ماحولیات کے سائنسدان سڑکوں پر سراپا احتجاج کیوں ہیں؟

بی بی سی اردو  |  May 21, 2023

Scientist Rebellion

دنیا بھر میں سائنس دانوں کی بڑی تعداد نے ڈائریکٹ ایکشن یا براہ راست اقدامات کا سہارا لیا ہے اور وہ موسمیاتی تبدیلی کی ہنگامی صورت حال پر توجہ دلانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔

اس کے تحت وہ خود کو عوامی عمارتوں کے سامنے زنجیروں میں جکڑ رہے ہیں اور سڑکوں کو بلاک کر رہے ہیں اور اسے وہ موسمیاتی ہنگامی صورت حال پر احتجاج کرنا کہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بحران کا پیغام اب سائنسی جریدوں تک محدود نہیں رہ سکتا، کیونکہ ’گھر(زمین) میں آگ لگی ہوئی ہے۔‘

لیکن ایسے سائنس دان بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے ذریعے موسمیاتی بحران کے خطرے کو ہوا دینے سے زیادہ بہتر ان کے لیے یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کا سائنسی حل تلاش کرنے کے لیے مزید کچھ کریں۔

سائنس دانوں کا ایک بین الاقوامی نیٹ ورک ’سائنٹسٹ ریبلین‘ کئی ممالک میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے احتجاج اور براہ راست مظاہروں کا اہتمام کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان کے شرکاء کی تعداد 2000 سے زیادہ ہو چکی ہے۔

Jordan Andres Cruz’میں آب و ہوا کے ساتھ ناانصافی پر شرمندہ ہوں، گرفتار ہونے پر نہیں‘

ایسی ہی ایک سائنسدان کارنیلیا ہتھ ہیں جو جرمنی کی رہنے والی ہیں۔ 20 سال سے زیادہ کا تجربہ رکھنے والی وبائی امراض کی ماہر نے کئی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا ہے۔

گذشتہ اکتوبر میں میونخ میں ایک سڑک کو بلاک کرنے کے لیے انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا، اور ان پر زبردستی کاروں کو سڑک پر چلنے سے روکنے اور عام ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

ان کے خلاف عدالتی مقدمہ جاری ہے، لیکن کارنیلیا ہتھ کہتی ہیں کہ وہ اپنی مہم جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’سائنس نے موسمیاتی تبدیلی یا آب و ہوا کی خرابی کو روکنے کے حل بتائے ہیں لیکن ہماری حکومتیں انھیں اپنا نہیں رہی ہیں اور اسی وجہ سے ہمیں سڑک پر نکلنا پڑ رہا ہے۔‘

اقوام متحدہ کا موسمیاتی تبدیلی یا آب و ہوا کے متلعق کانفرنس سی او پی 28 متحدہ عرب امارات میں منعقد ہو رہی ہے جو سنہ 2015 میں پیرس میں ہونے والی ایک بڑی بین الاقوامی کانفرنس میں آب و ہوا کے متفقہ اہداف کی طرف ہر ملک کی پیشرفت کا پہلی بار جائزہ لے گی۔

Renovate Switzerland

اس معاہدے کا مقصد عالمی درجہ حرارت میں اوسطاً اضافے کو صنعتی دور کے مقابلے میں دو ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنا ہے جبکہ کوشش یہ کرنی ہے کہ یہ 1.5 ڈگری پر رہے کیونکہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک محفوظ حد ہے۔

اسے حاصل کرنے کے لیے، دنیا کو 2030 تک کاربن کے اخراج کو 2019 کی سطح سے 43 فیصد تک کم کرنا ہوگا۔

لیکن گذشتہ سال اقوام متحدہ کے آخری جائزے سے ظاہر ہوا کہ دنیا میں کاربن کے اخراج میں کمی کے بجائے 2010 کی سطح سے 11 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

کارنیلیا ہتھ کہتی ہیں کہ دنیا کے جنوبی خطے کے لیے اس سے بھی زیادہ خطرات ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’وہاں رہنے والے لوگوں نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بہت کم حصہ ڈالا ہے لیکن ان کے اثرات سے ہم یہاں جرمنی میں کافی حد تک خطرے میں ہیں، میں اس موسمیاتی ناانصافی پر شرمندہ ہوں۔‘

عوام کی جانب سے عمل یا اشاعت؟

کچھ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ لوگ موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے آگاہ ہیں اور اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے سائنسدانوں کے احتجاج کی ضرورت نہیں ہے۔

ان میں سے ایک جیسکا جیول ہیں۔ وہ چیلمرز یونیورسٹی میں ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ان کے خیال میں احتجاج کرنے سے سائنسدانوں کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’سائنس دانوں کا کردار آزادانہ طور پر خطرات اور آپشنز کا جائزہ لینا ہے، یہ خاص طور پر اہم ہے کیونکہ ہر موسمیاتی آپشن، بشمول جس کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے اس میں جیتنے والے اور ہارنے والے دونوں آپشنز ہیں۔ اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے سائنسدانوں کو اس بحث میں مخصوص سیاسی ایکٹرز کی خدمت کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’حقیقت یہ ہے کہ ہنگامی صورتحال کے سامنےہمارے لیے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اس کو حل کرنے کے لیے مزید سائنس کا استعمال کریں۔‘

WILLIAM DICKSON

ایک اور آب و ہوا کے سائنسدان زیکے ہاس فادر نے پچھلے سال ٹویٹ کیا تھا کہ ’میں موسمیاتی سائنسدانوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے مورد الزام ٹھہرانے کی احمقانہ اور گمراہ کن کوششوں کا عادی ہوں۔‘

’لیکن آب و ہوا کے سائنسدانوں کا ہڑتال کرنا اور سائنسی کام کرنا بند کرنا کوئی حل نہیں بلکہ بیوقوفی کا سپرنووا ہے۔‘

سنہ 2021 میں 31 ممالک میں بی بی سی ورلڈ سروس کے سروے میں پایا گیا کہ اوسطاً 56 فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت مضبوط اہداف مقرر کرے جو جلد از جلد موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹ سکیں۔

مزید 36 فیصد چاہتے تھے کہ ان کی حکومت زیادہ معتدل انداز اختیار کرے اور انھوں نے بتدریج کارروائی کی حمایت کی۔

’بہت ہو چکی سائنس‘

وہ سائنسدان جنھوں نے احتجاج کا سہارا لیا ہے ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ چار دہائیوں میں کافی تحقیق ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی پی سی سی کی چھ رپورٹس میں حل پہلے ہی دکھائے جا چکے ہیں لیکن حکومتیں ان پرعمل نہیں کر رہی ہیں۔

پروفیسر جولیا سٹینبرگر، جنھوں نے آب و ہوا کے احتجاج کے لیے گرفتاری اورعدالتی مقدمے کا سامنا کیا ہے، وہ گذشتہ سال شائع ہونے والی آئی پی سی سی رپورٹس میں سے ایک کی مرکزی مصنف رہ چکی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’جب یہ شائع ہوا، میں نے چند دنوں میں میڈیا کی درخواستوں کا جواب دیا، جس کے نتیجے میں میڈیا کے 42 مضامین ہو گئے۔‘

چھ ماہ بعد، میں ایک احتجاج میں شاید 20 منٹ کے لیے سوئس موٹر وے پر بیٹھی تھی اور مجھے آج تک اس ایک کام کی وجہ سے میڈیا کی جانب سے درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔

'لہذا، میڈیا پر اثرات کے لحاظ سے، اور آب و ہوا کے بحران کی فوری ضرورت کے موضوع کو مدنظر رکھتے ہوئے، موٹر وے پر بیٹھ کر گزارے گئے میرے چند منٹ آئی پی سی سی کی رپورٹ پر میرے برسوں کے کام سے کہیں زیادہ اثر انگیز تھے۔‘

Scientist Rebellion’جب سائنسدان سامنے آتے ہیں تو لوگ سنتے ہیں‘

اپنی تحقیقات اور نتائج سامنے لانے سے پہلے، آئی پی سی سی کے سائنس دان رپورٹ کے مواد پر اتفاق کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے موسمیاتی عمل میں شریک پالیسی سازوں اور حکومتوں کے نمائندوں کے ساتھ بند دروازے کے پیچھے کئی دنوں تک میٹنگز کرتے ہیں۔

امریکہ میں ارضیات کے سائنسدان روز ابراموف کا خیال ہے کہ تمام تر سائنسی کوششوں کے باوجود حکومتوں کی جانب سے شاید ہی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہو جس کی بنیادی وجہ ایندھن اور زرعی کاروباری لابی ہیں جو اب بھی ملک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

ایکواڈور میں کاربن سائنسدان جارڈن اینڈریس کروز بھی اس سے متفق ہیں۔

اینڈیز کے دور دراز پہاڑوں کے علاوہ شہروں میں احتجاج کرنے والے سائنسدان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے اقدامات نہ صرف حکومتوں پر دباؤ ڈالتے ہیں، بلکہ وہ عوام کو متوجہ بھی کرتے ہیں اور اس سے انھیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ موسمیاتی بحران کتنا سنگین ہے۔‘

ان میں سے ایک گذشتہ سال دارالحکومت کوئٹو میں وزارت ماحولیات کا حصہ تھے۔ انھوں نے دیگر سائنسدانوں کے ساتھ مل کر اس سرکاری ادارے کی دیواروں اور کھڑکیوں پر موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سائنسی تحقیقی مقالے چسپاں کیے تھے۔

’اس کا مقصد حکومت کے دوہرے معیار کو بے نقاب کرنا تھا: ایک طرف یہ عالمی فورمز پر خود کو ماحول دوست کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ ساتھ ہی یہ ایکواڈور کے ایمیزون خطے میں تیل کی پیداوار بڑھانا چاہتے ہیں۔‘

’ماحولیاتی تبدیلی کے لیے ایکشن لینے کا وقت ختم ہو رہا ہے اور اگر سائنس دان (جن کے پاس علم ہے) عام لوگوں کو خبردار نہیں کرتے اور حکام پر دباؤ نہیں ڈالتے، تو مجھے نہیں پتا کہ اور کونیہ کر سکتا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More