چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری پر ملک کے مختلف شہروں میں جہاں پُرتشدد مظاہرے ہوئے تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے دوران ٹی وی اینکر اور یو ٹیوبر عمران ریاض کو بھی سیالکوٹ سے حراست میں لیا گیا۔
عمران ریاض کے علاوہ صحافی اور اینکر آفتاب اقبال اور تجزیہ کار اوریا مقبول جان بھی گرفتار ہوئے تھے جنھیں بعد میں رہا کر دیا گیا لیکن عمران ریاض اب تک لاپتہ ہیں۔
واضح رہے کہ نو مئی کے دن لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں میں سے اکثر کو نقضِ عامہ میں خلل ڈالنے کے الزام میں ایم پی او کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا کہ جبکہ کچھ کو کور کمانڈر کے گھر سمیت دیگر مقامات پر حملہ کرنے یا اس میں سہولت کاری کے الزام میں بھی گرفتار کیا گیا۔
یوٹیوبر عمران ریاض ماضی میں مختلف ٹی وی چینلز پر پروگرام کرتے رہے ہیں اور اپنے پروگرام کے مواد کے باعث تحریک انصاف اور فوج مخالف حلقوں میں کافی مقبول سمجھے جاتے رہے ہیں۔
اوریا مقبول سابق بیورو کریٹ ہیں اور مختلف ٹی وی شوز میں بطور تـجزیہ نگار پیش ہوتے ہیں۔ وہ اپنے پروگرامزمیں جن خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں اس کی بنا پر عام تاثر یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کے حامی ہیں۔ آفتاب اقبال بھی عمران خان کے ہمدرد سمجھے جاتے ہیں اور ان دونوں نے حالیہ عرصے میں سابق وزیر اعظم کے متعدد انٹرویوز بھی کیے ہیں۔
’پورے پاکستان کی پولیس سے پوچھا، عمران ریاض کسی کے پاس نہیں‘
واضح رہے کہ عمران ریاض 11 مئی کو سیالکوٹ کے ایئر پورٹ سے گرفتار ہوئے تھے تاہم پولیس کے مطابق ان کو رہا کر دیا گیا تھا۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے 16 مئی کو بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’عمران ریاض کو کچھ دن قبل گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا جہاں انھوں نے تحریری بیان میں اچھے رویے کی یقین دہانی کروائی جو عدالت میں بھی پیش کر دی گئی ہے۔‘
آئی جی کا کہنا تھا کہ اس یقین دہانی کے بعد ’ایم پی او واپس لے لیا گیا اور وہ آزاد ہو گئے۔‘
15 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے 48 گھنٹوں کی مہلت دی تھی۔
ان کے وکیل شاہزیب مسعود نے عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ ’عدالت میں سی سی ٹی وی فوٹیج چلوائی گئی جس میں دکھایا گیا ہے ان کو زبردستی کھینچ کے گاڑی میں بٹھایا جا رہا ہے۔‘
سوموار کے دن اس کیس کی سماعت ہوئی تو پنجاب پولیس کے آئی جی ڈاکٹر عثمان انور کی جانب سے ٹی وی اینکر اور یو ٹیوبر عمران ریاض کے بارے میں لاعلمی کے اظہار کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے 25 مئی تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے وفاق سے جواب طلب کر لیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے سوال کیا کہ ’آپ کی کیا پرگریس ہے؟‘
آئی جی پنجاب پولیس عثمان انور نے جواب دیا کہ ’ہم نے تمام ایجنسیوں سے میٹنگ کی، پورے پاکستان کی پولیس سے پوچھا، کسی کے پاس عمران ریاض نہیں ہے۔‘
آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ان کے تابع کوئی ایجنسی نہیں ہے اور اگر عدالت وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کو نوٹس کردے تو ان کی معاونت ہو سکے گی۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس امیر بھٹی نے ریمارکس دیے کہ ’عدالت کے لیے عمران ریاض کی حفاظت سب سے زیادہ اہم ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر عمران ریاض کو نقصان ہوا تو پھر کسی کی معافی نہیں ہو گی۔‘
عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاق سے جواب طلب کرتے ہوئے 25 مئی تک سماعت ملتوی کر دی۔
ہم نے عمران ریاض کے بھائی سے اس حوالے سے رابطہ کر کے ان کا موقف لینے کی کوشش کی تاہم انھوں نے جواب نہیں دیا۔
Getty Images’آفتاب اقبال بھی وہاں پائے گئے تھے ان کو بھی ٹھونک دو‘
یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مقبولیت رکھنے والے ان صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو کس الزام میں اٹھایا جا رہا ہے اور اس دوران ان سے کیا سلوک کیا جاتا ہے، اس بارے میں مزید تفصیلات جاننے کے لیے ہم نے صحافی آفتاب اقبال سے رابطہ کیا ہے۔
صحافی اور اینکرآفتاب اقبال عرصہ دراز سے میڈیا سے وابستہ ہیں اور ان دنوں ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے مختلف شوز پیش کرتے ہیں۔
ہمارے سوال پر آفتاب اقبال نے بتایا کہ جس دن کور کمانڈر کے گھر پر حملے کا واقعہ ہوا اس دن وہ وہاں رپورٹنگ کر رہے تھے اور ان کے ساتھ ان کی چار مختلف ٹیمیں کوریج کر رہی تھیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے ابفیلڈ رپورٹنگ کا کبھی کبھی موقع ملتا ہے۔ اس وقت میں لائیو ٹرانسمیشن میں بار بار یہی کہتا پایا جا رہا ہوں کہ یہ نہ کرو، کور کمانڈر کے گھر داخل ہونے کی کوشش نہ کرو، اپنی تحریک کو خراب کرو گے۔
’تو میرے لیے کہا گیا کہ آفتاب اقبال بھی وہاں پائے گئے تھے، ان کو بھی ٹھونک دو۔‘
آفتاب اقبال کا کہنا تھا کہ وہ جمعرات کی دوپہر اس وقت سو رہے تھے اور روزے کی حالت میں تھے جس وقت ان کو اٹھایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شکر ہے کہ اس وقت گھر میں بیٹیاں اور اہلیہ نہیں تھیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تقریبا 15 کے قریب پولیس والے اور دو سفید کپڑوں میں ملبوس افراد میرے گھر آئے اور میرے فون اور لیپ ٹاپ اٹھا کر مجھے یہاں سے لے کر گئے۔
’میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور منھ پر کالے رنگ کی بوری نما چیز چڑھا دی گئی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے پوچھا چارج کیا ہے اور وارنٹ کہاں ہے تو مجھے کچھ نہیں بتایا گیا۔ انھوں نے مجھے سفید ڈالے میں بٹھایا جو ایجنسی کا تھا۔
’تقریباً 45 منٹ تک وہ مجھے ادھر سے ادھر گھماتے رہے، پھر مجھے عقوبت خانے کی مانند ایک جگہ پر لے جایا گیا جس میں ہرے رنگ کی سلاخوں والے سیل تھے اور جس میں نیچے سے روٹی پانی دینے کی جگہ تھی۔‘
آفتاب اقبال کے مطابق ’جب مجھے آفیسر کے سامنے لے جایا گیا تو مجھے ہتھکڑیاں ڈالی گئیں۔ اس آفیسر نے ماسک پہنا ہوا تھا جنھوں نے میری برین واشنگ کی کوشش کی تاہم ان کا انداز دانشورانہ تھا۔
’میں نے ان سے کہا کہ میں افطار کے بعد بات کر سکوں گا تاہم اس کی نوبت نہیں آئی اور اس سے پہلے ہی پنجاب پولیس مجھے لے کر خوفناک بلائنڈ فولڈ کر کے ایک دوسرے مقام پر لے گئی۔ ساری رات میں تھانے میں بند ایک چٹائی پر رہا جس میں کونے پر ایک کموڈ لگا تھا۔‘
آفتاب اقبال کے مطابق اس دوران انھوں نے بارہا اپنے گھر بات کرنے کی درخواست کی تاہم اس کی اجازت نہیں دی گئی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے ایس ایچ او سے بارہا درخواست کی کہ میرے گھر کال کر کے بتا دیں کہ میں ابھی زندہ ہوں مگر انھوں نے کہا کہ سر یہ میرے اختیار میں نہیں۔
’ساری رات ایسے ہی گزری صبح خاکی وردی میں پولیس آئی اور وہاں سے ایم پی او کے تحت جیل لے گئے اور سرکار نے کہا کہ آپ تاحکم ثانی یہیں رہیں گے۔ ابھی فارم وغیرہ فل ہو رہے تھے کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے پیش کرنے کے آرڈر کر دیے اور پیشی کے بعد رہائی عمل میں آئی۔‘
Getty Images’ان کے یونیفارم بالکل سیاہ تھے جس پر کوئی شناخت نہیں تھی‘
اوریا مقبول جان کے بیٹے سرمد مقبول نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جمعے کی رات کو ساڑھے گیارہ کے قریب تین کالی ویگو اور ایک ایلیٹ فورس کی گاڑی والد کے گھر کے باہر آئی جنھوں نے گیٹ کے اوپر لگا سی سی ٹی وی کیمرہ سب سے پہلے توڑا اور گیٹ پھلانگ کر اندر آئے۔ اس وقت گھر پر والد، والدہ اور دو ملازم موجود تھے۔‘
’شور سن کر والد اور والدہ کمرے سے نکلے تو ان کو کہا گیا کہ وہ اپنی جگہ سے ہلیں نہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلے وہ سب پورے گھر میں پھیل گئے پھر انھوں نے سی سی ٹی وی کا پورا سسٹم نکلا۔ ابو کا فون اور لیپ ٹاپ اٹھایا۔‘
’میری والدہ شدید گھبرا گئیں اور انھوں نے پوچھا کہ آپ انھیں کہاں لے کر جا رہے ہیں اور آپ کون ہیں تو انھوں نے کچھ نہیں بتایا اور کہا ہم ان کو ابھی لے کر آتے ہیں آپ فکر نہ کریں۔‘
سرمد کے مطابق ان کی امی نے درخواست کی تو انھوں نے امی کا فون واپس کیا اور والد کو ان کے فون، لیپ ٹاپ اور سی سی ٹی وی کے سسٹم کے ساتھ گاڑی میں بٹھا کے لے گئے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’بغیر کچھ بتائے، سرچ وارنٹ دکھائے بغیر۔ ان کے یونیفارم بالکل سیاہ تھے جس پر کوئی شناخت نہیں تھی۔‘
صحافیوں میں تقسیم اور اس کی وجوہات
عمران ریاض کی گمشدگی پر پاکستان کے سوشل میڈیا پر صحافیوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
تاہم ان کے غائب ہونے کی اطلاعات سامنے آنے پر سوشل میڈیا پر جہاں کافی بحث ہوئی وہیں اس صورتحال میں صحافتی تقسیم کی جھلک بھی واضح محسوس کی جا سکتی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صحافیوں کی اس تقسیم کی وجوہات کیا ہیں؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ اس معاملہ پر انھیں میڈیا کی تقسیم واضحدکھائی دے رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سے دوست اگر صحافیوں کے بجائے سیاسی جماعتوں کے ترجمان بن جائیں، چاہے مسلم لیگ ن ہو پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف کی بات ہو۔ صحافی اگر صحافتی حدود عبور کر جائیں تو تقسیم ہو جاتی ہے۔ چینلز کی اپنی تقسیم نظر آتی ہے میڈیا ہاؤسز کی اپنی تقسیم ہے۔‘
مظہر عباس کے مطابق ’بہت سے ایسے دوست بھی ہیں جنھوں نے سیاسی طور پر ہی پوزیشن نہیں لی بلکہ دوسرے نظریات کے صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا ان کے بارے میں جس طرح کے کمنٹس دیکھے ریمارکس دیکھے ان کو صف آرا دیکھا تو ماضی میں جیسے صحافی ایک دوسرے کے لیے ساتھ اکھٹا ہوتے تھے وہ نطر نہیں آیا۔‘
ان کے مطابق اب اس تقسیم کے باعث صحافیوں کی یکجہتی بیانات کی حد تک نظرآتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’چاہے یہ کیسز ہوں یا مطیع اللہ جان کا کا کیس ہو یا ارشد شریف کا افسوسناک کیس ہو ان سب میں وہ متحد آواز نظر نہیں آئی جو آنی چاہیے تھی۔‘
’میڈیا ہاؤسز میں تقسیم کا نقصان ہو رہا ہے اور تنطیمیں بھی ایک پلیٹ فارم پر نظر نہیں آ رہیں جس کی وجہ سے صحافیوں کی اپنی جدوجہد بھی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔‘
صحافیوں کی تقسیم کے معاملے پر جب صحافی کمال صدیقی سے ہم نے رائے جانی تو ان کا کہنا تھا ’جن لوگوں کی آپ بات کر رہی ہیں ان پر سیاسی وفاداریاں غالب دکھائی دیتی ہیں۔
’جنھوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں بہت متعصبانہ صحافت کی تھی جس کی وجہ سے بہت معصوم لوگوں کو نقصان پہنچا تھا تاہم ان کے ساتھ اب جو سلوک ہو رہا ہے وہ بھی غلط ہے۔‘
کمال صدیقی نے اس کی مثال یوں دی کہ ’کسی غلط کام کرنے والے کے ساتھ جواباً غلط کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔‘