’عائشہ معصوم تھی۔ ابھی پلے گروپ میں تھی اور جس روز یہ واقعہ پیش آیا اس روز وہ سکول سے چھٹی کرنے کی ضد کر رہی تھی مگر ماں نے زبردستی سکول بھیجا۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی کہ آج آخری چھٹی کر لیتی ہوں، پھر نہیں کروں گی۔‘
ساڑھے پانچ سالہ عائشہ دو روز قبل سوات کے سنگوٹہ پبلک سکول کی بس پر فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئی تھیں۔ فائرنگ کے اس واقعے میں عائشہ ایک ایک بہن سمیت سات بچیاں زخمی ہوئی ہیں۔ پولیس کے مطابق سکول بس پر فائرنگ اُسی سکول کی سکیورٹی پر معمور پولیس اہلکار عالم نے کی تھی جو فی الحال زیر حراست ہے۔
عائشہ کے چچا حیات علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خاندان کی بیشتر بچیاں اسی سکول میں پڑھتی ہیں اور وہ روزانہ عموماً اکٹھے ہی سکول جاتی ہیں۔
بس میں سوار بچیوں نے بتایا کہ فائرنگ اس وقت کی گئی جب وہ بس میں بیٹھ رہی تھیں۔
BBCعائشہ کی عمر ساڑھے پانچ سال تھی
حیات علی نے عائشہ کی والدہ سے بات کی اور بی بی سی کو بتایا کہ ’صبح جب نیند سے عائشہ کو جگایا گیا تو اس نے سکول نہ جانے کی ضد کی جس پر اس کی والدہ نے کہا کہ سکول تو جانا پڑے گا۔‘
’جیسا کہ بچے سکول جاتے ہوئے ضد کرتے ہیں تو عائشہ نے بھی یہ کہا کہ آج آخری چھٹی کر لیتی ہوں، پھر نہیں کروں گی مگر والدہ نہیں مانیں۔ اس پر عائشہ نے اپنی والدہ سے فرمائش کی کہ وہ سکول سے واپسی پر شوارمہ کھائیں گی جس پر والدہ نے اس کہا کہ ٹھیک ہے تم سکول سے واپس آؤ گی تو میں تمھارے لیے شورامہ تیار رکھوں گی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’عائشہ کی والدہ آج بھی صدمے میں ہیں اور بار بار کہہ رہی ہیں کہ انھوں نے عائشہ کی سکول نہ جانے کی ضد کیوں نہیں مانی۔‘
عائشہ کے بہن جو سکول بس میں اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھیں وہ اس واقعے میں دیگر چھ بچیوں کے ساتھ زخمی ہوئی ہیں۔
حیات علی نے بتایا کہ ’ہم سب بھائی اور ہمارے بچے ایک ہی مشترکہ گھر میں رہتے ہیں اور سب بھائیوں کے بچے اکٹھے سکول جاتے اور واپس آتے ہیں۔‘
تحقیقات کہاں تک پہنچیں؟Getty Imagesفائل فوٹو
پولیس حکام نے گذشتہ روز بھی اہل علاقہ سہے ملاقات میں یقین دہانی کرائی ہے کہ اس واقعہ کی جامع تحقیقات کروا کر ملوث فرد/افراد کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں گی۔
مقامی انتظآمیہ کے مطابق سنگوٹہ پبلک سکول کی کوسٹر پر فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی جو چار دنوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ داخلہ اور ڈی آئی جی انوسٹیگیشن محکمہ پولیس کمیٹی کے ممبرز مقرر کیے گئے ہیں۔
یہ کمیٹی اس واقعہ کی تفصیلی رپورٹ پیش کرے گی اور اس کے علاوہ جس پولیس اہلکار نے فائرنگ کی اس کی مکمل پروفائل پیش کی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ اس اہلکار کی صحت کے حوالے سے جانچ پڑتال کر کے رپوٹ پیش کی جائے گی۔
ایک افسر کے مطابق اس کے علاوہ کمیٹی اس اہلکار کے قریبی افراد خاص طور پر ایسے عناصر جو شدت پسندی میں ملوث ہیں، ان سے رابطوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کریں گے۔
کمیٹی یہ بھی معلوم کرے گی کہ اس اہلکار کے خاندانی حالات کس طرح کے تھے اور اگر متعلقہ پولیس افسران اور کانسٹیبل سے محرر تک کو جب اس اہلکار کی حالت کا علم تھا تو اس کے باوجود اسے یہاں کیوں تعینات کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ صوبائی حکومت اور انسپکٹر جنرل آف پولیس نے سنگوٹہ سکول واقعہ کے تحقیقات کے لیے دو رکنی سینیئر افسران کی کمیٹی مقرر کی ہے جس میں ڈی آئی جی انویسٹیگیشن اور ایڈیشنل سیکریٹری جوڈیشل شامل ہیں۔
کمیٹی نے پولیس افسران، سکول انتظامیہ اور عملے سے ملاقات کی ہے جبکہ علاقے کے عمائدین اور جرگہ ارکان سے بھی بات چیت کی ہے۔ اس کے علاوہ کوسٹر کا جائزہ بھی لیا گیا ہے تاکہ اس واقعہ کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔
’اچانک اسے کچھ ہوا ہے کہ اس کے ذہن نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے‘
اس واقعے کے فوری بعد سوات کے ضلعی پولیس افسر شفیع اللہ گنڈہ پور نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ واقعہ بظاہر پولیس اہلکار کی نفسیاتی حالت کی وجہ سے ہوا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں تحقیقات کی جائیں گی۔
اس بارے میں ملزم پولیس اہلکار عالم کے والد محمد عمر سے ٹیلیفون پر رابطہ ہوا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ان کا بیٹا ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہے، کبھی کبھار اس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ سمجھ بوجھ نہیں سکتا۔‘
ضلعی پولیس افسر شفیع اللہ گنڈہ پور نے بی بی سی کو بتایا کہ ابتدائی تفتیش سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پولیس اہلکار کے بارے میں کوئی ایسی رپورٹ موجود نہیں ہے جس کے مطابق اس کے تعلقات کسی مسلح گروہ سے ہوں مگر تحقیقات خصوصی تحقیقاتی ٹیم کر رہی ہے اور جو بھی نتائج سامنے آئیں گے اس بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ انھیں ماضی میں سکول انتظامیہ کی جانب سے ایسی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی کے متعلقہ پولیس اہلکار کو یہاں ڈیوٹی سے ہٹایا جائے۔
swat policeکیا پولیس اہلکاروں کا معائنہ ضروری ہے؟
موجودہ حالات میں جب تشدد کے واقعات معمول بن چکے ہیں اور ایسے علاقے جہاں گذشتہ دو دہائیوں سے مسلسل تشدد اور شدت پسند تنظیموں کی کارروائیاں رپورٹ ہو رہی ہیں وہاں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی مکمل جانچ پڑتال اور ان کے تعلقات کے بارے میں اعلی حکام کے پاس معلومات موجود ہونا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے ان اہلکاروں کی نفسیاتی صورتحال کے حوالے سے بھی جائزہ لینا ضروری ہے اور اس بارے میں صوبائی حکومت نے احکامات بھی جاری کر دیے ہیں۔
سوات سکول فائرنگ واقعے کے پیش نظر، عوامی مقامات پر فرائض سر انجام دینے والے اہلکاروں اور ان کے ساتھ دیگر افراد کی سیکیورٹی پروفائل کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے علاوہ ان کے نفسیاتی صحت سے بھی آگاہی کے لیے انھیں نفسیاتی جائزے سے گزارا جائے گا۔
اس کے لیے ایسے ایس او پیز ترتیب دیے جائیں گے جس کے تحت ایسے تمام اہلکاروں اور دیگر ملازمین کو ہر چھ ماہ میں ایک مرتبہ اس طرح کے عمل سے گزارا جائے گا اور ان کی رپورٹس ترتیب دی جائیں گی۔
محکمہ داخلہ کا صوبائی محکمہ پولیس کو اس ضمن میں ضروری اقدامات کے لیے خط ارسال کر دیا گیا ہے۔
سنگوٹہ پبلک سکول 2009 سے 2012 تک بند رہا
سوات کے علاقے سنگوٹہ میں یہ کرسچن مشنری سکول ہے جو سنہ 1962 میں قائم کیا گیا تھا۔
یہ سکول آخری والیِ سوات نے حکم پر قائم کیا گیا تھا اور انھوں نے ہی اس سکول کے لیے زمین اور فنڈز جاری کیے تھے۔
اس علاقے میں یہ کانونٹ سکول معیاری تعلیم کے لیے جانا جاتا ہے۔
جب علاقے میں شدت پسندی عروج پر تھی اور اس کے بعد علاقے میں فوجی آپریشن کیے جا رہے تھے تب یہ سکول 2009 سے 2012 تک بند رہا تھا۔
اس علاقے میں جب شدت پسندی عروج پر تھی تو اس دوران اس سکول کو بھی دھمکی آمیز خطوط بھیجے گئے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ یہ سکول فوری طور پر بند کر دیا جائے۔
سوات اور اس کے قریبی علاقوں میں جب شدت پسندی شروع ہوئی تو سب سے پہلے بچیوں کی تعلیم پر پابندیاں عائد کر دی گئی تھی۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کا تعلق بھی سوات سے ہی ہے جو ان پابندیوں کے باوجود تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں رہیں اور بعد میں ان پر حملہ بھی کیا گیا تھا۔