بھگت سنگھ کی پھانسی کا وقت کچھ غیر معمولی تھا۔ یہ پھانسی صبح سویرے نہیں بلکہ 23 مارچ کی شام ساڑھے سات بجے دی جانے تھی، یعنی سورج غروب ہونے کے بعد۔
لاہور جیل کے چیف سپرنٹنڈنٹ میجر پی ڈی چوپڑا ایک 23 سالہ دبلے پتلے نوجوان بھگت سنگھاور ان کے دو ساتھیوں کے ساتھ چلتے ہوئے پھانسی گھاٹ کی طرف جا رہے تھے۔
ڈپٹی جیل سپرینٹنڈنٹ محمد اکبر خان یہ سارا منظر دیکھتے ہوئے اپنے آنسو روکنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔
پھانسی گھاٹ کی طرف بڑھنے والا وہ شخص شاید اس وقت ہندوستان کا سب سے مشہور شخص بن چکا تھا۔ بھگت سنگھ کے ساتھ ان کے دو اور ساتھی سکھ دیو اور راج گرو بھی چل رہے تھے۔
ان تینوں نے برطانوی حکومت سے درخواست کی تھی کہ سیاسی قیدیوں کی حیثیت کے پیش نظر انھیں عام مجرموں کی طرح پھانسی نہ دی جائے بلکہ گولی مار کر ہلاک کیا جائے۔
لیکن برطانوی حکومت نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔ بھگت سنگھ دیگر دو قیدیوں کے بیچ میں چل رہے تھے۔ سکھ دیو ان کے بائیں اور راج گرو ان کے دائیں طرف تھے۔
بھگت سنگھ چلتے ہوئے ایک گانا گا رہے تھے ’دل سے نکلے گی نہ مر کے بھی وطن کی الفت، میری مٹی سے بھی خوشبوئے وطن آئے گی۔‘ دونوں ساتھی اپنی آواز اُن کے ساتھ ملا رہے تھے۔
بھگت سنگھ نے پھانسی سے پہلے پھانسی کے پھندے کو چوما۔ ستویندر جاس اپنی کتاب ’دی ایگزیکیوشن آف بھگت سنگھ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بھگت سنگھ نے اس لمحے کو محسوس کرنے کے لیے ملک کے لیے اپنی جان قربان کر دی لیکن وہ اس لمحے کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ پھانسی کا پھندہ انھوں نے خود اپنے گلے میں ڈالا۔ بھگت سنگھ کے بعد راج گرو اور سکھ دیو کو بھی پھانسی دی گئی۔‘
پھانسی کے وقت بھگت سنگھ کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔
کلدیپ نئیر اپنی کتاب ’واؤٹ فیئر، دی لائف اینڈ ٹرائل آف بھگت سنگھ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جلاد نے پوچھا کہ پہلے کون جائے گا؟ سکھ دیو نے جواب دیا میں پہلے جاؤں گا۔ جلاد نے یکے بعد دیگرے تین بار پھانسی کا حکم دیا۔‘ پھندا کھینچا گیا جس کے بعد تینوں کی لاشیں کافی دیر تک پھانسی کے تختے سے لٹکی رہیں۔
اس کے بعد وہاں موجود ڈاکٹروں نے انھیں مردہ قرار دیا۔ وہاں موجود ایک جیل افسر ان نوجوان انقلابیوں کی ہمت سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے ان کی لاشوں کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ اسے فوری طور پر معطل کر دیا گیا تھا۔
پہلے منصوبہ یہ تھا کہ ان تینوں کی آخری رسومات جیل میں ہی ادا کی جائیں گی لیکن پھر خیال آیا کہ اٹھتے دھوئیں کو دیکھ کر باہر کھڑا ہجوم جوش میں آ جائے گا۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کی آخری رسومات ستلج کے کنارے ضلع قصور میں ادا کی جائیں گی۔
جیل کے پیچھے کی دیوار راتوں رات ٹوٹ گئی۔ وہاں سے ایک ٹرک اندر لایا گیا۔ ان تینوں کی لاشیں گھسیٹ کر ان ٹرکوں میں پھینک دی گئیں۔
منمتھ ناتھ گپتا اپنی کتاب ’ہسٹری آف انڈین ریوولیوشنری موومنٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’دریائے ستلج کے کنارے دو پجاری ان لاشوں کا انتظار کر رہے تھے۔ ان تینوں کی لاشوں کو چِتا پر رکھ کر آگ لگا دی گئی۔ صبح ہوتے ہی جلتی ہوئی چتا کی آگ بجھانے کے بعد آدھی جلی ہوئی لاشوں کو دریائے ستلج میں پھینک دیا گیا۔
’بعد میں اس جگہ کی شناخت چوکی نمبر 201 کے نام سے بنی۔ پولیس اور پجاری کے جاتے ہی گاؤں والے پانی میں گھس گئے۔ جسم کے اعضا پانی سے نکالے گئے اور پھر صحیح طریقے سے آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔‘
بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو 24 مارچ کو پھانسی دی جانی تھی لیکن انھیں مقررہ وقت سے 11 گھنٹے قبل پھانسی دی گئی۔ جیسے ہی یہ خبر پھیلی تو ہندوستانی عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
نیویارک کے اخبار ’ڈیلی ورکر‘ نے اس پھانسی کو برطانوی لیبر حکومت کا سب سے خونی کام قرار دیا۔ مہاتما گاندھی، جو ان دنوں کراچی کے دورے پر تھے، ان پھانسیوں کے لیے بالواسطہ طور پر ذمہ دار ٹھہرے۔
ستویندر سنگھ جس لکھتے ہیں کہ ’جیسے ہی گاندھی جی کی ٹرین کراچی سٹیشن پہنچی، مظاہرین نے احتجاج میں ان کے ہاتھوں میں سیاہ پھول تھما دیے۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں لارڈ ارون سے بات چیت کی مگر بھگت سنگھ کو پھانسی نہ دینے کی شرط نہیں رکھی گئی۔‘
جواہر لال نہرو نے یقینی طور پر ان پھانسیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
Getty Images
شری رام بخشی اپنی کتاب ’انقلابی اور برطانوی راج‘ میں لکھتے ہیں کہ ’میں بھگت سنگھ جیسے آدمی کی ہمت اور قربانی کی تعریف کرتا ہوں۔ بھگت سنگھ جیسی ہمت بہت کم لوگوں میں ملتی ہے۔ وائسرائے کی غلط فہمی ہو گی اگر وہ سمجھیں کہ ہم ان کی ہمت کو داد نہیں دیتے۔ وہ اپنے دل سے پوچھیں کہ اگر بھگت سنگھ انگریز ہوتا اور انگلستان کے لیے یہ قدم اٹھاتا تو وہ کیا کرتے؟‘
بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی آگ پورے ملک میں پھیل چکی تھی۔ بھگت سنگھ کے چچا اجیت سنگھ اور والد کشن سنگھ دونوں غدر پارٹی کے رکن تھے۔
28 ستمبر 1907 کو بھگت سنگھ کی پیدائش کے دن ان کے والد اور چچا برطانوی جیل سے رہا ہوئے تھے۔
پہلے بھگت سنگھ کا نام بھگن لال تھا۔ 1923 میں انھوں نے نیشنل کالج لاہور میں داخلہ لیا۔
وہ پڑھائی میں اچھے تھے۔ انھیں اردو، ہندی، گرومکھی، انگریزی اور سنسکرت زبانوں پر عبور حاصل تھا۔
سنہ 1924 میں گھر والوں نے ان پر شادی کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔
اپنے والدین کو منانے میں ناکامی کے بعد بھگت سنگھ لاہور میں اپنا گھر چھوڑ کر کانپور آ گئے۔
وہاں انھوں نے مشہور آزادی پسند گنیش شنکر ودیارتھی کے ہفتہ وار اخبار ’پرتاپ‘ میں کام کیا۔ اس اخبار میں وہ بلونت کے نام سے مضامین لکھتے تھے۔
کانپور میں انھوں نے دوسرے آزادی پسندوں بٹوکیشور دت، شیو ورما اور بی کے سنہا سے ملاقات کی۔
یہ بھی پڑھیے
درگا بھابھی، جو انگریزوں کو چکمہ دینے کے لیے بھگت سنگھ کی اہلیہ بنیں
انڈیا میں غلامی کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟
کھدی رام بوس: انڈیا کی تحریکِ آزادی کے لیے جان دینے والے سب سے کم عمر مجاہد کی کہانی
اجے گھوش نے اپنی کتاب ’بھگت سنگھ اینڈ ہز کامریڈز‘ میں لکھا ہے کہ ’بھگت سنگھ سے میرا تعارف بٹوکیشور دت نے کروایا تھا۔ وہ ان دنوں لمبے اور بہت دبلے پتلے تھے۔ ان کے کپڑے پرانے تھے اور وہ بہت خاموش رہتے تھے۔ وہ ایک پڑھے لکھے لڑکے کی طرح لگتے تھے۔ ان میں اتنی خود اعتمادی نہیں تھی۔ میں نے پہلی نظر میں انھیں اتنا پسند نہیں کیا تھا۔ میں نے یہ بات بٹوکیشور دت کو ان کے جانے کے بعد بھی بتائی تھی۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’دو سال کے اندر بھگت سنگھ کی شخصیت میں زبردست تبدیلی آئی۔ وہ بہت اچھے خطیب بن گئے تھے۔ وہ ایسی طاقت، جذبے اور خلوص کے ساتھ تقریر کرتے کہ لوگ ان کی پیروی کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ وہ 1924 میں ہندوستان ریپبلکن ایسوسی ایشن کے رکن بن گئے۔ چندر شیکھر آزاد ان کے رہنما تھے اور بھگت سنگھ ان کے بہت قریب آ گئے تھے۔‘
سنہ 1927 میں بھگت سنگھ کو پہلی بار کاکوری واقعے کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا۔ دراصل انھوں نے اپنا نام بدل کر اس واقعے کی حمایت میں ’وِدروہی‘ کے نام سے ایک مضمون لکھا تھا۔
ان پر لاہور میں دسہرہ میلے میں بم دھماکے کا بھی الزام تھا۔ بعد میں انھیں اچھے رویے پر جیل سے رہا کر دیا گیا۔ اسی سال جب سائمن کمیشن ہندوستان آیا تو لالہ لاجپت رائے نے ان کی سخت مخالفت کی۔
احتجاج کے دوران ایس پی جے اے سکاٹ نے بھیڑ پر لاٹھی چارج کا حکم دیا۔ انھوں نے دور سے لالہ لاجپت رائے کو دیکھا اور ان پر چھڑی برسانا شروع کر دی، یہاں تک کہ وہ خون بہنے کے بعد زمین پر گر گئے۔ بیہوش ہونے سے پہلے انھوں نے چیخ کر کہا کہ ’ہم پر چلنے والی ہر لاٹھی برطانوی سلطنت کے تابوت میں کیل ثابت ہو گی۔‘
جواہر لال نہرو نے پولیس کے اس کام کی مذمت کی اور اسے ’قومی شرمندگی‘ قرار دیا۔ لالہ لاجپت رائے کی وفات 17 نومبر کو ہوئی۔ 10 دسمبر 1928 کو لاہور میں ملک بھر کے انقلابیوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت بھگوتی چرن ووہرا کی اہلیہ درگا دیوی نے کی۔
اس میٹنگ میں طے پایا کہ لالہ جی کی موت کا بدلہ لیا جائے گا۔ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ ہندوستان لالہ جی کی موت کو خاموشی سے برداشت نہیں کرے گا۔
فیصلہ ہوا کہ بھگت سنگھ، سکھ دیو، چندر شیکھر آزاد اور جئے گوپال مل کر ایس پی سکاٹ کے قتل کے منصوبے میں حصہ لیں گے۔ انقلابیوں نے پہلے اس جگہ کا دورہ کیا جہاں وہ سکاٹ کو مارنے والے تھے۔
بھگت سنگھ نے ایک سرخ سرحدی پوسٹر تیار کیا جس پر لکھا تھا ’سکاٹ کلڈ۔‘ بعد ازاں ہاتھ سے لکھا ہوا یہ پوسٹر لاہور سازش کیس میں ان کے خلاف بطور ثبوت استعمال ہوا۔
ایک نوجوان ساتھی جئے گوپال کو ذمہ داری دی گئی کہ جب سکاٹ تھانے پہنچے تو وہ ان تینوں کو اس بارے میں بتائے۔ سکاٹ کی گاڑی کی نمبر پلیٹ 6728 تھی۔ جئے گوپال کو کہا گیا کہ یہ نمبر یاد رکھیں۔
حیران کن بات یہ تھی کہ جئے گوپال نے اس سے پہلے کبھی سکاٹ کو نہیں دیکھا تھا۔ سکاٹ اس دن پولیس سٹیشن نہیں آئے۔ انھوں نے ایک دن کی چھٹی لے رکھی تھی کیونکہ اسی دن ان کی ساس نے برطانیہ سے لاہور آنا تھا۔
جب جسسٹنٹ ایس پی جے پی سینڈرس تھانے سے باہر آئے تو جئے گوپال نے سوچا کہ یہ سکاٹ ہیں۔ انھوں نے یہ اطلاع بھگت سنگھ اور راج گرو کو دی۔ دوپہر کو جب سینڈرز پولیس سٹیشن سے باہر آ کر اپنی موٹرسائیکل سٹارٹ کر رہے تھے تو راج گرو نے انھیں جرمن ماؤزر پستول سے گولی مار دی۔
بھگت سنگھ چیختے رہے کہ ’نہیں، نہیں، نہیں وہ سکاٹ نہیں ہے۔‘ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ جب سینڈرز گرے تو بھگت سنگھ نے بھی اپنے جسم پر چند گولیاں چلائیں۔
پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق بھگت سنگھ اور راج گرو ڈی اے وی کالج کی طرف بھاگے۔ وہاں چندر شیکھر آزاد نے انھیں کوور دینے کی پوزیشن لی تھی۔
فریڈم فائٹر شیو ورما اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’جب بھگت سنگھ اور راج گرو سینڈرز کو مارنے کے بعد بھاگ رہے تھے تو ایک ہیڈ کانسٹیبل چنن سنگھ نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ آزاد کے چیخنے پر بھی وہ باز نہیں آئے تو راج گرو نے انھیں بھی گولی مار دی۔ اس وقت بہت سے لوگ ہاسٹل کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک فیض احمد فیض تھے جو بعد میں بڑے شاعر بن گئے۔‘
اگلے دن شہر کی دیواروں پر سرخ سیاہی سے بنے پوسٹر چسپاں پائے گئے جن پر لکھا تھا کہ ’سینڈرز مر گیا ہے۔ لالہ لاجپت رائے کا بدلہ لیا گیا ہے۔‘ سینڈرز کے قتل کے بعد لاہور سے نکلنا ناممکن تھا۔ شہر کے کونے کونے میں پولیس تعینات تھی۔
بھگت سنگھ نے سینڈرز کو قتل کرنے سے پہلے اپنے بال کاٹ دیے تھے۔ پولیس کو ان کے نئے حلیے کے بارے میں علم نہیں تھا کیونکہ پولیس کو تو بالوں اور داڑھی والے سکھ نوجوان کی تلاش تھی۔ فیصلہ ہوا کہ بھگت سنگھ وہی کپڑے پہن کر ٹرین میں سوار ہوں گے۔ درگا بھابھی ان کے ساتھ بیوی بن کر جائیں گی۔
مالویندرجیت سنگھ بڑیچ اپنی کتاب ’بھگت سنگھ دی ایٹرنل ریبل‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بھگت سنگھ نے اوور کوٹ اور ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ انھوں نے اپنے کوٹ کا کالر بھی اٹھایا ہوا تھا۔ انھوں نے درگا بھابھی کے بیٹے کو اٹھا رکھا تھا۔ بھگت سنگھ اور درگا بھابھی فرسٹ کلاس میں تھے جبکہ راج گرو نوکر کے بھیس میں تھرڈ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ دونوں کے پاس لوڈڈ ریوالور تھے۔‘
لکھنؤ سٹیشن پر اترنے کے بعد انھوں نے چند گھنٹے سٹیشن کی انتظار گاہ میں گزارے۔ یہاں سے راج گرو دوسری طرف چلے گئے اور بھگت سنگھ اور درگا بھابھی کلکتہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں درگا بھابھی کے شوہر بھگوتی چرن ووہرا پہلے سے موجود تھے۔
کلکتہ میں کچھ دن رہنے کے بعد بھگت سنگھ آگرہ آئے جہاں انھوں نے ’ہنگ کی منڈی‘ علاقے میں دو مکان کرائے پر لے لیے۔ آگرہ میں ہی بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں سینڈرز کے قتل کے نتیجے پر بڑی بحث ہوئی۔ سب کو یقین تھا کہ اس قتل کا وہ اثر نہیں ہوا جس کی وہ سب توقع کر رہے تھے۔ انھیں توقع تھی کہ اس خوف سے انگریزوں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان سے نکل جائے گی۔
ان دنوں اسمبلی میں دو بلوں پر غور ہونا تھا۔ ایک پبلک سیفٹی بل تھا جس میں حکومت کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ کسی کو بھی بغیر مقدمہ چلائے گرفتار کر لے۔ دوسرا ٹریڈ ڈسپیوٹ بل تھا جس میں ٹریڈ یونینز کو ہڑتال پر جانے سے منع کیا گیا تھا۔
8 اپریل کو، یعنی جس دن یہ بل پیش کیے جانے تھے، بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت خاکی شرٹ اور شارٹس پہنے مرکزی اسمبلی کی گیلری میں پہنچے۔ اس وقت وٹھل بھائی پٹیل، محمد علی جناح اور موتی لال نہرو جیسے کئی بڑے لیڈر اسمبلی میں موجود تھے۔
کلدیپ نئیر لکھتے ہیں کہ بھگت سنگھ نے بہت احتیاط سے اس جگہ پر بم پھوڑا جہاں اسمبلی کا کوئی رکن موجود نہیں تھا۔ بم پھٹتے ہی پورے ہال میں اندھیرا چھا گیا۔ بٹوکیشور دت نے دوسرا بم پھینکا۔ پھر سامعین گیلری سے اسمبلی تک کاغذی پمفلٹ اڑنے لگے۔ اراکین اسمبلی نے ’انقلاب زندہ باد‘ اور ’پرولتاریہ زندہ باد‘ کے نعرے سنے۔
ان پمفلٹس پر لکھا تھا کہ ’بہروں کو سنانے کے لیے اونچی آواز کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت دونوں نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی۔ پہلے سے طے تھا کہ وہ اپنی گرفتاری دیں گے۔
اسی وقت بھگت سنگھ نے ہتھیار ڈال دیے۔ یہ وہی پستول تھی جس سے سینڈرز کا قتل کیا گیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ پستول سینڈرز کے قتل میں ان کے ملوث ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہو گی۔
دونوں کو مختلف تھانوں میں لے جایا گیا۔ بھگت سنگھ کو مرکزی تھانے اور بٹوکیشور دت کو چاندنی چوک تھانے لایا گیا۔ اس کا مقصد دونوں سے الگ الگ پوچھ گچھ کرنا تھا تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے۔
بھگت سنگھ اور بٹوکیشور دت کو اس کام کے لیے عمر قید کی سزا سنائی گئی لیکن بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کو سینڈرز کے قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔
بھگت سنگھ کو پھانسی دینے سے چند دن پہلے پنڈت مدن موہن مالویہ نے وائسرائے لارڈ ارون کو ایک ٹیلی گرام بھیجا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ بھگت سنگھ کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا جائے۔ لیکن ان کی درخواست کو ٹھکرا دیا گیا۔
پھانسی کے اگلے روز پورے لاہور میں ہڑتال کی گئی۔ ان کی یاد میں نیلہ گمبد سے تعزیتی جلوس نکالا گیا۔ یہ جگہ اس جگہ کے بہت قریب تھی جہاں سینڈرز کو گولی ماری گئی تھی۔
تین میل طویل جلوس میں ہزاروں ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں نے حصہ لیا۔ مردوں نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھی ہوئی تھیں جبکہ خواتین نے سیاہ ساڑھی پہنے احتجاج کیا۔ مال خانے سے گزرنے کے بعد پورا جلوس انار کلی بازار کے بیچ میں آ کر رُک گیا۔
تبھی اعلان ہوا کہ بھگت سنگھ کا پورا خاندان تینوں شہیدوں کی راکھ لے کر فیروز پور سے لاہور پہنچ گیا ہے۔
تین گھنٹے بعد پھولوں سے لدے تین تابوت جلوس کا حصہ بن گئے۔ وہاں موجود ہر شخص کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
اس موقع پر ایک اردو اخبار کے ایڈیٹر مولانا ظفر علی خان نے ایک نظم پڑھی۔ جس جیل میں بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی وہاں کا وارڈن چرت سنگھ دھیرے دھیرے اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور بلک بلک کر رونے لگا۔
اپنے تیس سال کے کیریئر میں اس نے بہت سے لوگوں کو پھانسی ملتے دیکھا تھا۔ لیکن کسی نے بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں کی طرح موت کو گلے نہیں لگایا تھا۔
بھگت سنگھ کی موت کے 16 سال، 4 ماہ اور 23 دن بعد ہندوستان آزاد ہوا اور انگریزوں کو یہ خطہ ہمیشہ کے لیے چھوڑنا پڑا۔