جنس کا تعین انسان کے احساسات کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا: وفاقی شرعی عدالت کا ٹرانس جینڈر ایکٹ پر فیصلہ

بی بی سی اردو  |  May 19, 2023

Getty Images

پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے ملک میں موجود خواجہ سراؤں کی جنس سے متعلق دائر درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ خواجہ سرا ذاتی تصورات کی بنیاد پر خود کو مرد یا عورت نہیں کہلوا سکتے اور نہ ہی خواجہ سرا سرکاری دستاویزات میں اپنی جنس تبدیل کر سکتے ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ٹرانس جنڈر ایکٹ میں ترامیم کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہو گا ۔

یاد رہے کہ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے اس ایکٹ کے خلاف جماعت اسلامی اور حکمراں اتحاد میں شامل جمعت علمائے اسلامفضل الرحمن گروپ کے علاوہ ایک درجن سے زائد درخواست گزاروں نے وفاقی شرعی عدالت میں درخواستں دائر کی تھیں۔

عدالت نے اس ایکٹ کی روشنی میں نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے بنائے گئے رولز کو بھی معطل کر دیا۔

جمعت علمائے اسلام کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواست کی پیروی کرنے والے وکیل کامران مرتضیٰ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ایکٹ کے خلاف ان کی درخواست میں مؤقف یہ تھا کہ سیکس کا تعین قدرت کرتی ہے اور انسان اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتا۔

انھوں نے کہا کہ اس درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ محض احساسات کی بنیاد پر جنس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے کہا کہ عدالت نے ان کے اس مؤقف کو تسلیم کیا کہ جنس وہی رہے گی جو پیدائش کے وقت تھی۔

کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کا مؤقف یہ تھا کہ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والا یہ ایکٹ دین اسلام میں خواجہ سراؤں سے متعلق دیے گئے حقوق کے خلاف ہے، اس لیے انھوں نے اس ایکٹ کو شرعی عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

Getty Imagesوفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں مزید کیا کہا گیا؟

وفاقی شرعی عدالت کےفیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ شریعت کسی کو نا مرد ہو کر جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی جنس وہی رہ سکتی ہے، جو پیدائش کے وقت تھی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ دین اسلام کے ارکاننماز، روزہ اورحج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے اور جنس کا تعلق بائیوجیکل سیکس سے ہوتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خواجہ سراؤں کی جنس کا تعین جسمانی اثرات پرغالب ہونے پر کیا جائے گا ، جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہو گا۔

فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جنس کا تعین کسی فرد کےاحساسات سے نہیں کیا جا سکتا اور اسلام بھی خواجہ سراؤں کو تمام بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے، اسلام میں خواجہ سراؤں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجود ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن 2 این شریعت کیخلاف نہیں اور خواجہ سرا آئین میں درج تمام بنیادوں حقوق کے مستحق ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ شریعت کسی کو نا مرد ہو کر جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی، کوئی شخص اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کرسکتا، جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی۔

’شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے‘

خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ٹرانس ایکشن پاکستان سے تعلق رکھنے والی نایاب علی کا کہنا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے انھیں ان درخواستوں پر ان کا مؤقف جاننے کے لیے طلب کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ انھوں نے اس ایکٹ کے حق میں اور ان درخواستوں کے خلاف دلائل دیے تھے تاہم فیصلے میں ان کے مؤقف کو تسلیم نہیں کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ وہ اپنے وکلا سے مشاورت کے بعد وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گی۔

دوسری جانب اس کیس میں بطور فریق پیش ہونے والی خواجہ سرا الماس بوبی کا کہنا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے سے ان کے مؤقف کی جیت ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سینکٹروں افرادجو مرد تھے، نے محض ذاتی تصورات کی بنیاد پر نادرا سے خواجہ سرا کے شناختی کارڈ بنوا رکھے ہیں جو حقیقی خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق صلب کرنے کے مترادف ہے۔

انھوں نے کہا کہ خواجہ سراوں نے اس ایکٹ کے خلاف سنہ 2017 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے سامنے پیش کیا تھا لیکن انھوں نے اس کو سنے بغیر ہی واپس کر دیا تھا۔

الماس بوبی کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک بھر میں رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی تعداد 12 ہزار کے قریب ہے۔

دوسری طرف نادرا کے ترجمان فائق علی کا کہنا ہے کہ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق اب تک 3100 خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ شناختی کارڈ میڈیکل سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر نہیں بلکہدرخواست دہندہ کے ذاتی تصورات کی بنیاد پر جاری کیے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کی روشنی میں اب نادرا نئی پالیسی وضح کرے گا۔

AFPٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018 کیا ہے؟

ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ میں خواجہ سراؤں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنی جنس کی شناخت کر سکتے ہیں اور اسے تبدیل کروا سکتے ہیں۔

نادرا سمیت تمام سرکاری ادارے اس بات کے پابند ہیں کہ خواجہ سرا اپنی جس شناخت کو چاہیں وہ ہی ان کے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ پر درج کی جائے گیایکٹ میں بحیثیت پاکستانی شہری ان کے تمام حقوق تسلیم کیے گئے ہیں۔ انھیں ملازمتوں، تعلیم حاصل کرنے اور صحت کی سہولتوں تک فراہمی کو قانونی حیثیت دی گئی جبکہ وراثت میں ان کا قانونی حق بھی تسلیم کیا گیا ہےخواجہ سراؤں کو کوئی سہولت دینے سے انکار اور امتیازی سلوک پر مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔

اس ایکٹ میں خواجہ سرا کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تین طرح کے ہو سکتے ہیں

انٹر سیکس خواجہ سرا:ان میں مردوں اور خواتین دونوں کی جینیاتی خصوصیات شامل ہوں یا جن میں پیدائشی ابہام ہو۔جنس تبدیل کروانے والے : دوسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں، جو پیدائشی طور پر مرد پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں اپنی جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ اپنی پیدائشی جنس سے الگ محسوس کرنے والے: تیسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں، جو پیدائش کے وقت کی اپنی جنس سے خود کو مختلف یا متضاد سمجھتے ہوں۔

قمر نسیم خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں اور مذکورہ قانون کے حوالے سے مہم چلانے والوں میں بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’انٹر سیکس سے مراد پیدائشی مخنث افراد ہیں۔ دوسرے نمبر پر ان مردوں کی تشریح کی گئی ہے جو اپنے جنسی اعضا کی طبی طریقے سے ترمیم کرواتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تیسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں جو اپنی پیدائش کی جنس یا صنف سے متضاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ’جیسے پیدائشی لڑکا دعویٰ کرے کہ وہ لڑکی ہے یا پیدائشی لڑکی دعویٰ کرے کہ وہ لڑکا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More