1992 میں سات سال کی بچی کا قتل کرنے والے ڈیوڈ بوئیڈ کو کم از کم 29 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
انگلینڈ کے شہر سنڈر لینڈ میں ڈیوڈ بوئیڈ نے نِکی ایلن کو ایک ویران عمارت میں بلا کر انھیں مارا پیٹا اور ان پر 37 مرتبہ چاقو سے وار کیا تھا۔
جج مسز جسٹس لیمبرٹ نے کہا کہ نِکی کو اپنی موت سے قبل ’ناقابل تصور‘ خوف کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔
بوئیڈ 2017 کے دوران ڈی این اے میں جدت آنے سے پکڑے گئے تھے۔ نیو کاسل کراؤن کورٹ نے انھیں رواں ماہ کے اوائل کے دوران اس قتل پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ نِکی بوئیڈ کو جانتی تھیں اور ان پر اعتماد کرتی تھیں۔ مگر انھوں نے ’ان کی کم عمری اور سادہ لوحی کا فائدہ اٹھایا‘ اور انھیں سات اکتوبر 1992 کی شام دھوکے سے اپنے پاس بلایا۔
بوئیڈ ان کے پڑوسی اور بیبی سٹر کے سابق بوائے فرینڈ تھے۔ اولڈ ایکسچینج کی عمارت کے قریب دونوں کو ساتھ دیکھا گیا جب نِکی ان کے پیچھے دوڑ رہی تھیں تاکہ ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا سکیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق بوئیڈ کے ’ناپاک ارادے‘ تھے کیونکہ انھوں نے نِکی کو دھوکے سے ایسی عمارت کے پاس بلایا جہاں کوئی نہیں رہتا تھا۔ جب وہ چیخیں تو بوئیڈ نے انھیں ’چپ کرانے کے لیے ان کے قتل کا فیصلہ کیا۔‘
بوئیڈ نے نِکی کو ’خاموش کرنے کے لیے ان کے منھ پر ضرب لگائی پھر انھیں عمارت کے اندر لے گئے جہاں وہ خوفزدہ ہوئی ہوں گی۔‘
جج لیمبرٹ نے کہا کہ ’انھیں جلد معلوم ہوگیا ہوگا کہ انھیں پھنسایا گیا ہے۔‘
نِکی پر ایک دوسرے کمرے میں حملہ کر کے قتل کیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے حملہ آور سے دور بھاگنے کی کوشش کیتھی۔
جج نے بوئیڈ سے کہا کہ ’آپ کی جانب سے پیشرفت پر نکی کے خوف کو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک سات سال کی بچی کے لیے یہ یقیناً خوفناک ہوگا۔‘
بوئیڈ نے نِکی کے سر پر اینٹ ماری جس سے ان کی کھوپڑی پر فریکچر آیا۔ پھر انھوں نے بارہا چھاتی پر چاقو کے وار کیے۔ وہ انھیں گھسیٹ پر سیڑھیوں سے نیچے لے گئے اور لاش تہہ خانے میں دفن کر دی۔
جج نے کہا کہ نِکی کا قتل 31 سال تک مقامی آبادی کے لیے پریشانی کا باعث رہا اور وقت گزرنے کے ساتھ بوئیڈ نے سمجھا ہوگا کہ انھیں ’ریلیف مل گیا ہے‘ اور وہ یہ جرم کر کے ’بچ گئے ہیں۔‘
تاہم قتل کے بعد گذشتہ دہائیوں کے دوران ڈی این اے کی ٹیکنالوجی میں جدت آئی۔ تفتیش کاروں نے نِکی کے کپڑوں سے حملہ آور کا سراغ لگایا۔
جج لیمبرٹ نے کہا کہ موجودہ قوانین کے تحت وہ بوئیڈ کو کم از کم 37 سال قید کی سزا دینا چاہتی تھیں مگر انھیں 1992 کے قوانین کے مطابق فیصلہ دینا ہوگا جس میں کم سزا درج ہے۔
PA Mediaشیرن ہینڈرسن نے عدالت کو بتایا کہ ان کی بیٹی نِکی کے قتل نے ان کے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیا تھا
فیصلے کے بعد نِکی کی 57 سال کی والدہ شیرن ہینڈرسن نے اس پر افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ بوئیڈ کو عمر قید کی سزا دی جانی چاہیے تھی جس میں ان کی رہائی کا امکان بھی نہ ہوتا۔
انھوں نے کہا کہ ’میرے جیسے خاندانوں کے ساتھ بار بار یہی ہوتا ہے: ناانصافی۔‘
عدالت کو دیے بیان میں ہینڈرسن نے بتایا کہ ان کی بیٹی پُرجوش اور دلکش تھیں جن کی مسکراہٹ سے سب بہت محبت کرتے تھے۔
نِکی کے قتل کے وقت وہ 25 سال کی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھ پر بُری ماں ہونے کا الزام لگایا گیا۔ مقامی لوگ مجھ پر غصہ ہوئے، بجائے اس کے کہ اس شخص پر غصہ ظاہر کرتے جو ذمہ دار تھا۔‘
یہ بھی پڑھیے
گردن توڑ کر قتل کرنے والا لاہور کا مالشیا ججی ’سیریل کِلر‘ کیسے بنا؟
جاوید اقبال: ’100 بچوں‘ کا سفاک قاتل کیا شہرت کا بھوکا ذہنی مریض تھا؟
انھوں نے کہا کہ بوئیڈ نے ان کے خاندان کی زندگیاں ’برباد کیں‘ اور انھیں انصاف کے لیے ’طویل مدت تک لڑنا پڑا ہے۔‘
ہینڈرسن نے کہا کہ وہ اس واقعے کے بعد سے ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ ’میں نے بعض اوقات ان لوگوں کو نشانہ بنایا جو دوسروں کے بارے میں صفائیاں پیش کرتے تھے۔‘ اس پر انھیں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’گزرتے برسوں کے ساتھ مجھے اذیت محسوس ہوتی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ کسی نے میری بات سنی ہی نہیں۔‘
نِکی کے والد ڈیوڈ ایلن نے کہا کہ وہ 28 سال کے تھے جب نِکی کا قتل ہوا اور ’اس رات نے میری زندگی بدل دی۔‘
ایک بیان میں انھوں نے قاتل کے لیے غصے اور نفرت کا اظہار کیا اور کہا ’میں اس شخص کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گا۔‘
ایلن نے کہا کہ وہ پریشان ہیں اور اس احساس کو بیان بھی نہیں کر پا رہے کیونکہ بوئیڈ نے ’30 سال تک اپنی زندگی معمول کے مطابق گزاری مگر نِکی سے اس کی زندگی چھین لی گئی۔‘
پولیس نے ابتدائی طور پر نِکی کے دوسرے پڑوسی جارج ہیرن پر قتل کا الزام عائد کیا تھا مگر 1993 میں جج نے کہا تھا کہ تفتیشی کاروں نے جبری طور پر ان سے بیان لیا، لہذا ان پر الزامات ثابت نہیں ہوسکے تھے۔
اب اس فیصلے پر انھوں نے ردعمل دیا ہے کہ ’موجودہ تحقیقات کے بارے میں جاننا میرے لیے مشکل تھا۔ میری بہت سی بُری یادیں واپس آئیں۔ اس نے 1992 کے واقعات کے بارے میں میرے ملے جلے جذبات کو جنم دیا۔ مجھے افسوس ہے اور اس لوگوں کے دھوکے پر غصہ ہے جن سے میں سچ کہنے کی امید کرتا تھا (خاص کر اصل تفتیش کار)۔‘
بوئیڈ کو سزا ملنے پر پولیس نے مسٹر ہیرن اور ہینڈرسن سے معذرت کی تاہم ہینڈرسن نے اسے مسترد کر کے ’کھوکھلا‘ قرار دیا۔
انھوں نے بیٹی کے قتل پر پولیس کی ’تاریخی ناکامیوں‘ پر تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اس پر انھیں سینٹر آف وومنز جسٹس کی حمایت بھی حاصل ہے۔
پراسیکیوٹر رچرڈ رائٹ نے کہا کہ 1992 کی تحقیقات میں کئی غلطیاں کی گئی تھیں لیکن ان کی ٹیم نے دوبارہ یہ کیس کھولا اور بغیر کسی مفروضے کے اس کا شروع سے جائزہ لیا۔
پولیس نے ملک بھر سے 800 سے زیادہ مردوں کے ڈی این اے کے نمونے اکٹھے کیے، 1200 بیان جمع کیے اور 2500 دستاویزات پیش کیے۔
جج نے پراسکیوشن کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ بوئیڈ کے خلاف جرم ثابت کرنے میں ڈی این اے کے شواہد نے کلیدی کردار ادا کیا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ بوئیڈ نِکی کے پڑوسی تھے اور وہ جانتے تھے کہ پرانی عمارت کو کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سماعت کے دوران نوجوان لڑکیوں سے متعلق ان کی جنسی خواہشات کا بھی ذکر کیا گیا۔
انھیں اس سے قبل 45 جرائم میں سزا ہوچکی تھی جس میں جنسی جرائم بھی شامل ہیں۔ 1986 میں انھوں نے ایک خاتون کے سامنے اپنے کپڑے اتارے جس کے بعد انھوں نے ایک ماہر نفسیات کو بتایا کہ وہ ایسا 16 سال کی عمر سے کر رہے ہیں اور یہ ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔
اسی سال انھیں پارک میں ایک 10 سال کی بچی کو پکڑ کر اس کا بوسہ لینے کی کوشش پر سزا ہوئی۔
1997 میں انھوں نے تین نوجوان لڑکیوں کو سامنے اپنے کپڑے اتارے مگر اس پر انھیں سزا نہیں ہوئی۔ دو سال بعد انھوں نے ایک نو سال کی بچی کو غلط انداز میں چھوا اور تفتیشی افسر کے سامنے تسلیم کیا کہ انھیں نوجوان لڑکیوں کے بارے میں ’بُرے خیالات‘ آتے ہیں اور یہ ان کی ’جنسی خواہشات‘ ہیں۔
ان کے وکیل جیسن پٹر نے کہا کہ بوئیڈ ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں اور ان کا آئی کیو اس قدر نیچے ہے کہ یہ ’صرف دو فیصد آبادی میں پایا جاتا ہے۔‘
تاہم جج نے اسے غیر متعلقہ قرار دیا کیونکہ انھوں نے نِکی کو پھنسانے کے لیے ’کافی ذہانت‘ دکھائی جس میں وہ انھیں ان کے گھر سے باہر لائے اور بعد میں جعلی گواہی کے ذریعے خود کو بچانے کی کوشش کی۔
انھوں نے کہا کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ بوئیڈ قید سے نکل پائیں گے اور اس کا فیصلہ پرول بورڈ کرے گا۔