Getty Images
چین نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے متنازع علاقے میں آئندہ ہفتے منعقد ہونے والے جی 20 ٹوراِزم اجلاس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے شرکت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
چینی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’چین متنازعہ علاقوں میں جی 20 کا کوئی بھی اجلاس بلانے کی بھرپور مخالفت کرتا ہے اور ایسی کسی بھی میٹنگ میںشرکت نہیں کی جائے گی۔‘
اس سال جی 20 کی میزبانی انڈیا کے پاس ہے اور ستمبر میں نئی دہلی میں منعقدہ سمٹ سے قبل انڈیا نے ملک بھر میں متعدد اجلاس منعقد کروائے ہیں۔
اس سلسلے میں انڈیا نے 22 سے 24 مئی تک جی 20 رکن ممالک کے ٹورازم ورکنگ گروپ کا اجلاس بلایا تھا۔
انڈیا کی جانب سے اس حوالے سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر اجلاسمنعقد کروانے کے لیے آزاد ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے جمعہ کو بیان میں کہا گیا ہے کہ سرحدوں پر امن چین کے ساتھ نارمل تعلقات استوار کرنے کے لیے اہم ہے۔
اس سے قبل، سرکاری سرپرستی والے چینی اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ میں چین کے ’سٹریٹجی انسٹیٹیوٹ‘ کے سربراہ کیوان فینگ نے لکھا ہے کہ ’بھارت کی مودی حکومت کشمیر میں جی 20 تقاریب کے انعقاد سے کشمیر سے متعلق اپنی سفارتی فتح کا اعلان کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ ہندو اکثریتی آبادی میں اپنی ساخت مزید مضبوط کر سکے۔‘
خیال رہے کہ انڈیا نے سنہ 2019 میں اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے وفاق کے زیرِ انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔
Getty Images
گو پاکستان جی 20 کا رکن ملک نہیں لیکن اس کی جانب سے بھی انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جی 20 اجلاس منعقد کرنے کی مخالف کی جا چکی ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’انڈیا اس تقریب سے عالمی سطح پر کشمیر میں اپنی سبھی کاروائیوں کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
پاکستانی وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے رواں ماہ انڈیا کے شہر گوا میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی تھی تاہم اس دوران پاکستان اور انڈیا کے وزرا خارجہ کے درمیان علیحدہ ملاقات نہیں ہوئی۔
اس اجلاس کی نمایاں جھلکی بھی یہی تھی کہ پاکستان اور انڈیا کے نمائندوں نے اگرچہ اتنے قریب آ کر بھی دو طرفہ رابطے بحال نہ کیے مگر اپنی اپنی حیثیت میں ایک دوسرے کو خوب ’منھ توڑ جواب‘ دیے۔
اخبار دی ہندو کو دیے انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگست 2019 میں انڈیا کی جانب سے جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کی گئی جس کے بعد انڈیا سے رابطے بحال کرنے والوں کے لیے اپنے موقف پر قائم رہنا مشکل ہو گیا۔
بلاول نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بات چیت نہ ہونے کی یہی واحد وجہ ہے، ’پانچ اگست کے اقدام نے بات چیت کے دروازے بند کر دیے۔‘
دوسری جانب اپنے خطاب میں بلاول بھٹو کی جانب سے دہشت گردی کو ’سفارتی پوائنٹ سکورنگ‘ کے لیے استعمال کیے جانے کی بات پر انڈین وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے دہشت گردی کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھا کرتے بلکہ ان کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔
دوسری جانب جانب چین اور انڈیا کے درمیان سنہ 2020 میں لداخ میں ہونے والی جھڑپوں کے باعث 24 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد حالات تاحال تناؤ کا شکار ہیں۔
خیال رہے کہ جی 20 کا یہ تین روزہ اجلاس سرینگر کی ڈل جھیل کے کنارے پر منعقد ہو رہا ہے اور یہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ’ایسے علاقوں میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے جہاں بدامنی کا خدشہ ہے تاکہ کسی بھی قسم کے دہشتگرد حملے کا امکان ختم کیا جا سکے۔‘
جمعے کو ایلیٹ انڈین کمانڈو سرینگر کی گلیوں میں پٹرولنگ کرتے نظر آئے اور پورے شہر میں اس دوران انڈیا کا جھنڈا اور جی 20 کے پوسٹرز آویزاں کیے گئے۔