کھانسی کے شربت سے بچوں کی اموات: انڈیا کا ادویات بنانے کی پالیسی تبدیل کرنے پر غور

اردو نیوز  |  May 18, 2023

انڈیا ملک میں تیار کردہ کھانسی کے شربت کی وجہ سے بیرون ملک ہلاکتوں کے سبب اپنے ادویہ سازی کی صنعت کی پالیسی میں تبدیلی پر غور کر رہی ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے آفس کی ایک دستاویز کے مطابق ادویہ سازی کی صنعت کی پالیسی میں ’اہم چیزیں‘ نظر انداز کی گئی ہیں۔

15 مئی کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ حیدرآباد میں انڈیا سے برآمد کردہ شربت سے بیرون ملک ہلاکتوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک جلاس ہوا۔

وزارت صحت کے مطابق وزیر صحت منسک منداویا اور مرکزی اور ریاستی ریگولیٹری باڈی کے حکام اجلاس میں شریک ہوئے۔

دستاویز کے مطابق پالیسی میں تبدیلیاں کی گئی کیونکہ ’اہم چیزوں‘ کو نظرانداز کیا گیا تھا۔

معاملے کی آگاہی رکھنے والے ایک ذریعے کے مطابق پالیسی میں تبدیلی کا مطلب ہے کہ انڈیا کی 41 ارب ڈالر کی ادویہ سازی کی صنعت میں نگرانی مزید سخت کی جائے گی۔

پالیسی میں تبدیلی کے تحت مجوزہ اقدامات میں کھانسی کے شربت اور دیگر حام مال کے زیادہ ٹیسٹ بھی شامل ہے۔

دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ کھانسی کے شربت کے مسئلے کو وزیراعظم آفس نے ایڈرس کیا ہے۔

روئٹرز کی جانب سے سوال کا مودی آفس اور وزارت صحت نے کوئی جواب نہیں دیا۔

انڈیا کی ڈرگ ریکولیٹر، سینٹرل ڈرگس سٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن نے کھانسی کے شربت کو برآمد کرنے سے پہلے سرکاری لیبارٹریز سے ٹیسٹ کرانے کی تجویز دی ہے۔

گذشتہ سال عالمی ادارہ صحت نے انڈیا میں تیار کردہ کھانسی کے شربت میں خطرناک حد تک دو زہریلے مادے کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا۔ مذکورہ شربت کو پینے سے گیمبیا میں 70 بچے ہلاک ہوگئے تھے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اموات کے ذمہ داوں کو وہ سپلائی چین میں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی ہے۔

انڈیا نے ایک دوسری کمپنی کے خلاف کارروائی کی تھی جس کے تیار کردہ کھانسی کے شربت پینے سے ازبکستان میں 19 بچے ہلاک ہوگئے تھے۔

عالمی ادارہ صحت نے ایک تیسری انڈین کمپنی کا پتہ لگایا تھا جس نے زہریلی شربت مارشل آئلینڈ اور میکرونیسیا برآمد کی تھی۔

انڈیا کی وزارت صحت کے حکام کے مطابق زہریلی شربت پینے سے ہلاکتوں کے واقعات نے انڈیا کی ادویہ سازی کی صنعت کو نقصان پہنچایا۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More