انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی خفیہ پولیس کے سربراہ رشمی رنجن سوین نے گذشتہ ہفتے دعویٰ کیا ہے کہ 33 سال سے پاکستان اور نیپال میں روپوش رہنے والے اُن دو کشمیری شدت پسندوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جنھوں نے 21 مئی 1990 کی صُبح اُس وقت کے میر واعظ اور سیاسی رہنما مولوی محمد فاروق کو اُن کے گھر میں گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
پولیس کا یہ دعویٰ نہ صرف مولوی فاروق کی 33ویں برسی سے چند روز قبل سامنے آیا بلکہ یہ انکشاف ایسے وقت پر کیا گیا، جب کشمیر کی پولیس اور سِول انتظامیہ سرینگر میں دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کی تنظیم جی 20 کے اجلاس کی میزبانی کے لیے سکیورٹی انتظامات میں مصروف ہے۔
مولوی فاروق کے بیٹے میر واعظ عمر فاروق گزشتہ چار سال سے اپنے گھر میں نظربند ہیں اور علیحدگی پسندوں کی بڑی تعداد جیلوں میں ہے۔ اسی پس منظر کی وجہ سے بعض مبصرین اس اعلان کو کشمیر کے تئیں ایک ’سیاسی چال‘ قرار دے رہے ہیں۔
میر واعظ عمر فاروق نے ذاتی طور پر اس پیشرفت پر کوئی بیان جاری نہیں کیا تاہم ان کی جماعت عوامی ایکشن کمیٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’جنھیں گرفتار کیا گیا ہے اگر وہ واقعی مولوی فاروق کے قتل میں ملوث ہیں تو انھیں جلد از جلد سزا دی جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مکمل انصاف کیا جائے اور ساتھ ہی اُن لوگوں کو بھی سزا دی جائے، جنھوں نے مقتول کے جلوسِ جنازہ پر فائرنگ کر کے درجنوں افراد کو ہلاک کیا۔‘
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے ردعمل میں حکومت سے سوال کیا کہ ’عمر فاروق، جس کے والد کو قتل کیا گیا تھا، اُسے کیوں گھر میں نظر بند رکھا گیا، ایجنسیاں اُن کے پیچھے کیوں پڑی ہیں۔‘
چارج شیٹ میں کیا تھا؟
مولوی فاروق قتل کیس میں پولیس نے کُل پانچ ملزموں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی، جن میں سے دو جھڑپوں کے دوران مارے گئے اور ایک کو عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی اور مزید دو کو تازہ آپریشن میں گرفتار کیا گیا۔
چارج شیٹ میں پولیس کا دعویٰ تھا کہ ’اپریل 1990 میں مسلح گروپ حزب المجاہدین کے کمانڈرعبداللہ بنگرو کو پاکستان میں اُس کے آئی ایس آئی ہینڈلر نے میر واعظ مولوی فاروق کو انڈین ایجنٹ ہونے کی وجہ سے قتل کرنے کی ہدایت دی تھی۔‘
پولیس کے مطابق اس سازش میں عبداللہ بنگرو کے علاوہ رحمٰن شِگن، ایوب ڈار، جاوید بٹ اور ظہور بٹ شامل تھے۔
بنگرو اور شِگن مسلح تصادم کے دوران مارے گئے جبکہ ایوب ڈار کو گرفتار کیا گیا، جس کے بعد سنہ 2010 میں انھیں عمر قید کی سزا ہوئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ 21 مئی 1990 کے روز رحمٰن شِگن، ایوب ڈار اور ظہور بٹ سرینگر کے نِگین علاقے میں مولوی فاروق کے گھر گئے جہاں ظہور نے ہی سابق میر واعظ فاروق پر گولی چلائی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ طویل تحقیقات کے بعد قتل کا یہ معاملہ حل کر کے انصاف کیا گیا۔
21 مئی 1990 کو کیا ہوا تھا؟
مولوی فاروق کے قتل کی خبر عام ہوتے ہی ہزاروں لوگ سرینگر کے اُسی ہسپتال میں جمع ہو گئے، جہاں گولیاں لگنے کے بعد انھیں منتقل کیا گیا تھا۔
لوگوں کی بڑی تعداد جلوس کی صورت میں ان کی لاش کو لے کر ہسپتال سے سرینگر کے ’مزارِ شہدا‘ کی طرف روانہ ہوئی تو راستے میں انڈین نیم فوجی اہلکاروں نے انھیں روکنے کی کوشش کی۔
لوگ مشتعل ہو گئے تو فورسز نے فائرنگ کی، جس میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔ انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ کم از کم 50 کشمیری مارے گئے تھے۔
اُس وقت پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ جلوس میں بعض مسلح شدت پسند تھے، جنھوں نے فورسز پر گولی چلائی اور فورسز نے ذاتی دفاع میں فائرنگ کی۔
پولیس کے مطابق مولوی فاروق کے قتل کا منصوبہ حزب المجاہدین کے اعلیٰ کمانڈر عبداللہ بنگرو نے بنایا تھا۔ بنگرو کی جھڑپ میں ہلاکت کے بعد انھیں ’مزار شہدا‘ میں دفن کیا گیا۔ مولوی فاروق بھی بنگرو کی قبر کے قریب ہی مدفون ہیں۔
اُس وقت مولوی فاروق کے بیٹے عمر فاروق کی عمر 16 سال تھی تاہم انھیں کشمیر کا نیا میرواعظ قرار دیا گیا۔ چند سال بعد جب علیحدگی پسند گروپوں کا اتحاد ’حریت کانفرنس ‘ قائم ہوا تو میر واعظ عمر اس کے بانی چیئرمین منتخب کیے گئے۔
مولوی فاروق کون تھے؟
مولوی فاروق سرینگر کے معروف خاندان سے تھے اور ان کے اجداد نے کشمیر میں مذہبی تبلیغ، تعلیم کے فروغ اور سیاسی بیداری میں کافی کام کیا۔
سنہ 1964 میں کشمیر کی مقبول درگارہ ’حضرت بل‘ سے پیغمبر اسلام سے منسوب گیسو پراسرار طور پر غائب ہوا تو کئی ہفتوں تک وادی میں احتجاج ہوا اور کئی افراد پولیس کارروائی میں مارے گئے۔ اس تحریک کو ’موئے مقدس تحریک‘ سے یاد کیا جاتا ہے۔
اُس وقت محمد فاروق کی عمر 19 برس تھی اور انھوں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سیاسی اُفق پر چھا گئے۔ انھیں کشمیر کا ’میر واعظ‘ مقرر کیا گیا۔ انھوں نے اسی سال اپنی جماعت ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ کو تشکیل دیا۔
مولوی فاروق اُس وقت کے مقبول سیاسی رہنما شیخ محمد عبداللہ کے حریف کے طور پر اُبھرے۔ سنہ 1977 کے انتخابات میں انھوں نے شیخ عبداللہ کو انتخابات میں شکست دینے کے لیے اُس وقت کے انڈین وزیراعظم اور جنتا پارٹی (جو اب بھارتیہ جنتا پارٹی کہلاتی ہے) کے ساتھ سیاسی اتحاد کیا تاہم شیخ عبداللہ الیکشن جیت گئے۔
1990 میں مسلح شورش برپا ہوئی تو میر واعظ محمد فاروق نے بھی اس کی حمایت کا اعلان کیا تاہم وہ عدم تشدد اور قیام امن کے لیے سرگرم ہو گئے۔ یہاں تک کہ انھیں اسی سال مئی میں ’انڈین ایجنٹ‘ قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔
Getty Imagesمولوی فاروق کے بیٹے میر واعظ عمر فاروق گزشتہ چار سال سے اپنے گھر میں نظربند ہیں
واضح رہے امریکہ پر نائن الیون حملوں کے بعد کشمیر کی مسلح شورش سے متعلق پاکستان کے موٴقف میں لچک آئی تو میر واعظ عمر سمیت یہاں کے کئی رہنماوٴں نے تشدد کی بجائے مذاکرات کا موٴقف اختیار کیا۔ ان میں معروف سیاسی رہنما عبدالغنی لون بھی شامل تھے۔
21 مئی 2002 کے روز جب سرینگر کی عیدگاہ میں مولوی فاروق کی برسی کی تقریب میں ہزاروں لوگ جمع تھے تو نامعلوم مسلح افراد نے عبدالغنی لون کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
اس کے بعد کئی برس تک دونوں رہنماوٴں کی برسی ایک ساتھ عیدگاہ میں منائی جاتی تھی، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی تھی۔
کیا نئی دہلی کشمیریوں کو سیاسی رعایت دینا چاہتی ہے؟
بعض حلقے مولوی فاروق قتل کیس سے متعلق تازہ اعلان کو اعتدال پسند علیحدگی پسند حلقوں کے تئیں نئی دہلی کی ’سیاسی چال‘ سمجھ رہے ہیں۔
جموں میں مقیم سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار ترون اُپادھیائے کہتے ہیں کہ ’اس اعلان سے تین اشارے ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ عدم تشدد اور مذاکرات کے حامی علیحدگی پسند لیڈروں کو ایک کردار دیا جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ میر واعظ عمر کی رہائی کا بھی سافٹ سگنل ہے۔ دوسرا یہ کہ قانون کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا اور تیسرا اشارہ یہ ہو سکتا ہے کہ انتخابات کرائے جا رہے ہیں اور نئے کرداروں کی تلاش ہو رہی ہو۔‘
تاہم اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ گزشتہ چار برس سے علیحدگی پسند سیاست کو حاشیے سے بھی باہر دھکیلا جا چکا ہے۔
سینئیر صحافی ہارون ریشی کہتے ہیں کہ ’یہ تو معمول کی کارروائی ہے، موجودہ حالات میں اس کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں۔ 33 برس میں ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں، حیرانی اس بات پر ہے کہ ایک ہائی پروفائل قتل کا کیس تین دہائیوں بعد حل ہو رہا ہے۔‘
ہارون کہتے ہیں کہ ’پچھلے چار برس کے دوران کشمیر میں یکطرفہ سیاسی بیانیہ ہے، کوئی اپوزیشن نہیں۔ ایسے میں علیحدگی پسند سیاست کی دلی کو کیوں حاجت ہو گی۔‘