کمپیوٹر گیمز بچوں کو پیسے خرچ کرنے کی ترغیب کیسے دیتی ہیں؟

بی بی سی اردو  |  May 21, 2023

نارا وارڈ کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے بچوں کے اخراجات پر نظر رکھنا ایک کل وقتی کام لگتا ہے اور وہ بھی اس وقت جب وہ اپنے پسندیدہ کمپیوٹر گیمز کھیل رہے ہوں۔

مسز وارڈ اپنے شوہر اور اپنے بیٹوں 14 سالہ فن اور 12 سالہ لیف کے ساتھ بارباڈوس میں رہتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ جب لیف نے 'روبلوکس' نامی گیم کھیلنا شروع کیا، تو اس نے 'روبوکس' یعنی گیم کی کرنسی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ یہ کرنسی اس گیم کے کھلاڑیوں کو اپنے کردار کو اپ گریڈ کرنے یا ورچوئل چیزیں خریدنے کی اجازت دیتی ہے۔ لیف کے دادا دادی نے اسے کرسمس کے لیے 200 امریکی ڈالر کے ایپل کریڈٹ دیے۔

نارا وارڈ نے بتایا کہ ’مجھے اس بات سے بہت صدمہ پہنچا کہ اس نے سارے کے سارے پیسے چند دنوں میں ہی خرچ کر دیے۔ اس کے بعد، میں نے اسے ہر ماہ 10 ڈالر سے زیادہ مالیت کا روبوکس نہیں دیا۔ وہ جلد ہی اس کھیل سے مایوس اور بور ہو گیا۔‘

اس کے بعد لیف کی دلچسپی ورلڈ آف ٹینک میں پیدا ہو گئی۔ اس کھیل میں بھی کھلاڑیوں کو پلے سٹیشن کریڈٹ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ہتھیاروں کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مسز وارڈ بتاتی ہیں کہ ’لیکن اس گیم میں کریڈٹ حاصل کرنے کے لیے اشتہارات دیکھنے کا آپشن موجود ہے۔ اور جب اس کا اپنا ماہانہ گیمنگ الاؤنس ختم ہو جاتا تو وہ مجبوری میں اس آپشن کا استعمال کیا کرتا تھا۔‘

مسز وارڈ کہتی ہیں کہ ان کے چھوٹے بیٹے کو ابھی تک خود پر قابو پانا یا پیسے کو خرچ کرنے کی سمجھ نہیں آئی ہے۔ ’یہ ایسی چیز ہے جس کی مجھے مسلسل نگرانی کرنی پڑتی ہے۔‘

ویڈیو گیم کی ابتدائی فروخت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے بہت سی گیمنگ کمپنیاں آج گیم کے اندر خریداریوں، یا مائیکرو ٹرانزیکشنز سے حاصل ہونے والی آمدنی پر انحصار کرتی ہیں۔

خریدا گیا مواد خالصتاً جمالیاتی ہو سکتا ہے، جیسے رقص کے انداز، جلد کی دیکھ بھال یا لباس۔ لیکن گیمز میں یہ ہوتا ہے کہ گیم کے اندر خریداریاں کھیل میں حکمت عملی کے لحاظ سے فائدہ دے سکتی ہیں، جیسے کہ اضافی زندگیاں، کردار یا ہتھیاروں میں اپ گریڈ، ایسے دوسرے کھلاڑیوں پر برتری فراہم کرتے ہیں جنھوں نے اضافی مواد نہیں خریدے ہیں۔

عالمی آن لائن مائیکرو ٹرانزیکشن کی مارکیٹ سنہ 2022 میں 67.94 ارب ڈالر سے بڑھ کر رواں سال 76.66 ارب ڈالر ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

تاہم ماہرین اور صارفین دونوں کی طرف سے یکساں ردعمل کے آثار ہیں۔ نیز، کچھ کمپنیاں ایسی نئی گیمز کی ریلیز کا وعدہ کر رہی ہیں جن میں گیم کے اندر خریداری نہیں ہے۔

پروفیسر سارہ ملز کہتی ہیں کہ گیمنگ کمپنیاں رویے اور رجحانات کی نفسیات کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کو اخراجات میں اضافہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور یہ کہ گیمنگ اور جوئے کے درمیان فرق ’تیزی سے دھندلا‘ ہوتا جا رہا ہے۔

مزملز لفبورہ یونیورسٹی میں انسانی جغرافیہ کی پروفیسر ہیں۔ ان کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جوئے کی تکنیک گیمرز کو زیادہ دیر تک کھیلنے پر مجبور کرتی ہے اور زیادہ پیسہ خرچ کراتی ہے، اور بار بار خریداری کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

وکی شاٹبولٹ بچوں کے معاملے میں والدین کی مدد کرنے والے ادارے پیرنٹ زون کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ یہ تنظیم والدین کو اپنے بچوں کے لیے ڈیجیٹل دنیا سے متعارف کرانے میں مدد کرتی ہے۔ وہ اس بارے میں زیادہ مخصوص طور پر کہتے ہیں کہ کس طرح گیمز کھلاڑیوں کو ان کے زیادہ پیسے خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

پیسے لگانے سے کھلاڑی ’محنت سے بچ سکتے ہیں۔‘ یعنی گیم میں خریداری کرنے کا مطلب ہے کہ آپ دوسرے مرحلے میں پہنچنے کے لیے گھنٹوں کی محنت سے بچ جاتے ہیں۔

ایسے میں آپ کو ’فن پین‘ یعنی مزے میں کڑواہٹ کا احساس ہوتا ہے اور وہ یہ مرحلہ جب آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر آپ نے وہ چیز خرید لی ہوتی تو آپ اس ہار کے خطرے سے بچ جاتے۔

اس کے ساتھ ہی گیم کے اندر خریداری کے لیے ’مبہم بنانے کی تکنیک‘ آپ پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیتی کہ آپ کتنا خرچ کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

چین میں بچوں کو رات کے وقت موبائل گیمز کھیلنے سے کیسے روکا جائے گا؟

’میرا بیٹا آن لائن گیمز کھیلتے ہوئے جوئے کی لت کا شکار بنا‘

آن لائن گیمنگ یا ’روح کی افیون‘

ایک اور حربہ ’لوٹ باکس‘ کا استعمال ہے۔ کھلاڑی یہ جانے بغیر کہ باکس کے اندر کیا ہے ایک باکس خرید لیتے ہیں۔ اس میں گیم بدلنے والا سامان ہو سکتا ہے، لیکن زیادہ تر اس میں معمولی حسب ضرورت چیز سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا ہے۔

پروفیسر ملز کا کہنا ہے کہ ’نوجوانوں نے شرمندگی کے احساس کا اظہار کیا جب انھیں اس بات کو یاد کرنے کے لیے کہا گیا کہ انھوں نے کسی نایاب چیز کے حاصل کرنے کے لیے کتنی رقم خرچ کی تھی، اگرچہ وہ کامیاب بھی ہوئے ہوں۔‘

اگرچہ بہت سے بچوں کے یہ کہنے کے باوجود کہ وہ کھیل میں خریداری کو ناپسند کرتے ہیں یہ بالکل متوقع ہے کہ وہمائیکرو ٹرانزیکشنز پر پیسہ خرچ کردیں۔

بہر حال گیمز پر اخراجات میں اضافہ ہوا ہے، کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ گیمز کھیلنے سے نوجوانوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور اس کے متعلق اندیشوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کھیل کی ایک شکل کے طور پر گیمنگ تناؤ کو دور کرنے، علمی مہارتوں کو فروغ دینے اور تنہائی کا مقابلہ کرنے میں مدد کرتی ہے۔

کولوراڈو سے تعلق رکھنے والے ژینگہوا یانگ نے نوعمری کے دو سال ہسپتال میں گزارے۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں نے بہت سارے ویڈیو گیمز کھیلے۔ سنگل پلیئر گیمز مجھے ایک ہیرو جیسا محسوس کراتا تھا۔ ملٹی پلیئر گیمز مجھے دوسرے لوگوں سے جوڑتا تھا۔ میں نے پوری دنیا میں دائمی دوست بنائے۔‘

سنہ 2014 میں مسٹر یانگ نے دوسروں کی مدد کرنے کے منصوبے کے تحت ایک گیمنگ کمپنی سیرینیٹی فورج قائم کی۔ آج تک، 20 ملین سے زیادہ لوگ اس کمپنی کے گیمز کھیل چکے ہیں۔

مسٹر یانگ کہتے ہیں کہ ’ہم لوگوں کے سوچ کے دائرے کو پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔‘

سیرینٹی فورج مائیکرو ٹرانزیکشنز کا استعمال نہیں کرتی ہے لیکن مسٹر یانگ کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اس میں تبدیلی آ سکتی ہے اگر انھیں ’معنی خیز، جذباتی طور پر اثر انگیز گیمز جو آپ کے سوچنے کے انداز کو چیلنج کرتے ہیں بنایا جائے۔‘

مسٹر یانگ کا کہنا ہے کہ مائیکرو ٹرانزیکشن کا اثر صارف کی کمزوری پر منحصر ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’جس طرح کریڈٹ کارڈ کسی کے لیے نامناسب حالات میں خطرناک ہو سکتا ہے، اسی طرح مائیکرو ٹرانزیکشنز بھی ہو سکتا ہے۔ بہر حال، جس طرح کریڈٹ کارڈز اہم کام انجام دے سکتے ہیں اسی طرح گیم کے اندر خریداری بھی اپنے پسندیدہ گیم سے مشغول ہونے والے گیمر کے لیے اہم ہو سکتی ہے۔‘

سارہ لویا کا 14 سالہ بیٹا اینڈریو اپنی تقریباً تمام جیب خرچ گیمنگ پر خرچ کرتا ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ یہ ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ گیمنگ اسے خوش کرتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ روزانہ سکول کے بعد اور ویک اینڈ پر کھیلتا ہے۔ مجھے اس میں واقعی زیادہ برائی نظر نہیں آتی۔ وہ ایک ذہین بچہ ہے اور حقیقت اور فسانے میں فرق جانتا ہے۔‘

مز لویا ٹیکسس میں اینڈریو اور اس کے چھ سالہ بھائی ریکس، کے ساتھ رہتی ہیں۔

43 سالہ مز لویا کہتی ہیں کہ ’میرا بینک اکاؤنٹ اینڈریو کی سبسکرپشن سے منسلک ہے، لہذا اگر وہ کوئی چیز بغیر اجازت خریدتا ہے تو مجھے پتہ چل جاتا ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ خریداری کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھتا ہے۔‘

جہاں والدین کے لیے مختلف پلیٹ فارمز اور ڈیوائسز پر رجسٹرڈ ای میلز، پاس ورڈز اور ادائیگی کارڈز کا ٹریک رکھنا مشکل ہو سکتا ہے لیکن ایسے طریقے ہیں جن سے آپ اپنے نوعمر بچے اور اپنے بینک اکاؤنٹ کی حفاظت کر سکتے ہیں۔

چائلڈ اکاؤنٹس اور پیرنٹل کنٹرولز کو خریداریوں کو غیر فعال کرنے یا خرچ کی حد مقرر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ والدین خریداری پر آگاہ کیے جانے کے لیے ای میل الرٹ ترتیب دے سکتے ہیں، اور کریڈٹ کارڈز کے بجائے گفٹ کارڈز استعمال کر سکتے ہیں۔

مسٹر یانگ کا کہنا ہے کہ شاید سب سے اہم بات اپنے بچوں سے بات کرنا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے تجربے میں آیا ہے کہ والدین کی موجودگی کی کمی وجہ سے تناؤ پیدا ہوتا ہے۔ میرے پاس اب دو بچے ہیں اورگیمز کو بچوں کی مشغول کرنے کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے میں اس بات کو یقینی بناتا ہوں کہ جب وہ اس کا استعمال کر رہے ہوں تو میں ان کی زندگیوں میں موجود ہوں۔‘

بارباڈوس واپس آتے ہیں جہاں مسز وارڈ نے لیف کی گیمنگ کو محفوظ بنانے کے لیے سکرین ٹائم کی حد مقرر کی ہے اور پاس کوڈز لگا دیے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کوئی بھی خریداری کرنے کے لیے میرے پاس ورڈ کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے اکاؤنٹ میں رقم ڈالنا چاہے تو اسے مجھ سے پوچھنا ہو گا۔ مائیکرو ٹرانزیکشنز پریشان کن ہیں لیکن یہ زندگی کا سبق ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More