کافی کا ایک اشتہار انڈیا میں ٹرانس جینڈر افراد کے ساتھ سلوک کو کیسے ظاہر کرتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  May 21, 2023

یہ کسی کے لیے بھی تکلیف دہ بات ہے کہ اسے اس کی جنسی شناخت پر قبول نہ کیا جائے۔ لیکن یہ اس وقت زیادہ تکلیف کا باعث ہوتا ہے جب آپ کے والدین ہی آپ کو قبول کرنے کو تیار نہ ہوں۔

اور یہی وجہ ہے کہ سٹار بکس کے ایک حالیہ اشتہار نے بہت سے لوگوں کے دل کو چھو لیا ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ والدین اپنی ٹرانس جینڈر بالغ بیٹی کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ کس طرح استوار کر رہے ہیں۔

اشتہار میں، والدین اپنی بیٹی سے کئی سال تک الگ رہنے کے بعد ایک کافی شاپ میں ملتے ہیں اور والد اپنی اس بیٹی کو ارپت کے بجائے اس کے منتخب کردہ نام ارپتا سے مخاطب کرتے ہیں جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے فیصلے کو قبول کر رہے ہیں۔

یہ اشتہار اس ماہ کے شروع میں ہیش ٹیگ، It Starts With Your Name، کے ساتھ جاری کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے اسے یوٹیوب پر دس لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے جبکہ ٹوئٹر پر اسے 80 لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا گیا ہے۔

بہت سے صارفین اس برانڈ کی جانب سے سب طرح کے لوگوں کی شمولیت کے پیغام اور ایک ٹرانس جینڈر ماڈل کو مرکزی کردار میں پیش کرنے پر اس کی تعریف کر رہے ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ 'والدین کی محبت اور ان کے ٹرانس بچے کو قبول کرنا ہی حقیقتاً سب کچھ ہے۔ جبکہ ایک اور صارف نے لکھا کہ 'یہ ٹرانس فوبیا سے آگے نکلنے کا وقت ہے۔'

لیکن اس اشتہار کو کچھ صارفین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ ایسے صارفین نے برانڈ پر ٹوکن ازم یعنی برائے نام ایسا کرنے کا لزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ یہ 'انڈین ثقافت کے خلاف' ہے۔

Getty Imagesماڈل گلوریس لونا کو گورو کپتا کے ممبئی میں سٹور کے افتتاح میں دیکھا جا سکتا ہے

بہر حال یہ پہلا اشتہار نہیں ہے جس نے انڈیا میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے بارے میں مباحثے کو جنم دیا ہے۔

سنہ 2021 میں انڈین جیولری ہاؤس بھیما کے ایک اشتہار نے ایک ٹرانس عورت کی تبدیلی کی داستان سنانے کے لیے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ اس میں ٹرانس جینڈر ماڈل میرا کو دکھایا گیا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس اشتہار سے 'مجھے اپنے آپ سے زیادہ مطمئن ہونے میں مدد ملی۔'

انڈیا میں ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ ٹرانس جینڈریا خواجہ سرا ہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے باوجود کہ انھیں دوسری جنسوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں، بہت سے لوگ بدسلوکی کا شکار رہتے ہیں اور انھیں کلنک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کئی ٹرانس جینڈر لوگ اپنے خاندانوں سے الگ ہو جاتے ہیں اور انھیں گزر بسر کے لیے بھیک مانگنے، جسم فروشی یا تقریبات میں پرفارم کرنے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

تاہم اس کمیونٹی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ چیزیں آہستہ آہستہ بہتری کے لیے بدل رہی ہیں۔ ان کے مطابق کم از کم مخصوص جگہوں پر تو ایسا ہو رہا ہے اور وہ اور ان کی کہانیوں کو مرکزی دھارے کی ثقافت میں کچھ حد تک نمائندگی مل رہی ہے، چاہے وہ اشتہارات میں ہوں، فلموں یا فیشن شوز میں ہوں۔

حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے انڈیا کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ باوقار فیشن ایونٹس میں سے ایک لیکمے فیشن ویک میں پہلی بار اس کے ماڈلز کے پول میں دو ٹرانسجینڈر خواتین اور ایک نان بائنری شخص کو شامل کیا گیا تھا، اور انھوں نے انڈیا کے کچھ سرکردہ ڈیزائنروں کے لیے ریمپ پر واک کی تھی۔ اس تقریب میں معروف ڈیزائنر سائشا شندے کا ایک مجموعہ بھی پیش کیا گیا جنھوں نے سنہ 2021 میں خود کو بطور ٹرانس جینڈر خاتون کے متعارف کرایا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کی وہ ٹرانسجینڈر خاتون جن کی موت کی درخواست نے سب کو ہلا دیا

معروف فیشن ڈیزائنر سواپنل شندے جنس تبدیل کروا کر ٹرانس وومن بن گئے

مین اسٹریم فیشن میگزین ٹرانس ماڈلز کی پروفائلنگ کر رہے ہیں۔ چند سرکردہ ڈیزائنرز انھیں تقریبات کے لیے تیار کر رہے ہیں اور انھیں اپنے کیمپین کے لانچ اور سٹور کی افتتاح میں شامل کر رہے ہیں۔

ممبئی میں مقیم 32 سالہ ریان منکی ایک ٹرانس جینڈر خاتون ہیں جو فیشن اور کوئیر کی تقریبات پر لکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خواجہ سراؤں کو یہ مواقع ملتے ہوئے دیکھنا حوصلہ افزا لگتا ہے۔

وہ کہتی ہیں: 'کمیونٹی سے کسی کو سٹار بکس کے کمرشل میں یا فیشن میگزین کے سرورق پر دیکھنا بہت معنی رکھتا ہے۔ یہ روایتی طور پر اعلیٰ ترین، اشرافیہ کی جگہیں ہیں اس لیے یہاں ان کی نمائندگی ٹرانسجینڈر لوگوں کی تصویر کشی کے طریقے اور ان کے مقام میں تبدیلی کی علامتیں ہیں۔'

درگا ایک فنکار اور ایکٹیوسٹ ہیں۔ انھوں نے کئی اعلیٰ ترین فیشن برانڈز کے لیے ماڈلنگ کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ (درگا اپنے لیے ضمیر کے وہ سب/ان سب کے لیے کا استعمال کرتی ہیں) آج فیشن کے میدان میں انھیں پچھلے کچھ سالوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مواقع حاصل ہیں۔

وہ کہتی ہیں: 'عالمی سطح پر، مزید جامع جگہیں بنانے کی طرف ایک تبدیلی آ رہی ہے اور برانڈز کو اس ذہنیت کو برقرار رکھنا ہوگا اگر وہ حسب حال بنا رہنا چاہتے ہیں۔'

لیکن وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتی ہیں کہ اکثر ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے چند مراعات یافتہ افراد ہی ان مواقع تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔

ڈیزائنر سائشا شندے بتاتی ہیں کہ برانڈز اکثر صرف پرائڈ والے مہینے میں ہی ٹرانس لوگوں کو دکھانے کی برائے نام کوشش کرتے ہیں اور سال کے باقی مہینوں میں اس کمیونٹی کو بھول جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا: 'حقیقت یہ ہے کہ ریمپ پر چلنے والی ایک ٹرانس ماڈل کو 'گراؤنڈ بریکنگ' سمجھا جاتا ہے اور یہی اہم مسئلہ ہے۔ ٹیلنٹ کی کوئی جنس نہیں ہونی چاہیے۔ فیشن لیبلز اور برانڈز کو 'اپنے برانڈز کے نرالے پن' کو اجاگر کرنے کے لیے ٹرانس ماڈلز کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، بلکہ انھیں اپنی باقاعدہ مہمات میں شامل کرنا چاہیے اور انھیں معمول کا حصہ بنانا چاہیے۔'

لیکن کچھ ڈیزائنروں کا کہنا ہے کہ سامعین کی جانب سے آگاہی اور حمایت کی کمی کی وجہ سے ایسا کرنا مشکل ہے۔ فیشن کی دنیا میں صرف چند لوگ ہی گاہکوں کو کھونے کا خطرہ مول لینے کو تیار ہیں اور اس لیے اس صنعت کی سطح پر کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

فیشن لیبل 'پاپا ڈونٹ پریچ' کی بانی شوبھیکا شرما کے ملبوسات عالیہ بھٹ اور پیرس ہلٹن جیسے عالمی شہرت کی حامل شخصیات نے پہن رکھے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں سرگرم ایکٹیوسٹ اور شاعر آلوک وید-مینن کے ساتھ مل کر ایک جیولری کلیکشن لانچ کیا ہے، تاکہ ان کے شمولیت اور قبولیت کے پیغام کو نمایاں کیا جاسکے۔

شرما کا کہنا ہے کہ جب بھی برانڈ سوشل میڈیا پر اپنے کلیکشن کے بارے میں پوسٹ کرتا ہے یا اپنی تخلیقات کے لیے کسی ٹرانس ماڈل کو محور بناتا ہے، تو اس کے ہزاروں فالوورز ختم ہوجاتے ہیں۔

وہ کہتی ہین کہ 'پرتعیش فیشن مارکیٹ اس وقت مشکل دور میں ہے؛ ڈیزائنرز کو بل ادا کرنے اور اپنے کاریگروں کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ لہذا اگرچہ تاریخی طور پر تخلیق کاروں اور فنکاروں کی یہ ذمہ داری رہی ہے کہ وہ معاشرے کو مزید کھل کر سوچنے پر مجبور کریں، لیکن اس طرح کی چیز مستقل طور پر کرنے کے لیے یہ ایک مشکل وقت ہے۔'

لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ جب سماجی اقدار اور رویوں کو تبدیل کرنے کی بات آتی ہے تو برائے نام نمائندگی بھی خوش آئند بات ہے۔

مصنف اور کالم نگار سنتوش دیسائی کہتے ہیں کہ 'نفرت کے لیے ہی سہی ریکارڈ پر ان (ٹرانس کمیونٹی کی) کی نمائندگی تو ہے، جو ان کی کسی بھی نمائندگی نہ ہونے سے بہتر ہے۔ رد کیے جانے اور غصے کے درمیان ہی کوئی نمائندگی رفتہ رفتہ آتی ہے اور وقت کے ساتھ قابل قبول ہوتی ہے۔'

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More