بھی اس قسم کی کوشش کر رہی ہیں؟
کئی کمپنیاں اس سمت میں کام کر رہی ہیں۔ اس میں سے کچھ نے کہا ہے کہ وہ نیورالنک کے مقابلے میں اپنی تحقیق میں آگے ہیں۔ بلیک راک نیورو ٹیک اسی طرح کے پروڈکٹ پر کام کر رہی ہے اور یہ بھی انسانی دماغ میں چپس لگا رہی ہے۔
اس ضمن میں بہت سے مختلف کام کیے جا رہے ہیں لیکن سب حد سے تجاوز نہیں کر رہے ہیں۔ فیس بک کی بنیادی کمپنی میٹا کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہے جس کے ذریعے لوگ اپنے دماغ سے ٹائپ کر سکیں گے۔
گذشتہ ہفتے ایک خبر سامنے آئی جس میں یہ کہا گيا کہ ایک مفلوج شخص کی سوئس سائنسدانوں نے دوبارہ چلنے میں مدد کی۔ مختصر یہ کہ یہ ایک تیزی سے پھیلتا ہوا میدان ہے جس میں بہت سی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔
نیورالنک میں ایلون مسک کی شمولیت اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ نیورالنک اکثر پبلسٹی کی دوڑ جیت جائے گی، لیکن یہ حتمی طور پر اس کی کامیابی کی ضامن نہیں۔
اس سے یہ بات سامنے آئے گی کہ کون سی ٹیکنالوجی بہترین کام کرتی ہے اور کون ریگولیٹرز اور بازار کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہتی ہے کہ وہ زیادہ محفوظ ہے۔