Getty Images
چند سال پہلے واشنگٹن میں ولسن سینٹر تھنک ٹینک میں ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے انڈیا کا دورہ کیا تھا، اور اس دورے کے دوران انڈیا کے ایک مقامی تجزیہ کار نے انھیں جو بات کہی وہ انھیں آج بھی یاد ہے۔
انڈین تجزیہ کار نے مائیکل کوگلمین کو کہا تھا کہ ’اگر پاکستان ناکام ہوتا ہے تو ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ ہمیں اپنے ساتھ لے کر نہ ڈوبے۔‘
حالیہ ہفتوں میں پاکستان سیاسی اور معاشی بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی کرپشن کے الزام میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے شروع ہوئے۔ پاکستان جو پہلے ہی مہنگائی اور مایوس کن شرح نمو سے بھی نمٹ رہا ہے اور ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ پاکستانی سیاست کے ایک اہم کھلاڑی یعنی پاکستانی فوج کے ساتھ عمران خان کی محاذ آرائی بظاہر بڑھ رہی ہے، جس کے چند افسران پر معزول رہنما (عمران خان) نے انھیں قتل کرنے کی کوشش کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ’جب آپ کا حریف ہمسایہ ملک، ایک ایسا ملک جو بہترین وقت کے باوجود غیر مستحکم ہے، شدید سیاسی تناؤ، بڑے پیمانے پر بدامنی اور خاص طور پر فوجی قیادت کے ساتھ ہم آہنگی کے بارے میں خدشات کا سامنا کر رہا ہے، تو آپ کو فکرمند ہونا چاہیے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں جاری تناؤ انڈیا تک پھیل سکتا ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ یہ کشیدگی پاکستان کی توجہ ان چیزوں سے ہٹا سکتی ہے جن سے انڈیا کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ عسکریت پسند۔‘
سنہ1947میں آزاد ہونے کے بعد سے انڈیا اور پاکستان تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ایک کو چھوڑ کر باقی سب کشمیر پر تھیں۔ سنہ 2019 میں انڈیا نے کشمیر میں انڈین فوجیوں پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد پاکستانی علاقے میںفضائی حملے کیے تھے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی حالیہ یادداشت میں دعویٰ کیا ہے کہ ان حملوں کے بعد دونوں ممالک جوہری جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے۔ لیکن 2021 میں طے پانے والی ایک نئی سرحدی جنگ بندی نے معاملات کو قابو میں رکھا ہے۔
تو کیا انڈیاکو اپنے پڑوس میں پیدا ہونے والی بدامنی کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے؟
واشنگٹن ڈی سی میں ہڈسن انسٹیٹیوٹ اور ابوظہبی میں انور قرقاش ڈپلومیٹک اکیڈمی کے سکالر اور سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کہتے ہیں کہ حالیہ تاریخ کو دیکھیں تو موجودہ بحران انڈیا کے لیے زیادہ پریشان کُن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’سیاسی افراتفری ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب پاکستان کو بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کمزور اور اندر سے منقسم دکھائی دیتی ہے۔‘
Getty Images
مائیکل کوگلمین جیسے ماہرین نے دو انتہائی منظرناموں کو مسترد کیا ہے: پہلا یہ کہ پاکستان مصالحت کے لیے انڈیا سے رابطہ کر ے گا، حالانکہ ’یہ الگ بات ہے کہ انڈیا اس میں دلچسپی نہیں لے گا۔‘ اور دوسرا یہ کہ پاکستان انڈیا پر توجہ مرکوز کرنے والے عسکریت پسندوں کو سرحد پار حملہ کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔
مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ’اس وقت پاکستان ایک اور تنازع اور وہ بھی انڈیا کے ساتھ پیدا کرنا برداشت نہیں کر سکتا۔‘ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کو پریشان کرنے والی بات یہ ہے کہ ایسی صورت حال دو انتہاؤں کے درمیان آتی ہے۔
کوگلمین کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میںاندرونی مسائل سے پریشان پاکستان کے پاس سرحد پار کسی بھی قسم کے خطرے سے بچنے کے لیے توانائیاں نہیں ہوں گی۔‘
لندن کی ایس او اے ایس یونیورسٹی میں سیاست اور بین الاقوامی مطالعہ پڑھانے والے اویناش پالیوال بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود معاشی اور سیاسی بحران سرحد پر جنگ بندی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں جنگ بندی کے ضامن شدید مشکلات کا شکار ہیں۔‘
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ بندی کا خاتمہ انڈیا کے لیے سٹریٹجک خطرہ نہیں ہے لیکن چین کے ساتھ جاری فوجی تنازع کی موجودگی میں یہ مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ انڈیا اور چین کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے ہیں، یہ ہمسایہ ریاستیں اپنی متنازع زمینی سرحد پر طویل عرصے سے تنازعات کا شکار ہیں۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا کو پاکستان کے ساتھ اپنے ’جنون‘ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور اس بحران سے ضرورت سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ بہت سے انڈینز کے خیال میں انڈیا کی معیشت پاکستان سے 10 گنا بڑی ہے اور اس پریشان حال پڑوسی کی معیشت انڈیا کی امیر ترین ریاست مہاراشٹر سے بھی چھوٹی ہے۔
Getty Images
مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ اس طرح کے ردعمل مکمل طور پر متوقع ہوتے ہیں۔ ’قومیں حریفوں کو پریشان ہوتے دیکھنا چاہتی ہیں، اور خاص طور پر جب ان حریفوں کو جن کے بارے میں خیال ہو کہ انھوں نے سرحد پار حملوں کی سرپرستی کی ہے اور ان کے خلاف جنگیں کی ہوں۔پاکستانی فوج کی مشکلات کو دیکھ کر بھی انڈیا کو ایک خاص اطمینان حاصل ہوتا ہے۔‘
مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ 'لیکن اگر انڈیا اس سب سے لطف اندوز ہو رہا ہے اور پاکستان سے پیدا ہونے والے خطرات کے بارے میں بھی لاپرواہ ہے تو یہ بھی خطرناک ہے۔‘
جیسا کہ حسین حقانی کہتے ہیں، یہ سچ ہے کہجوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ملک کا معاشی عدم استحکام اور سیاسی افراتفری کی لپیٹ میں ہونا انڈیا کے مفاد میں نہیں ہے۔
تاہم پاکستان میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر شرت سبروال جیسے مبصرین کا خیال ہے کہ یہ بحران پاکستان کا خاتمہ نہیں کر سکتا تاہم اس کا سفر مزید مشکل بنا سکتا ہے اور’پاکستان اپنا یہ مشکل سفر جاری رکھے گا۔‘
اس صورتحال میں انڈیا کو کیا کرنا چاہیے، اس بارے میں پاکستان میں انڈیا کے سابق ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون کا کہنا ہے کہ ’ان حالات میں شاید سب سے بہتر صورت یہ ہو گی کہ موجودہ کم از کم دو طرفہ تعلقات جوں کے توں برقرار رہیں اور لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی برقرار رہے۔‘
حسین حقانی جیسے دیگر لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا سرحد پر کڑی نظر رکھتے ہوئے ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی اپنا رہا ہے اور ضروری ہے کہ وہ غافل نہ رہے جبکہ مائیکل کوگلمین کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’انڈیا کو اب بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘